آرٹ اور موسیقی کے ذریعے امن کا پیغام
مناء رانا
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
امریکہ میں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے واقعے کے بعد کی دنیا میں جہاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکہ اور مغربی ممالک میں ایک رد عمل ظاہر ہوا وہیں اسلام کا خوشگوار چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوششیں بھی بڑے پیمانے پر شروع ہو گئیں۔
دستاویزی فلم کے مناظر
اس فلم میں ایسے نظریات ہیں جو پاکستانی معاشرے میں قابل قبول نہیں
پاکستان اور ہندوستان نژاد امریکی مسلمان نوجوان موسیقاروں نے تقویٰ کور نامی میوزیکل بینڈ کے ذریعے دنیا کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان شدت پسند نہیں بلکہ موسیقی سے محبت کرتے ہیں۔
اس گروپ نے اسلام کی روح کو ایک نئے تصور میں ضم کرنے کو کوشش کی۔
پاکستانی نژاد کینیڈا کے ایک مسلمان ڈائریکٹر عمر مجید نے اس گروپ پر ایک دستاویزی فلم بنائی اس کا نام بھی تقوی کور ہے۔
امریکہ میں بوسٹن فلمی میلے اور انگلینڈ میں نمائش کے بعد اس فلم کا پریمیر شو نیشنل کالج آف آرٹس کے آڈیٹوریم میں پیر کو دکھایا گیا۔نیشنل کالج آف آرٹس میں پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کی بڑی تعداد نے اس فلم کو دیکھا۔
میوزیکل بینڈ
تقویٰ کور نامی میوزیکل بینڈ کے ذریعے دنیا کو بتانے کی کوشش ہے کہ مسلمان شدت پسند نہیں بلکہ موسیقی سے محبت کرتے ہیں
اس فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عمار عزیز اس دستاویزی فلم کو پاکستان میں دکھانے کا انتظام کر رہے ہیں۔
عمار عزیز کا کہنا ہے کہ یہ فلم اسلام کی ایک نئی ضمنی ثقافت کا احاطہ کرتی ہے جسے تقویٰ کور کا نام دیا گیا ہے۔یہ ایک آمیزہ ہے اسلام کے نظریات کا پنک کلچر کے ساتھ اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک امریکی نو مسلم مائکل محمد نائیک نے اس نئے تصور کے بارے میں کتاب لکھی۔
عمار عزیز کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ایک خیالی تصور ہے لیکن امریکہ میں اس پر کئی بینڈ بنے۔ انہوں نے کہا کہ تقویٰ کور دستاویزی فلم مائیکل محمد نائیک کے اپنے موسیقی کے بینڈ پر مبنی ہے اور یہ بینڈ اسی تصور کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ فلم اسلام کی ایک نئی ضمنی ثقافت کا احاطہ کرتی ہے جسے تقویٰ کور کا نام دیا گیا ہے۔یہ ایک آمیزہ ہے اسلام کے نظریات کا پنک کلچر کے ساتھ اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک امریکی نو مسلم مائکل محمد نائیک نے اس نئے تصور کے بارے میں کتاب لکھی
عمار عزیز
عمار عزیز نے پاکستان میں فلم کی ریلیز کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ کیونکہ اس بینڈ کے زیادہ تر رکن پاکستانی خاندانوں سے ہیں اور اس فلم کا نصف حصہ پاکستان میں بنایا گیا ہے اس لیے ہم نے سوچا کہ اسے پاکستان میں بھی دکھایا جائے۔
اس فلم میں دکھایا گیا کہ تقوی کور بینڈ اپنے اس نئے نظریے کی موسیقی کے ساتھ ایک بس میں امریکہ کے طول و عرض میں گیا۔ امریکہ میں اسے کہیں تو خوب پزیرائی ملی لیکن کچھ جگہوں جیسے کہ شکاگو وہاں کے مسلمانوں سے اس نئے تصور کو بالکل مسترد کر دیا۔
پاکستان میں اس گروپ کے اراکین مختلف مزاروں اور درگاہوں پر گئے۔ اس دستاویزی فلم میں لاہور میں واقع ایک بزرگ بابا شاہ جمال کے مزار میں دکھایا گیا کہ جیسے پنک کلچر میں نشہ آور ادویات کا استعال کافی ہے۔ وہاں اس مزار پر بھی لوگ گانجہ چرس اور افیون کا استعمال کر رہے ہیں اور ڈھول بجانے والے پپو سائیں سے بھی بات کی جس میں انہوں نے کہا کہ مالک کائنات کو موسیقی پسند ہے۔
دستاویزی فلم میں دکھایا گیا کہ پاکستان میں کہیں تو تقوی کور گروپ کو پزیرائی ملی تو کہیں انہیں سخت ناپسند کیا گیا۔
اس دستاویزی فلم میں تقوی کور گروپ کے اراکین کو ایک طرف تو نماز پڑتے دکھایا گیا ہے اور دوسری جانب وہ وہ کام بھی کرتے ہیں جو راسخ العقیدہ مسلمانوں میں انتہائی برے سمجھے جاتے ہیں جیسے کہ اس گروپ میں ایک خاتون رکن جو مسلمان بھی ہیں اور ہم جنس پرست بھی۔
اس دستاویزی فلم میں تقوی کور گروپ کے اراکین کو ایک طرف تو نماز پڑتے دکھایا گیا ہے اور دوسری جانب وہ وہ کام بھی کرتے ہیں جو راسخ العقیدہ مسلمانوں میں انتہائی برے سمجھے جاتے ہیں جیسے کہ اس گروپ میں ایک خاتون رکن جو مسلمان بھی ہیں اور ہم جنس پرست بھی۔
اس فلم میں ایسے نظریات ہیں جو پاکستانی معاشرے میں قابل قبول نہیں۔
اسی لیے اس فلم کا پریمیر نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں کیا گیا۔ عمار عزیز کا کہنا ہے کہ نیشنل کالج آف آرٹس میں اس فلم کو جن لوگوں نے دیکھا ان میں تو اس کی قبولیت تھی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عام پاکستانی شاید اس کو ہضم نہ کر سکیں اس لیے عمار عزیز کے مطابق پاکستان میں انہی فلم بینوں کو یہ فلم دکھائیں گے جو اسے قبول کر سکیں۔
پاکستان میں اس دستاویزی فلم کو کتنی پزیرائی ملتی ہے یہ تو ابھی واضح نہیں البتہ اس فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عمار عزیز کے خیال میں یہ نیا تصور اسلام کو شدت پسند مذہب سمجھنے کے خیالات میں تبدیلی کی ایک کوشش ہے کیونکہ اس میں آرٹ اور موسیقی کے ذریعے امن کا پیغام دیا گیا ہے۔
Bookmarks