غم بھی دیتا ہے غم کا صلہ بھی دیتا ہے
جُرمِ محبت کی مگر وہ سزا بھی دیتا ہے
میں گرتی دیواروں کے زرد میں ہوں وہ
مجھے دیکھتا ہے اور حوصلہ بھی دیتا ہے
یہ تپیش میرے بدن میں یونہی نہیں ہے
بجھنے لگیں شعلےتو پھر ہوا بھی دیتا ہے
مجھ سے میرے ہر لفظ کے وہ معنی پُوچھے
کچھ کہوں تو ہنسی میں آُڑا بھی دیتا ہے
اس حاکمِ شہر کی کیا بات ہم کریں ظفر
آج ہیں نظر میں کل پھر گِرا بھی دیتا ہے
Bookmarks