ذکر ہوتا ہے جہاں بھی میرے افسانے کا
صدر دروازہ سا کھلتا ہے کتب خانے کا
اب دُھوئیں کی طرح تحلیل ہوا جاتا ہے
دِل سے اِک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا
جی کے بہلانے کو آ جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں
کتنا آباد ہے گوشہ میرے ویرانے کا
بُلبُلہ پھر سے چلا پانی میں غوطے کھانے
نہ سمجھنے کا اُسے وقت نہ سمجھانے کا
مَیں نے الفاظ تو بیجوں کی طرح چھانٹ دیئے
ایسا میٹھا تیرا انداز تھا فرمانے کا
کس کو روکے کوئی رستے میں کہاں بات کرے
نہ تو آنے کی خبر ہے، نہ پتہ جانے کا
Bookmarks