قبر
قرآن مجید:
اور (اے رسول!) تم اس (منافق) کی قبر پر مت کھڑے ہونا۔
حدیث شریف:
یقین جانو کہ قبر آخرت کی منازل میں پہلی منزل ہے۔ اگر انسان اس سے نجات پا گیا تو اس کے بعد تمام مراحل اس کے لئے آسان ہوں گے اور اگر نجات نہ پا سکا تو اس کے بعد کے مراحل اس سے کم نہیں ہوں گے۔
(حضرت رسول اکرم) بحار الانوار جلد ۶ ص ۲۴۲
آخرت میں سب سے پہلے عدل قبریں ہیں جن میں امیر و غریب کی پہچان نہیں ہوتی۔
(حضرت رسول اکرم) مستدرک الوسائل جلد اول ص ۱۴۸
ان قبروں کی طرف دیکھو جو گھروں کے دالانوں میں سطروں کی صورت میں ہیں، اپنے خطوں کے اعتبار سے ایک دوسرے کے نزدیک ہیں، زیارت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے قریب ہیں، لیکن ملاقات کی حیثیت سے ایک دوسرے سے دور ہیں، آباد ہو جانے کے بعد برباد ہو چکی ہیں۔ لوگ مانوس ہو جانے کے بعد ایک دوسرے سے لاتعلق ہیں، اور بسنے کے بعد اٹھا دیئے گئے ہیں اور آباد رہنے کے بعد کوچ کر گئے ہیں۔
(امام محمد باقر علیہ السلام)
بحارالانوار جلد ۷۸ ص۱۷۱

قبر پرجو بھی (نیا) دن آتا ہے تو اس دن وہ کہتی ہے: ”میں غربت (پردیس) کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹی کا گھر ہوں اور میں کیڑوں (مکوڑوں) کا گھر ہوں“ جب کوئی موٴمن اس میں دفن کیا جاتا ہے تو اسے خوش آمدید کہتی ہے۔ اور جب کوئی (فاسق و) فاجر اور کافر اس میں دفن کیا جاتا ہے وہ اسے خوش آمدید نہیں کہتی۔
(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)
الترغیب والترہیب جلد ۴ ص ۲۳۷
قبر ہر روز کہتی ہے: ”میں غربت (پردیس) کا گھر ہوں، میں وحشت کا گھر ہوں، میں کیڑوں (مکوڑوں) کا گھر ہوں، میں جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہوں یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہوں۔“
(حضرت امام جعفر صادق ؑ) بحار الانوار جلد ۶ ص ۲۶۷
اے اہل عقل و خرد اور اے صاحبان فہم و ذکأ! ذرا اپنے آباؤ اجداد کی اموات کو تو یاد کرو! اپنے آپ کو یوں سمجھو گویا تمہاری جانیں تم سے لے لی گئی ہیں، تمہارے جسموں سے کپڑے اتار لئے گئے ہیں اور تمہارے مال تقسیم کئے جا چکے ہیں۔ پس اے ناز و نخرے کرنے والے! اور اے ہیبت و دہشت کے مالک! اور اے حسن و جمال کے پیکر! اب پراگندہ حال منزل اور غبارآلود مقام کی طرف منتقل ہو چکے ہو، اپنے رخسار کے بل اپنی لحد میں سو رہے ہو جو ایسی جگہ ہے جہاں ملنے والے بہت کم آتے ہیں اور کام کرنے والے دل تنگ ہو جاتے ہیں۔ یہ کیفیت اس وقت تک جاری رہے گی جب قبریں شگافتہ ہو جائیں گی اور حشر و نشر کے لئے سب کو دوبارہ اٹھادیا جائے گا۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحار الانوار جلد ۷۷ ص ۳۷۱
میں نے جو بھی (بھیانک) منظر دیکھا ہے، قبر کا منظر اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔
(حضرت رسول اکرم) تنبیہ الخواطر ص ۲۳۸
جب کسی دشمنِ خدا (کے جنازہ) کو اٹھا کر اس کی قبر کی طرف لے جایا جاتا ہے تو وہ اپنے پیچھے آنے والوں کو آواز دے کر کہتا ہے: ”بھائیو! جس کیفیت میں میں مبتلا ہورہا تم اس سے بچ کر رہنا۔ میں تم سے دنیا کی شکایت کرتا ہوں کہ اس نے مجھے فریب میں مبتلا رکھا۔ جب میں نے اس پر مکمل بھروسہ کر لیا تو اس نے مجھے پچھاڑ کر فنا کر دیا۔ میں خواہشاتِ نفسانی کے پیروکار دوستوں کی بھی تم سے شکایت کرتا ہوں جو مجھے خوش کرتے رہے، پھر جب میں ان کے ساتھ ان کا شریکِ کار ہو گیا تو وہ مجھ سے دور ہو گئے اور مجھے اکیلا چھوڑ دیا۔ “
(حضرت رسول اکرم ) تنبیہ الخواطر ص ۴۵۲
قبروں کی ہمسائیگی اختیار کرو کہ عبرت حاصل کرو گے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
قبر قریب ترین رشتہ دار ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
فخر و سربلندی کو چھوڑو، تکبر و غرور کو مٹاؤ اور اپنی قبر کو یاد رکھو کیونکہ یہی (عالمِ آخرت کی طرف) تمہاری گزرگاہ ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۳
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ آپ نے ایک قبر کے پاس رک کر فرمایا: ”یہ ایسی چیز ہے جس کا آخر اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے اول کے بارے میں زہد اختیار کیا جائے اور جس کا اول اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے آخر سے ڈرا جائے۔“
بحارالانوار جلد ۷۳ ص ۱۰۳۔ جلد ۷۸ ص ۳۲۰
(۲)

اللہ تعالیٰ کے اس قول ”یثبت اللہ الذین امنوا بالقول الثابت فی الحیواة الدنیا و فی الاخرة“ ، یعنی جو لوگ پکی بات (کلمہٴ توحید) پر (صدق دل سے) ایمان لا چکے ان کو اللہ تعالیٰ دنیا کی زندگی میں (بھی) ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں بھی ثابت قدم رکھے گا۔“ (ابراہیم/۲۷) کے متعلق ارشاد فرمایا کہ آخرت سے مراد ہے جب مردوں سے قبر میں سوال کیا جائے گا۔


(۳)
قبر میں کیا پوچھا جائے گا؟
یوں سمجھو گویا تمہاری زندگی کے دن پورے ہو چکے ہیں، ملک الموت نے تمہاری روح قبض کر لی ہے اور تم (قبر کی) منزل میں تنہا پہنچ چکے ہو۔ اس میں پھر تمہاری روح کو پلٹا دیا گیا ہے اور وہاں اچانک دو فرشتے تمہارے پاس آ پہنچے ہیں۔ ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔ وہ تم سے سوال کریں گے اور بڑی سختی کے ساتھ تمہارا امتحان لیں گے۔
پس یاد رکھو کہ سب سے پہلا سوال جو تم سے کیا جائے گا وہ تمہارے اس رب کے متعلق ہو گا جس کی تم عبادت کیا کرتے تھے، تمہارے رسول کے بارے میں ہو گا جو تمہاری طرف بھیجے گئے، دین کے بارے میں ہو گا جس کی تم پابندی اختیار کرتے تھے، کتاب کے بارے میں ہو گا جس کی تم تلاوت کیا کرتے تھے اور امام کے بارے میں ہو گا جس کی ولایت کو قبول کئے ہوئے تھے۔
پھر تمہاری عمر کے بارے میں سوال ہو گا کہ اسے کہاں ختم کیا، مال کے بارے میں سوال ہو گا کہ کہاں سے کمایا تھا اور کہاں خرچ کیا؟ لہٰذا ابھی سے اس کی تیاری کر لو اور اپنے بارے میں غور و فکر سے کام لے کر امتحان، سوال اور آزمائش سے پہلے جواب کو تیار کر لو۔
(امام زین العابدین علیہ السلام) بحار الانوار جلد ۷۸ ص ۱۴۳۔ تحف العقول ص ۱۸۰
جب موٴمن اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو ستر ہزار فرشتے قبر تک اس کی مشایعت کرتے ہیں، پھر جب اسے قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے تو منکر و نکیر دو فرشتے اس کے پاس آ کر اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں ”تیرا رب کون ہے، تیرا دین کیا ہے اور تیرا نبی کون ہے؟“
وہ جواب میں کہتا ہے: ”اللہ میرا رب ہے، محمد میرے پیغمبر ہیں اور اسلام میرا دین ہے!“ اس پر وہ اس کی قبر کو اس کی نگاہوں کی حدود تک کشادہ کر دیتے ہیں، اس کے پاس کھانا لے آتے ہیں اور اسے فراخی اور آرام پہنچاتے ہیں۔
یونس کہتے ہیں کہ میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؑ نے مجھ سے پوچھا: ”کیا علی بن ابی حمزہ مر گیا؟“ میں نے عرض کیا: ”جی ہاں! ”امامؑ نے فرمایا: ”وہ جہنم میں پہنچ چکا ہے!“ (راوی کہتا ہے کہ یہ سن کر) میں ڈر گیا، امامؑ نے فرمایا: ”اس سے آئمہ کے بارے میں سوال کیا گیا اور جب اس نے میرے والد موسیٰ کاظمؑ کانام بھی بتا دیا، اس کے بعد اس سے ان کے بعد والے امام کے بارے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں ہے! اس پر اسے کہا گیا کہ ”کیا تم نہیں جانتے؟“ پھر اس کی قبر میں ایسی ضرب لگائی گئی جس سے آگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔
(بحارالانوار) جلد ۶ ص ۲۴۲
جب بندہ کو قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے جدا ہو کر واپس جانے لگتے ہیں تو وہ پلٹتے وقت ان کے جوتوں کی آواز کو سنتا ہے۔ پھر اس کے پاس دو فرشتے آ جاتے ہیں جو اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں: ”اس پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟“
اگر وہ مومن ہوتا ہے تو کہتا ہے: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کا بندہ اور اس کے رسول ہیں۔“ اس پر اسے کہا جاتا ہے کہ جہنم میں مقررکردہ اپنے مقام کو دیکھو جسے اللہ تعالیٰ نے بہشت میں تبدیل کر دیا ہے“ پیغمبرِ خدا فرماتے ہیں: ”اس پر وہ دونوں مقاموں کو دیکھ لیتا ہے اور اگر وہ کافر یا منافق ہوتا ہے تو کہتا ہے: ”مجھے معلوم نہیں۔ میں تو ان کے بارے میں وہی کچھ کہتا تھا جو دوسرے لوگ کہا کرتے تھے۔ “ #۱
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۴ ص ۳۶۲ اسے بخاری اور مسلم نے بھی روایت کیا ہے، اور الفاظ اسی کے ہیں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں پھر اس سے پوچھتے ہیں:
”تیرا رب کون ہے؟“ وہ کہتا ہے: ”میرا رب اللہ ہے“ وہ کہتے ہیں: ”تیرا دین کیا ہے؟“ وہ کہتا ہے، ”میرا دین اسلام ہے!“ پھر وہ کہتے ہیں: ”جو شخص تمہاری جانب اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہے، اس کے بارے میں کیا کہتے
ہو؟“ وہ کہتا ہے: ”وہ اللہ کا رسول ہے!“ اس سے وہ فرشتے سوال کرتے ہیں: ”تمہیں کیونکر معلوم ہوا؟“ وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔ “
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۴ ص ۳۶۵
میت سے قبر میں پانچ چیزوں کے بارے پوچھا جائے گا: نماز، زکوٰة، حج، روزہ اور ہم اہلبیت(ع) سے اس کی ولایت، جس پر قبر کے ایک گوشے میں موجود ”ولایت“ ان مذکورہ چاروں چیزوں سے کہے گی: ”تم ہٹ جاؤ! میں اس کی ساری کمی کو پوری کر دوں گی“
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحار الانوار جلد ۶ ص ۲۶۶
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو! بحارالانوار جلد ۶ ص ۲۴۱ حدیث ۶۰)

(۴)
۲۶۲

قبر میں صرف خالص الایمان یا صرف خالص الکفر لوگوں سے سوال کیا جائے گا۔
(امام جعفر صادقؑ) بحارالانوار جلد ۶ ص ۲۶۰ حدیث ۱۰۰۔حدیث ۹۸۔ حدیث ۹۷ فروع کافی جلد ۳ ص ۲۳۶
قول موٴلف: ملاحظہ ہو: ”گناہ ۱۱ باب ”گناہوں کے کفارے“

(۵)
قبر میں فائدہ مند اعمال
جب موٴمن کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو نماز اس کے دائیں اور زکوٰة اس کے بائیں طرف آ جاتے ہیں، اور اس کی نیکی اس پر سایہ فگن ہو جاتی ہے ، اور صبر اس سے ہٹ کر ایک کونے میں چلا جاتا ہے۔ پھر جب دو فرشتے اس کے پاس سوال و جواب کے لئے آ جاتے ہیں تو صبر نماز، زکوٰة اور نیکی سے کہتا ہے: ”اپنے ساتھی کا خیال رکھو اگر تم اس کے کام نہیں آ سکو گے تو میں حاضر ہو جاؤں گا!“
(امام جعفر صادق علیہ السلام ) بحار الانوار جلد ۷۱ ص ۷۳
حضرت رسولِ خدا کا ایک قبر کے پاس سے گزر ہوا جس میں گزشتہ روز ایک مردہ کو دفن کیا گیا تھا اور اس کے ورثاء اس پر رو رہے تھے۔ اس پر آپ نے ان سے فرمایا: ”تمہاری مختصر سی دو رکعت نماز، جسے تم حقیر سمجھتے ہو، اس قبر والے کے لئے تمہاری تمام دولت سے بہتر ہے۔“
تنبیہ الخواطر ص ۴۵۳

قول موٴلف: ملاحظہ ہو: ”دوست“ باب ۴“ ۲۲۱۹ ”انسان کے تین دوست ہیں“
نیز: ”عمل“ (۳) باب ۲۹۶۱ ”اعمال کا مجسم ہونا“
”عمل“ (۱) باب ۲۹۳۸ ”عمل ایسا ساتھی ہے جو انسان سے جدا نہیں ہوتا“ عنوان ”وقف“


_______________________________________________

جب حضرت رسول خدا کی (ربیہ )بیٹی جناب رقیہؓ کا انتقال ہو گیا تو رسول پاک نے ان سے کہا: ”ہمارے سلفِ صالح عثمان بن مظعون اور ان کے ساتھیوں سے جا ملو۔“ راوی کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا قبر کے کنارے کھڑی رو رہی تھیں اور ان کے آنسو قبر پر گر رہے تھے۔ آنحضرت اپنا کپڑا ہلاتے ہوئے کھڑے ہو کر دعا مانگ رہے تھے، پھر فرمایا: ”میں اس بچی کی کمزوری و ناتوانی کو جانتا ہوں اور اللہ سے میری دعا ہے کہ اسے قبر کے فشار سے محفوظ رکھے۔“
(امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیہما السلام) فروغ کافی جلد ۳ ص ۲۴۱
جن چیزوں کو تمہارے مرنے والوں نے دیکھا ہے اگر تم بھی دیکھ لیتے تو گھبرا جاتے، سراسیمہ و مضطرب ہو جاتے اور (حق کی) بات سنتے اور اس پر عمل کرتے۔ لیکن جو انہوں نے دیکھا ہے وہ ابھی تم سے پوشیدہ ہے اور قریب ہے کہ وہ پردہ اٹھا دیا جائے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۲۰


(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحار الانوار جلد ۷۴ ص ۳۸۶