بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
طاقت بمقابلہ دلیل
محمود سرحدی
متحدہ مجلس عمل کے سیکرٹری اور جمیعت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے برطانیہ میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوۓ کہا ہے کہ دنیا کی موجودہ جنگ امن اور دہشت گردی کے درمیان نہیں بلکہ طاقت اور دلیل کے درمیان ہے، میرا یورپ اور امریکا کو مشورہ ہے کہ وہ طاقت کی بجاۓ دلیل سے بات کریں۔ مولانا نے جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کی اصابت میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں۔ ہر صاحب شعور جانتا ہے کہ یورپ اور امریکا نے جس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا ہے اور اس سلسلے میں بالخصوص عالم اسلام کو نشانہ بنایا جارہا ہے وہ انصاف کے تقاضوں سے کوسوں دور بلکہ ظلم و*سفاکیت کی ایک گھناؤنی مثال ہے۔
سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟ کیا اپنی آزادی ، خود مختاری اور قومی وقار کا تحفظ کرنا دہشت گردی ہے؟ کیا کسی ظالم و*جابر طاقت کے خلاف آواز حق بلند کرنا دہشت گردی ہے؟ کون نہیں جانتا کہ یورپ اور امریکا نے طاقت کے بل پر لفظ "دہشت گردی" کو جو نۓ معنی پہناۓ ہیں، وہ کسی بھی انصاف پسند کو قبول نہیں ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اسرائیل کی غاصب حکومت عرصہ دراز سے ارض فلسطین پر قبضہ جماۓ بیٹھی ہے اور فلسطینیوں کو اپنے ہی ملک میں سر چھپانے اور باعزت طریقے سے رہنے سے محروم کیا جارہا ہے، آۓ دن مظلوم فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور اقوام متحدہ کے ادارے سمیت پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ پوری آزاد دنیا جارح اسرائیل کو لگام ڈالتی اور فلسطینیوں کی تحریک آزادی کی مکمل حمایت کرتی، لیکن اس کے برعکس یورپ اور امریکا اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کر*رہے ہیں بلکہ اسرائیل کا وجود ہی ان کے مرہون منت ہے۔ اگر اہل فلسطین مظالم سے تنگ آکر اپنی آزادی کی خاطر بندوق اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں تو دنیا انہیں دہشت گرد کہنے لگتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے ظلم و*ستم کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کو کوئی بھی دہشت گردی نہیں کہتا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جب حماس کے روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین رحمہ اللہ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں جام شہادت نوش کرگۓ تو امریکا نے یہ کہہ کر مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی کہ اسرائیل کو اپنے تحفظ کا حق حاصل ہے۔
گزشتہ ٥٧ (ستاون) سال سے مسئلہ کشمیر ایک رستا ہوا ناسور بنا ہوا ہے، انڈیا کی حکومت اہل کشمیر کو حق خود ارادیت دینے پر کسی طرح راضی نہیں ہورہی ہے، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود وہاں اب تک راۓ شماری نہ ہوسکی۔ مظلوم کشمیری ہندوستان کے پنجۂ استبداد کے نیچے کراہ رہے ہیں، اب اگر کچھ سرپھروں نے انڈیا کو سبق سکھانے کی خاطر بندوق اٹھائی ہے تو وہ دہشت گرد کہلاتے ہیں جبکہ دوسری طرف انڈیا کی جابر حکومت جس نے لاکھوں افواج کشمیر میں اتار کر کشمیری عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے وہ امن کی "چیمپئن" بنی ہوئی ہے۔
کیا یہ انصاف کا خون نہیں ہے کہ ایک جارح طاقت اپنے پورے لاؤ لشکر اور ٹیکنالوجی سمیت کسی کے گھر کو غارت کرے تو وہ امن کا ٹھیکیدار کہلاۓ اور اگر گھر کا مکین بے چارگی کے عالم میں اپنے جسم سے بم باندھ کر اپنے گھر کے دفاع پر قربان ہو*جاۓ تو وہ دہشت گرد قرار دیا جاۓ، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بڑی طاقتیں بلا روک ٹوک تباہ کن ہتھیاروں کے ڈھیر لگائیں اور دوسروں کو اپنے دفاع کی خاطر بھی اسلحہ رکھنے کی اجازت نہ ہو، کیا یہ ایک سنگین مزاق نہیں ہے کہ ایک بڑا ملک اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے ہیروشیما اور ناگاساکی کو نمونۂ عبرت بنانے کے بعد بھی انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار بنا پھرتا ہے اور ایک اسلامی ملک کی صرف اس بنا پر اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے کہ اس نے تباہ کن ہتھیار جمع کر رکھے ہیں جن سے دنیا کو خطرہ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ یورپ اور امریکا طاقت کے نشے میں اس حد تک چلے گۓ ہیں کہ ان کے لۓ عدل و*انصاف کے الفاظ بے معنی ہو کر رہ گۓ ہیں، ان کے ہاں ان کا ہر قول و*فعل انصاف کا معیار بن گیا ہے۔ ان کی مرضی ہے کہ جب چاہیں کسی مظلوم ملک پر چڑھ دوڑیں اور نہایت ڈھٹائی سے یہ کہتے پھریں کہ ہم اس کو آزادی دلانا چاہتے ہیں۔ پوری دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ عراق کو سالہا سال تک اقتصادی پابندیوں میں جکڑ کر رکھا گیا جس کے نتیجے میں معصوم بچے غزائی قلت کی وجہ سے بلک بلک کر دم توڑتے رہے اور پھر جب جی چاہا تو اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور ایک آزاد و*خود مختار ملک صرف اس جھوٹے الزام کی بنا پر تاراج کیا گیا کہ اس نے خطرناک ہتھیار بنا رکھے ہیں۔ حالانکہ اب اس جھوٹ کا پول کھل چکا ہے کہ یہ بات سراسر الزام تراشی تھی جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت اس بنا پر منظر سے ہٹا دی گئی کہ انہوں نے اسامہ کو پناہ دے رکھی ہے۔ جب طالبان نے اسامہ کے خلاف لگاۓ گۓ الزامات کے ثبوت مانگے تو امریکا بوکھلا گیا اور طاقت کے اندھے استعمال پر اتر آیا اور پھر افغانستان میں وحشیت و*سفاکیت کا جو کھیل کھیلا گیا اور اب تک کھیلا جارہا ہے۔ وہ انسانیت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ سے کم نہیں ہے۔
یورپ اور امریکا کی ان ہی ناانصافیوں کے خلاف قدرتی طور پر جو ردعمل دنیا کے گوشے گوشے سے اٹھ رہا ہے یہ اس کو دہشت گردی کا نام دے کردنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں حالانکہ دنیا کا شعور اتنا کمزور نہیں ہوا ہے کہ سامنے کی حقیقتوں کا ادراک بھی نہ کرسکے۔ آج اسی ردعمل کے شعلے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں، یورپ اور امریکا اگر اس آگ کو ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کمزور اور پسے ہوۓ اقوام کے دکھ درد کو سمجھنا ہوگا، انہیں اپنی ان پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہوگا جنہوں نے اس ردعمل کو وجود بخشا ہے، انہیں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے، جب تک "عمل" ختم نہیں ہوگا اس کے ردعمل کو نہیں روکا جاسکتا۔ انہیں یہ تاریخی حقیقت نہیں فراموش کرنی چاہۓ کہ جب بھی کوئی فرد یا قوم تمام حدوں کو پھلانگتے ہوۓ فرعون بن جاتی ہے تو اس کے مقابلے کے لۓ پردۀ غیب سے کوئی نہ کوئی موسٰی ضرور پیدا ہوتا ہے۔ مسئلہ کسی ایک اسامہ یا القائدہ کا نہیں، جب تک ناانصافی پر مبنی پالیسیاں تبدیل نہیں کی جاتیں سینکڑوں القائدہ اور ہزاروں اسامہ جنم لیتے رہیں گے اور یورپ و*امریکا کا سکون غارت ہوتا رہے گا۔
٭.........٭.........٭
Bookmarks