بڑی پرسکوں تھی یہ زندگی نیا درد کس نے جگا دیا
کسی بے نیاز نگاہ نے مری وحشتوں کو بڑھا دیا
مرے کم سخن کا یہ حکم تھا کہ کلام اس سے میں کم کروں
مرے ہونٹ ایسے سلے کہ پھر مری چپ نے اس کو رلا دیا
اسے شعر سننے کا شوق تھا مجھے عرض حال کا ذوق تھا
اسی ذوق وشوق میں ایک دن اسےحال دل سنا دیا
وہ نگاہ کیسی نگاہ تھی یہ گریز کیسا گریز تھا
مجھے دیکھ کر بھی نہ دیکھنا اس ادا نے حال سنا دیا
Bookmarks