فاطمہ بھٹو کی کتاب ”خون اور تلوار کے گیت“ سے اقتباس
پیپلز پارٹی کے بانی اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی، بینظیر بھٹو کی بھتیجی اور مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو کے مستقبل میں کیا عزائم ہیں؟ اس حوالے سے نہ تو انہوں نے کبھی پروگرام جاری کیا ہے اور نہ ہی عملی سیاست میں انہوں نے کبھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ لیکن حال ہی میں شائع ہونیوالی ان کی کتاب ”خون اور تلوار کے گیت“ میں انہوں نے مستقبل میں اپنے سیاسی حریف کی واضح طور پر نشاندہی کر دی ہے انہوں نے صدر آصف زرداری کے حوالے سے جو انکشافات کئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ چند سال میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وراثت پر بھٹو خاندان میں ایک نئی چپقلش کا آغاز ہو سکتا ہے۔ فاطمہ نے آصف زرداری کو اپنی کتاب میں ایک ایسی شخصیت قرار دیا ہے جسے خاندان میں کوئی نہیں پسند کرتا تھا۔ شائد اسی وجہ سے فاطمہ نے زرداری کے بارے میں نہ صرف ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ بلکہ ان کے بارے میں کوئی مثبت رائے بھی نہیں دی۔ فاطمہ نے زرداری سے متعلق جو رائے قائم کی ہے اس کا پس منظر سیاسی ہے اور اس کی جڑیں ماضی میں بہت دور تک پھیلی دکھائی دیتی ہیں۔ البتہ فاطمہ کو یہ داد دنیا پڑےگی کہ اس نے بڑے سلیقے سے اس ناپسندیدگی اور مستقبل کے سیاسی عزائم کا اظہار کیاہے ان کی بات کو پکڑ کر اس پر بحث مباحثہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہنے دی۔ فاطمہ بھٹو نے ایک بیٹی کی یادداشتوں میں تحریر کیا ہے کہ1988ءکے الیکشن میں ان کے والد مرتضیٰ بھٹو نے بینظیر کو بہت روکا کہ آصف زرداری کو لیاری سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ نہ دیا جائے۔ مگر بینظیر نے بھائی کی ایک نہ مانی اور شوہر کو ٹکٹ جاری کر دیا۔ فاطمہ کو اس بات پر بھی بہت افسوس ہے کہ آصف زرداری نے مجھے اس وقت باپ کے قتل کی اطلاع دی۔ جب ابھی میں کمسن تھی اور باپ پر قاتلانہ حملے کی وجہ سے سخت پریشان تھی۔ مگر آصف زرداری نے نہائت بے رحمانہ انداز میں ایک افسردہ، ملول اور پریشان بیٹی کو اس کے قتل کی خبر ایسے سنائی جیسے ہتھوڑا مارا جاتا ہے۔ فاطمہ نے صرف آصف زرداری کو ہی ہدف تنقید نہیں بنایا بلکہ اپنی پھوپھی بینظیر پر بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں طنز کے تیر برسائے ہیں۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ بینظیر نے ان کے والد مرتضیٰ بھٹو کوپاکستان نہ آنے کا کہا اور انہیں وطن آنے سے مسلسل روکتی رہیں، جس کا مقصد صرف پیپلز پارٹی پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا تھا۔ فاطمہ کو بینظیر دور میں اپنے چچا شاہنواز بھٹو کے قتل کا مقدمہ دوبارہ کھول کر قتل کی وجہ اور قاتلوں کو منظر عام پر نہ لانے کا بھی افسوس ہے اور فاطمہ اس کا ذمہ دار بینظیر کو قرار دیتی ہیں۔ اشارے کنائے میں فاطمہ بھٹو نے اپنے والد مرتضیٰ اور چچا شاہنواز کے قتل بارے ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے اگرچہ کسی پر الزام بھی نہیں لگایا۔ مگر ایک مفروضہ یہ پیش کیا ہے کہ چونکہ ان کی پھوپھی بینظیر بھٹو امریکہ و یورپ کی انتہائی پسندیدہ شخصیت رہی ہیں اور بینظیر کے دل میں بھی مغرب کے بارے میں ایک خاص ہمدردی تھی۔ جبکہ ان کے والد اور چچا کبھی مغرب نواز نہیں رہے نہ ہی مغرب نے کوئی بڑا کام لینے کیلئے ان کی پشت پر ہاتھ رکھا ،ان کی یہ بات اس حد تک درست تسلیم کی جا سکتی ہے کہ مرتضیٰ اور شاہنواز نے اپنی طویل جلاوطنی کے دوران امریکہ یا برطانیہ میں کبھی طویل مدت تک قیام نہیں کیا گیا مگر شاہنواز بھٹو کے قتل سے چند روز پہلے دونوں بھائیوں نے فرانس میں کچھ عرصہ تک رہائش رکھی۔ فاطمہ نے اپنے والد کی طرف سے مبینہ طور پر قائم کردہ اپنے داد سے منسوب تنظیم الذوالفقار کے وجود سے تو نہ ہی انکار نہ ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرتضیٰ و شاہنواز نے یہ تنظیم قائم نہیں کی تھی واضح رہے کہ ضیاء دور میں مسلسل اور بعد ازاں نواز شریف تکرار کے ساتھ الذوالفقار کی بنیاد پر پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کو دہشتگرد قرار دیتے رہے۔ تاہم فاطمہ نے ضیاءدور میں پی آئی اے کے مسافر بردار طیارے کے اغواء کے الذوالفقار پر الزام کی تردید کی ہے اور دلیل دی ہے کہ ہائی جیکروں کے سرغنہ صلاح الدین ٹیپو کا اس تنظیم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جہاز اغواءان کی اپنی کارروائی ہے میر مرتضیٰ کے ایک قریبی ساتھی کے حوالے سے فاطمہ نے انکشاف کیا ہے کہ صلاح الدین ٹیپو خود ہمارے پاس آیا تھا۔ لیکن تنظیم میں شمولیت کیلئے کسی کا خواہش کرنا یا اعلان کرنا ضروری نہیں تھا۔ بلکہ یہ اختیار قیادت کو حاصل تھا کہ وہ کسی کا انتخاب کر کے اس کو تنظیم میںشمولیت کی دعوت دیں۔ فاطمہ بھٹو نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ بینظیر بھٹو نے پاکستان آمد کے بعد الیکشن کے دوران اپنی سکیورٹی کیلئے بدنام زمانہ امریکی سکیورٹی ایجنسی بلیک واٹرز کا انتخاب کیا اور اس سلسلے میں کمپنی کی انتظامیہ سے رابطہ کیا مگر بلیک واٹرز نے بینظیر کی سکیورٹی خدمات ہاتھ میں لینے سے انکار کر دیا۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کے اصل جانشین ذوالفقار جونیئر ہونگے۔ کیونکہ سیاست میں طویل جدوجہد کے باوجود پذیرائی نہ ملنے پر ان کی والدہ غنویٰ بھٹو تھک ہار کر مایوس ہو کر بیٹھ رہی ہیں تاہم خیال کیا جا رہا ہے۔ کہ ذوالفقار جونیئر کے سیاست کی عمر تک پہنچنے تک فاطمہ یہ ٹائٹل اپنے پاس رکھنا چاہتی ہیں۔ مگر اب یہ خدشہ جڑ پکڑ رہا ہے کہ بھٹو کی اپنی اولاد ان کی سیاست وراثت حاصل کرنے کیلئے عملی کوشش کا آغاز کر سکتی ہے۔
Bookmarks