خوارج کا عقیدہ
۔خوارج نے آہستہ آہستہ فرقے اور گروہ کی صورت اختیار کر لی‘ جس طرح ہم نے عرض کیا ہے کہ وہ ظاہری صورت میں تو مسلمان تھے لیکن وہ پس پردہ کافرو مشرک تھے‘ کیونکہ انہوں نے اپنی طرف سے ایک نظریہ بلکہ عجیب قسم کے نظریات قائم کر لیے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ چونکہ حضرت علی ؑ‘ حضرت عثمانؓ اور امیر معاویہ نے حکم (منصف) کو قبول کیا ہے‘ اس لیے وہ اپنے اسلامی عقیدہ سے منحرف ہو گئے ہیں۔ ان کے نزدیک وہ بھی کافر ہو گئے تھے۔ چونکہ بقول ان کے ہم نے توبہ کرلی ہے اس لیے ہمارا عقیدہ صحیح ہو گیاہے ان کے نزدیک امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی کوئی حیثیت نہ تھی۔
یہ ظالم حکمران کے خلاف قیام کرنے کو جائز نہ سمجھتے تھے۔ یہ لوگ دراصل انتہا پسند اور متعصب قسم کے تھے کہ جو خود کو اچھا سمجھتے تھے اور دوسروں پر کیچڑ اچھالتے رہتے تھے ان کا عقیدہ تھاکہ عمل ایمان کی جز ہے‘ وہ کہتے تھے کہ جو
”اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدا رسول اللہ“
”کہے اور دل سے نہ مانے‘ توکہنے سے انسان مسلمان نہیں ہو جاتا ۔اگر وہ نماز پڑھتا ہے‘ روزہ رکھتا ہے‘ شراب نہ پیئے‘ جوا نہ کھیلے‘ فعل بد کا مرتکب نہ ہو‘ جھوٹ نہ کہے اگر وہ تمام گناہ نہ کرے تو تب مسلمان ہے۔ اگر ایک مسلمان جھوٹ بول لیتا ہے تو وہ کافر ہو جائے گا‘ وہ نجس ہے‘ اور مسلمان نہیں ہے۔ اگر ایک مرتبہ غیبت کرے یا شراب پی لے تو دین اسلام سے خارج ہے۔ غرض کہ انہوں نے گنا ہان کبیرہ کے مرتکب کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا ہے۔ یہ لوگ دوسروں کو ناپاک‘ کافر‘ مشرک‘ نجس سمجھتے تھے ۔صرف اپنے آپ کو ہر لحاظ سے نیک اور پاک خیال کرتے تھے۔ گویا یہ زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کوئی بھی ان کے سوا مسلمان وجود نہیں رکھتا۔ ان کے نزدیک امربالمعروف اور نہی از منکر واجب ہے۔ لیکن اس کی کوئی شرط وغیرہ نہیں ہے۔ یہ لوگ مولا علی علیہ السلام کو نعوذ باللہ مسلمان نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ علی ؑکے خلاف قیام کرنا اور ان سے جنگ نہ فقط کار ثواب ہے بلکہ بہت بڑی عبادت ہے۔ ان جاہلوں اور تنگ نظر لوگوں نے شہر کے باہر خیمہ نصب کیا۔ اور باغی ہونے کا اعلان کر دیا۔ ان کے عقائد و نظریات میں انتہا پسندی ‘ تنگ نظری کے سوا کچھ نہ تھا یہ خارجی چونکہ دوسرے لوگوں کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے‘ اس لیے ان کا عقیدہ تھا کہ ان لوگوں کو رشتہ دینا چاہیے نہ لینا چاہیے۔ ان کا ذبح شدہ گوشت حلال نہیں ہے‘ بلکہ ان کی عورتوں اور ان کے بال بچوں کا قتل جائز اور باعث ثواب ہے۔
انہوں نے شہر سے باہر ایک ڈیرہ جما لیا اور شہر کے باسیوں کی قتل و غارت شروع کردی‘ یہاں تک کہ ایک صحابی رسول اپنی اہلیہ کے ہمراہ وہاں سے گزر رہا تھا وہ بی بی حاملہ تھی انہوں نے اس صحابی سے کہا کہ وہ علی ؑ پر تبرا کریں۔ جب انہوں نے انکار کیا تو ان ظالموں نے اس عظیم اور بزرگ صحابی کو قتل کر دیا اور اس کی بیوی کے شکم کو نیزے سے زخمی کردیا اور کہا تم کافر تھے اس لیے ہم نے تمہارے ساتھ ایسا کیا۔ یہ خارجی ایک دوسرے خارجی کے باغ سے گزر رہے تھے تو ایک خارجی نے کھجور کاایک دانہ توڑ کر کھا لیا تو سبھی چیخ پڑے اور بلند آواز سے کہا کہ اس کا مال نہ کھاؤ کیونکہ ہمارا مسلمان بھائی ہے۔ یعنی یہ خارجی اور پلید صفت انسان دوسرے مسلمانوں کو کافر اور خود کو مسلمان کہا کرتے تھے۔
Bookmarks