Page 1 of 2 12 LastLast
Results 1 to 12 of 18

Thread: سوانح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

  1. #1
    Numangumbat's Avatar
    Numangumbat is offline Senior Member+
    Last Online
    26th October 2015 @ 01:32 PM
    Join Date
    05 Jan 2009
    Location
    Islamabad
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    4,510
    Threads
    224
    Credits
    940
    Thanked
    547

    Thumbs down سوانح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

    پلیز ایک دفعہ ضرور پڑھیں۔۔۔۔
    آپ کے بچپن اور جوانی کے حالات کے متعلق زیادہ پتہ نہیں چلتا۔ پیدائش پر آپ کانام عبدالکعبہ رکھا گیا تھا۔ مسلمان ہونے پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبداللہ رکھ دیا۔ آپ کی خوبصورتی کی وجہ سے لوگ آپ کو عتیق کہا کرتے تھے

    ۔ سب سے پہلے مسلمان ہونے کی وجہ سے آپ صدیق کہلائے۔ والد کانام عثمان ابوقحافہ اور والدہ کانام ام الخیرسلمٰی تھا۔ ماں باپ دونوں قریش کے خاندان بنوتمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کی تاریخ پیدائش معلوم نہیں۔ یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً اڑھائی تین برس چھوٹے تھے۔

    مسلمان ہونے سے پہلے آپ تجارت کیا کرتے تھے اور اس کے لیے شام اور یمن جاتے رہتے تھے۔ پہلا تجارتی سفر آپ نے اٹھارہ سال کی عمر میں کیا تھا اور چند ہی سالوں میں آپ کا شمار مکّہ کے بڑے بڑے اور امیر تاجروں میں ہونے لگا۔ مکّہ کے رہنے والے اور دوسرے لوگ جو تجارت کے سلسلے میں آپ سے ملتے، آپ کی دیانت، اچھے اخلاق، عقلمندی اور اچھا مشورہ دینے کی خوبیوں کی وجہ سے آپ کی عزت کرتے اور آپ کو بہت پسند کرتے تھے۔ قبیلہ قریش میں جو لڑائیاں ہوتی تھیں ان کا فیصلہ بطور جج آپ ہی کرتے تھے۔ قریش اور اس کے خاندان کی تاریخ کا جاننے والا آپ سے زیادہ کوئی نہ تھا۔

    آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا کہ میں نبی ہوں اس وقت آپ مکّہ سے باہر گئے ہوئے تھے۔ جب واپس آئے تو مکّہ کے کچھ سردار جن میں ابوجہل عَمرو بن ہشام، عُتبہ اور شَیبہ بھی تھے آپ سے ملنے کے لیے آئے اور بتایا کہ ابوطالب کے بھتیجے نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ ان سرداروں کے چلے جانے کے بعد آپؓ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے

    اور آپؐ سے پوچھاکہ کیاآپؐ نے خدا کا نبی ہونے کا دعویٰ کیاہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کو سمجھانے لگے مگر حضرت ابوبکرؓ نے کہا آپؐ مجھے یہ بتائیں کہ کیا آپؐ اپنے آپ کو خدا کا نبی کہتے ہیں؟ رسول اللہؐ نے فرمایا: ہاں۔ اس پرحضرت ابو بکرؓ کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ خدا کے رسول ہیں۔

    اس طرح آپ حضرت خدیجہؓ حضرت علیؓ اورحضرت زیدؓ بن حارثہ کے ساتھ سب سے پہلے مسلمان ہونے والوں میں سے ہیں۔ آپ کے مسلمان ہونے کاذکر کرتے ہوئے ایک دفعہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں نے جس کسی کو بھی اسلام کا پیغام پہنچایاوہ مسلمان ہونے میں کچھ نہ کچھ جھجکا سوائے ابوبکرؓ کے، جو بغیر کسی جھجک کے فوراً ہی مسلمان ہو گئے۔”

    آپ کی نیکی، دیانت، شرافت، عقلمندی، دولت اور قریش پر آپ کے اچھے اثر کی وجہ سے آپ کے مسلمان ہونے کی بہت شہرت ہوئی اور قریش کے سرداروں کو اس کا بہت صدمہ ہوا۔ مسلمان ہوتے ہی آپ نے اپنی جان ومال اور اپنا اثرورسوخ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا اور قریش میں تبلیغ شروع کر دی۔
    آپؓ کی کوششوں سے مکّہ کے مشہور اور بڑے خاندانوں میں سے جو لوگ مسلمان ہوئے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔ حضرت عثمانؓ بن عفان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیسرے خلیفہ ہوئے، حضرت زبیرؓ بن العوام، حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت عثمانؓ بن مظعون، حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح اور خالدؓ بن سعید۔

    ایک دن آپ کے والد ابو قحافہ نے آپ کو کہا:"اگر تمہیں غلاموں پر پیسہ خرچ کر نا ہی ہے توپھر بوڑھے، کمزور اور اندھے غلاموں کی بجائے جوان اور مضبوط غلام خرید کر آزادکرو جو کبھی تمہارے کام بھی آسکیں۔" حضرت ابو بکرؓ نے جواب دیا: "نہیں میں خدا کی رضا کے لیے پیسہ خرچ کر تا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے اس نیک کام میں کوئی دنیاوی مطلب بھی شامل ہو۔"

    ایک دن قریش کے بہت سے سردار خانہ کعبہ میں بیٹھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی طواف اور نماز کے لیے وہاں گئے۔ عقبہ بن ابی معیط کی نظر پڑی تو اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ رسول اللہؐ پر حملہ کر دیا اور اتنا مارا کہ آپؐ بے ہوش ہو گئے۔

    عقبہ نے اپنی چادر آپ کے گلے میں ڈالی اور آپؐ کو گھسیٹنا شروع کر دیا۔ باقی سردار ساتھ ساتھ چلتے جاتے۔
    ۔ کسی شخص نے حضرت ابوبکرؓ کو اطلاع دی۔ آپ دوڑتے ہوئے آئے اور غصّے سے بھرے ہوئے کافروں میں جاگھسے۔ کسی کو مارا، کسی کو گرایا، کسی کو ہٹایااور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچاتے اور ساتھ یہ کہتے جاتے۔ "افسوس ہے تم پر! تم اس شخص کو مارتے ہو جو کہتاہے اللہ میرا ربّ ہے۔ "

  2. #2
    Numangumbat's Avatar
    Numangumbat is offline Senior Member+
    Last Online
    26th October 2015 @ 01:32 PM
    Join Date
    05 Jan 2009
    Location
    Islamabad
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    4,510
    Threads
    224
    Credits
    940
    Thanked
    547

    Default

    کافر اس بات پر اتنے غصہ میں آئے کہ آپ کو پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔ اتنا مارا کہ سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا۔ آپ مار کھاتے جاتے اور کہتے جاتے۔ "اے عزّت و جلال والے خدا! تو بہت با برکت ہے۔ " آخر آپ کے رشتہ داروں نے آپ کو چھڑایا۔ آپ کی بیٹی حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ جب آپ گھر پہنچے تو یہ حال تھا کہ آپ کے سر پر جس جگہ ہاتھ لگاتے وہاں سے بال اُترجاتے۔

    ابن الدغنہ نے مکہ مںپ آکر اعلان کر دیا کہ ابو بکرؓ میری پناہ میں ہیں جس نے ان کو تنگ کیا، میں اس سے لڑوں گا۔ قریش نے ان کی بات مان لی اور اس طرح حضرت ابوبکرؓ پھر مکہ میں رہنے لگے۔ آپ گھر کے صحن میں نماز پڑھا کرتے اور قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے۔

    تلاوت کے وقت آپ خدا کی محبت میں روتے جاتے۔ آپ کی آواز بھی بہت اچھی تھی۔ قریش کی عورتیں اور بچے آپ کے پاس جمع ہو جاتے۔ قرآن کریم سنتے اور نماز پڑھتے دیکھتے۔ قریش کوڈر ہوا کہ کیں ج ہماری عورتیں اور بچے بھی مسلمان نہ ہو جائیں۔ انہوں نے ابن الدغنہ سے کہا :"ہم تمہاری وجہ سے ابوبکرؓ کو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اس طرح ان کے قرآن کریم پڑھنے سے ہیں ڈر ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے بھی مسلمان ہو جائیں گے۔

    اس لیے تم ان کوروکو۔ اگر تم نہیں روکو گے تو ہم خود روک لیں گے۔ " ابن الدغنہ آپ کے پاس آیا اور آپ کو ساری بات بتائی۔ آپ نے کہا: "میں تمہاری پناہ کے لیے تمہارا شکریہ اداکرتا ہوں لیکن میں یہ نہیں کر سکتا۔ تم اپنی پناہ واپس لے لو۔ میرے لیے اللہ کی پناہ کافی ہے۔

    ۔ غارثور کے اند ر سے جب حضرت ابو بکرؓ کو اُن کے پاؤں نظر آئے تو آپ گھبرائے اور کہنے لگے:۔ "کافر تو ہم تک پہنچ گئے ہیں۔ " حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو تسلی دی اورفرمایا:"فکر نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ " اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کو "ثانی اثنین " یعنی دومیں سے دوسرا کہا ہے۔

    9ھ میں بہت سے مسلمان حج کے لیے روانہ ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سال حج پر نہ گئے۔ آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو حج پر جانے والوں کا امیر بنایا

    10ھ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے گئے یہ آپؐ کا آخری حج تھا۔ حضرت ابوبکرؓ بھی آپؐ کے ساتھ ہی تھے

    ۔ حج سے واپسی پر آپؐ بیمار ہوئے اور بیمار ہی تھے کہ ایک دن مسجد میں آئے منبر پر بیٹھے اور تقریر کی۔ فرمانے لگے:۔
    "خدا نے اپنے ایک بندہ سے کہا کہ وہ دنیا اور خدا کے ساتھ میں سے کوئی ایک چن لے اور اس نے خدا کے ساتھ کو چُن لیا ہے۔ "

    باقی لوگ تو چپ کر کے سنتے رہے، یہ سمجھے ہی نہیں کہ آپ اپنا ذکر کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ اب آپؐ جلد فوت ہونے والے ہیں لیکن حضرت ابوبکرؓ سمجھ گئے اور رونے لگے۔
    آپؐ نے ابوبکرؓ کو تسلی دی۔ پھر کہا "مسجد میں جتنے لوگوں کے دروازے کھلتے ہیں سب بند کر دو۔ صرف ابوبکرؓ کا دروازہ کھلا رہنے دو۔ "


    آنحضرتؐ نے فرمایا ہے کہ:
    "اس وقت تک ایمان کا دعویٰ عبث ہے جب تک میں کسی کو اس کے والدین اس کی اولاد اور تمام لوگوں سےزیادہ محبوب نہ ہوں "


    حضرت ابوبکرؓ خدا کے بعد نبی اکرمؐ سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے۔
    اور اسی فنافی الرسول کے مرتبہ کو سیرتِ صدیقی قرار دیا گیا ہے۔ گویا محبت رسول کا آخری مقام صدیقیت کا مقام ہے۔ یہ خدا اور اس کے رسول کی محبت ہی تھی کہ جب اپنا بیٹا جنگ میں مدّمقابل آتا ہے تو وہ سب دنیاوی رشتے ختم ہوجاتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں کہ " تم اگر میری تلوار کے نیچے ہوتے تو کبھی بچ کر نہ جاتے"

    حضرت عائشہؓ پر جب منافقین نے بہتان لگایا اور حضرت عائشہؓ دن رات اس صدمہ سے روتی رہتی رہیں نہ آنسو تھمتے تھے نہ نیند آتی تھی لیکن کیا مجال کہ حضرت ابوبکرؓ کے ماتھے پر آنحضرتؐ کے لیے ایک شکن بھی آئی ہو۔
    بلکہ جب حضرت عائشہؓ آنحضرتؐ کی اجازت سے اپنے باپ کے گھرآگئیں تو آپ نے حضرت عائشہؓ کو واپس رسول کریمؐ کے گھر بجھوا دیا۔

    ہجرت کا وقت آیا توآنحضرتؐ کی یہ جدائی بھی حضرت ابوبکرؓ پر شاق گزری اور روتے ہوئے فرمایا یا رسول اللہؐ مجھے اپنے آپ سے دور نہ کیجیؤ۔ حضورؐ نے آپ کو اپنے ساتھ لے کر ہجرت فرمائی۔
    اس ہجرت کے موقعہ پر جب غار ثور کی طرف چلے تو حضرت ابوبکرؓ کبھی حضورؐ کے آگے چلتے۔ کبھی پیچھے چلتے کبھی دائیں ہوجاتے اور کبھی بائیں ہوجاتے حضورؐ نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ آقا مجھے خیال آتا ہے کہ کوئی تعاقب میں نہ ہو‘تو میں آپ کے دفاع کے لیے پیچھے ہوجاتاہوں اور اسی نگرانی کے خیال سے میں آگے ہوجاتا ہوں اور خوف سے کبھی آپ کے دائیں ہوتا ہوں تو کبھی بائیں۔ محبت مجھے بے خوف نہیں ہونے دیتی۔

    اور جب غار میں داخل ہوئے توحضرت ابوبکرؓ نے سارے غار کی صفائی کی۔ سارے سوراخ بند کیے کہ کوئی سانپ یا بچھو وغیرہ نہ ہو۔ ایک سوراخ رہ گیا تو ا س پر اپنا پاؤں رکھ دیا حضور اکرمؐ حضرت ابوبکرؓ کی ران پر اپنا سرِمبارک رکھ کر آرام کے لیے استراحت فرمانے لگے۔ سوراخ میں سے ایک سانپ نے حضرت ابوبکرؓ کے پاؤں پر ڈس لیا لیکن حضرت ابوبکرؓ نے تکلیف کے باوجود جنبش نہ کی کہ نبی اکرمؐ کے آرام میں خلل نہ ہو۔ شدت تکلیف ومحبت سے آنکھوں میں آنسو ٹپک پڑے تو آنحضرتؐ کو سارا ماجرا معلوم ہوا۔

    رسول اکرمؐ کی یہی محبت تھی کہ اس جھنڈے کی گرہ کو کھولنے کے لیے تیار نہیں ہوئے جس کی گرہ کو رسول اللہؐ نے لگایا تھا۔

    یہی عشق تھا کہ عمرہ کے لیے جب آپ مکہ تشریف لے گئے تو صحابہ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا" اے رسولِ خدا کے قائمقام" بس حضورؐ کا نام سننا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ رونے لگے اور آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔

    ر سول کریمؐ کی محبت آپ کو ایک دم بھی چین نہ لینے دیتی تھی۔
    آنحضرتؐ کی وفات کے بعدا یک مرتبہ حضرت عمرؓ سے فرمانے لگے کہ عمرؓ !آؤ ام ایمن کے ہاں چلیں کہ وہاں آنحضورؐ اکثر جایا کرتے تھے۔ وہاں پہنچے تو تینوں آنحضرتؐ کی یاد میں رونے لگ گئے اور دیر تک اس محبوب کی یاد میں روتے رہے۔

    آپ کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ آنحضرتؐ کی فرقت کا غم ہی تھا جو حضرت ابوبکرؓ کو لاحق ہوا اور اندر ہی اندر آپ کی جان کو پگھلا کر رکھ دیا۔

    حضرت ابوبکرؓ خود اپنے محبوب آقا کی وفات اور جدائی کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں کہ:
    "محبوب کی جدائی کے بعد اب زندگی کیسی اور اس کاکیا مزہ‘ اے کاش ہم سب مرجاتے اور اپنے آقا کے ساتھ ہی ہوتے۔ اے عتیق ہائے افسوس تیرا محبوب قبر میں ہے اور تو اکیلاحسرت زدہ آہیں بھررہا ہے۔

    اے کاش میں ان سے پہلے مرجاتا اور مٹی کے نیچے قبر میں ہوتا۔ اے کاش تیری وفات کے بعد قیامت آجاتی اور ہم تیرے بعد مال اور اولاد کو نہ دیکھ پاتے تیرے بعد میں جب یہ سوچتا ہوں کہ اب آپ کو دیکھ نہ سکوں گا تو مجھے کتنا غم پہنچتا ہے"۔ (ابن سعد)

    سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ نیکی کے ہر پہلو میں کامل اور ہر نیکی پر حریص تھے۔
    نماز ہو یا انفاق فی سبیل اللہ، خدمتِ خلق ہویا بنی نوع انسان کی ہمدردی، شجاعت وجوانمردی ہو یا ر افت وحلم۔ آپ کی سیرت ایک ایسے چمن کے مشابہ تھی جس میں گلہائے رنگا رنگ کی ایک بہار ہے جو عالم روحانیت کو اپنی جانفزا مہک سے معطر کیے دیتی ہے۔

  3. #3
    Numangumbat's Avatar
    Numangumbat is offline Senior Member+
    Last Online
    26th October 2015 @ 01:32 PM
    Join Date
    05 Jan 2009
    Location
    Islamabad
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    4,510
    Threads
    224
    Credits
    940
    Thanked
    547

    Default

    جاری ہے۔۔۔۔۔

  4. #4
    Numangumbat's Avatar
    Numangumbat is offline Senior Member+
    Last Online
    26th October 2015 @ 01:32 PM
    Join Date
    05 Jan 2009
    Location
    Islamabad
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    4,510
    Threads
    224
    Credits
    940
    Thanked
    547

    Default

    حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول خداؐ نے فرمایا آج کوئی روز ہ سے ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ !میں۔ پوچھا کہ کیا آج خدا کی راہ میں کسی نے صدقہ کیا ہے۔ فرمایا میں نے۔ پھر پوچھا کہ آج کسی کے جنازہ میں کوئی شریک ہوا ہے۔ پھر ابوبکرؓ نے عرض کی حضورؐ مجھے یہ موقع نصیب ہوا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ کسی مسکین کوآج کسی نے کھانا کھلایا ہے۔ ابوبکرؓ نے عرض کی مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی۔ اس پر رسول کریمؐ نے فرمایا:۔
    "جس نے ان تمام نیکیوں کو جمع کیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی"۔

    ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا جنت کے مختلف دروازے ہوں گے جو خدا کی راہ میں مال خرچ کرے گا وہ مال والے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو نماز کا پابند ہوگا وہ نماز والے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو جہاد کرتا ہے وہ جہاد والے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو روزے کا پابند تھا وہ سیرابی کے دروازے سے بلایا جائے گا یہ سن کر حضرب ابوبکرؓ نے عرض کی یا رسول اللہ کوئی شخص ان تمام دروازوں سے بھی بلایا جائے گا۔ اس پر رسول اکرمؐ نے فرمایا"ہاں اور میں امید کرتا ہوں کہ ان سب دروازوں سے جو پکارے جائیں گے ان میں سے تم بھی ایک ہو"۔ (بخاری)

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    "اگرمیں ابوبکرؓ کو نامزدکروں تو تم اس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے نافذ کرنے میں قوی پاؤ گے اگرچہ وہ جسم کے ضعیف ہیں "۔
    آپ نے خود خلافت پر متمکن ہوتے ہی جو سب سے پہلا خطبہ دیا اس میں فرمایا:
    "تم میں سب سے زیادہ طاقتور میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ اس سے لوگوں کا حق دلاؤںاور تمہارا کمزور ترین میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسرے کا حق واپس دلاؤں "
    حضرت ابوبکرؓ تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے اور آنحضرتؐ کے قریب تر رہے جو شجاعت کی زندہ دلیل ہے۔

    حضرت علیؓ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ صحابہ میں سے سب زیادہ شجاع اور بہادر کون تھا تو آپ نے فرمایا ابوبکرؓ ۔ اور بیان کیا کہ بدر کے دِن جب ہم نے ر سول کریمؐ کے لیے جھونپڑی بنائی تو سوال پیدا ہوا کہ حضورؐ کے پاس کون رہے تو ابوبکرؓ نے حامی بھری اور تلوار بے نیام کرکے حضور کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ پس اَشجع الناس ابوبکرؓ تھے۔

    اسی جنگ بدر کا ایک اور واقعہ شجاعت کا پیش کرتا ہوں جو دراصل حقیقی شجاعت کہلانے کا مستحق ہے جنگِ بدر میں مشرکین مکہ کے لشکر میں حضرت ابوبکرؓ کے ایک صاحبزادے عبدالرحمن بھی تھے جو کفار کی طرف سے جنگ کر رہے تھے۔ جب بعد میں وہ مسلمان ہوئے تو ایک روز کہنے لگے کہ :۔
    "ابا!بدر کے دِن آپ میری زَد میں آئے تھے لیکن میں نے آپ پر وار نہ کیا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ بیٹا اگر تو میری زد میں اس روز آجاتا تو میں تجھے نہ چھوڑتا"

    یہ ہے حقیقی شجاعت کہ خدا کے دین کے آگے کوئی رشتہ اور کوئی تعلق آڑے نہیں آ سکتا۔
    حضرت ابوبکرؓ نے مسیلمہ اور دوسرے باغیان اسلام کے خلاف حضر ت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں لشکر روانہ کیا تھا۔ مختلف جگہوں پر ان باغی گروہوں سے مسلمانوں کا مقابلہ ہوا اور بہت سے حفاظِ قرآن شہید ہوئے۔ خصوصاً یمامہ کی جنگ میں اس قدر صحابہؓ شہید ہوئے کہ حضرت عمرؓ کو اندیشہ ہوا کہ اگر شہادتوں کایہی سلسلہ قائم رہا تو قرآن شریف کا بہت سا حصہ ضائع ہی نہ ہوجائے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے خلیفۃ الرسول!قرآنِ مجید کو ایک جگہ ترتیب کے ساتھ جمع کردیں۔ شروع میں تو حضرت ابوبکرؓ کو انشراح نہ ہوا کہ جو کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں کیا میں کیسے کروں لیکن جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو انشراح ہوا تو آپ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو حکم دیا کہ قرآنِ مجید کو ایک جگہ مرتب کیا جائے۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابتؓ نے اس خدمت کو سرانجام دیا۔

    یہاں یہ وضاحت مناسب ہے کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پہلے قرآن مجید لکھا ہوا نہیں تھا یا اس کی ترتیب نہیں تھی، ایسی بات نہیں۔
    قرآن مجید ساتھ ساتھ لکھا جاتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود لکھواتے تھے۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابتؓ سمیت چالیس کے قریب ایسے صحابہؓ ہیں جن کے نام کاتبین وحی کے طور پر تواریخ میں آتے ہیں اور صحابہ اس کی تلاوت کرتے اور اسی ترتیب سے تلاوت ہوتی جس ترتیب میں اب ہمارے پاس قرآن مجید ہے۔
    اور آنحضرتؐ خود فرماتے تھے کہ یہ آیات فلاں سورۃ میں فلاں جگہ لکھو۔ تو قرآن شریف پہلے سے لکھا ہوا تھا‘ سورتوں اور آیات کی ترتیب تک آنحضرتؐ کے زمانہ اور راہنمائی میں مکمل ہوچکی تھی۔ لیکن یہ سب متفرق اجزا میں تھا کچھ ہڈیوں پر لکھا ہوا تھا‘ کچھ کھجور کی چھال وغیرہ پر لکھا ہواتھا۔
    حضرت ابوبکرؓ کا کارنامہ یہ تھا کہ ان سب متفرق اجزاء کو ایک جگہ جمع کردیا۔

    الغرض یہ مدوّن قرآن کریم حضرت ابوبکرؓ کے زمانۂ خلافت کے بعد حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور حضرت عمرؓ نے حضرت حفصہؓ کے پاس رکھوادیا۔
    یہاں تک کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں اسی مدون نسخہ سے نقل کرکے اس کی کاپیاں مختلف علاقوں میں تقسیم کروائیں۔

    ھوٹے مدعیانِ نبوت کی بغاوت سے شہ پا کر ایک گروہ بہت بھاری تعداد میں ایسا بھی تھا جو کہ یا تو اسلام سے ارتداداختیار کرکے مرکزِ اسلام پر حملہ آور ہونے کی سوچ رہا تھا اور بعض ایسے بھی تھے جو کہ بظاہر تو مسلمان ہونے کا اعلان کررہے تھے لیکن زکوٰۃ سے انکار کر دیا اور یہ مرکزی نظام یا نظامِ خلافت سے اعلانیہ بغاوت تھی۔

    حضرت ابوبکرؓ صدیق کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس موقعہ پر ان تمام کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جو نظام خلافت کو کمزور کرنے والے تھے یا مرکزیت کے منافی تھے۔
    ہر چند کہ اس موقعہ پر صحابہؓ کی اکثریت حیران تھی کہ جو توحیدو رسالت کا اقرار کرنے والے ہیں ان کے خلاف تلوار کیسے اُٹھائی جاسکتی ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ صدیق سے ذکر بھی کیا کہ ایسی سخت تاد یبی کارروائی سے گریز کیا جائے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر ایک رسی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زکوٰۃ میں دی جاتی تھی تواب اگر وہ اس رسی کو بھی دینے سے انکار کرے گا تو میں اس کے خلاف جہاد کروں گا۔

    چنانچہ اس پُر عزم اور سخت تاد یبی کارروائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام منکرینِزکوٰۃ خود زکوٰۃ لے کر حضرت ابوبکرؓ کے پاس حاضر ہونے لگے اور یہ فتنہ ختم ہوگیا۔ بعد میں حضرت عمرؓ کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا کہ حضرت ابوبکرؓ کایہ فیصلہ گہری فراست اور حکمت پر مبنی درست فیصلہ تھا

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض ایسے لوگ کھڑے ہوگئے تھے جن کا مقصد اقتدار کا حصول تھا اور اس کو حاصل کرنے کے لیے ان کے ذہن میں یہ آیا کہ نبوت کا دعویٰ کرکے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنا شاید آسان ہو۔ جیسے مسیلمہ کذاب اور اسودعنسی وغیرہ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے لوگوں کی تعداد اور قوت میں اضافہ ہونے لگا اور اب انہوں نے مرکزِ خلافت کے بالمقابل اپنے آزاد نظام کا اعلان کرکے بغاوت کا علم بلند کردیا اور مسلمانوں کے لیے مستقل خطرے کا باعث بنے لگے۔ ان حالات میں اس فتنہ کاانسداد اور ان باغیوں کی سرکوبی بہت ضروری تھی۔

    حضرت ابوبکرؓ صدیق نے ایسے مفسدوں کی اس بغاوت کو کچلنے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں لشکر ترتیب دیا۔ چنانچہ آپ کی معاونت کے لیے حضرت ثابت بن قیسؓ اور شرجیل بن حسنہؓ نے مختلف مقامات پر مسیلمہ کذاب‘ اسودعنسی ‘سجاح بنتِ حارث‘ عینیہ بن حصن وغیرہ کے لشکروں کا مقابلہ کرکے اس طرح اس بغاوت کا قلع قمع کیا کہ مسیلمہ اور اسود عنسی تو قتل ہوئے اور عینیہ بن حصن نے بعد میں دوبارہ اسلام قبول کرلیا اور سجاح بنتِ حارثہ نے فرار کی راہ اختیارکی۔

    سب سے پہلا اہم معاملہ اس لشکر کی روانگی کا مرحلہ تھا جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا تھا تا کہ غزوہ موتہ کے شہداء کا بدلہ لیا جاسکے۔
    آنحضرت کی زندگی میں یہ لشکر تقریباً روانہ ہوچکا تھا۔ لیکن ابھی مدینہ میں ہی تھا کہ حضورؐ کی وفات ہوگئی اور لشکر کی روانگی ملتوی ہوگئی۔

  5. #5
    Numangumbat's Avatar
    Numangumbat is offline Senior Member+
    Last Online
    26th October 2015 @ 01:32 PM
    Join Date
    05 Jan 2009
    Location
    Islamabad
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    4,510
    Threads
    224
    Credits
    940
    Thanked
    547

    Thumbs down

    اب جب حالات نے ایک دَم پلٹا کھایا اور ہزاروں لاکونں کی تعداد میں لوگوں نے ارتداد اختیار کرکے بغاوت کردی اور یہ خطرہ پیداہوگیا کہ یہ باغیوں کے گروہ مدینہ پر حملہ آور نہ ہوجائیں۔ تو اس خطرے کے وقت صحابہ کرامؓ کی یہ رائے تھی کہ اس لشکر کی روانگی فی الحال منسوخ کردی جائے اور پہلے ان باغیوں سے نمٹ لیا جائے اور پھر بعد میں لشکر کو روانہ کیا جائے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ صدیق جو اب خلیفۂ رسول تھے، انہوں نے یہ پسند نہ کیا کہ لشکر کے جس جھنڈے کی گرِہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگائی تھی اس گِرہ کو اب ابوبکرؓ کھول دے۔ آپ نے کمال جوا نمردی اور جلال سے فرمایا کہ :۔
    "خدا کی قسم اگر مدینہ اس طرح آدمیوں سے خالی ہوجائے کہ درندے آکر میرے جسم کو گھسیٹنے لگیں تب بھی میں اس مہم کو روک نہیں سکتا اور اس کو جانے کا حکم دوں گا"۔

    چنانچہ ان مشکل لمحات کے باوجود آپ نے حضرت اسامہؓ کو روانگی کا حکم دیا اور خود اس طرح حضرت اسامہؓ کو ہدایات فرمائیں کہ اسامہ سپہ سالارِ لشکر گھوڑے پر سوار تھے اور حضرت ابوبکرؓ پیدل گھوڑے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اس پر حضرت اسامہؓ نے عرض بھی کیا کہ اے خلیفہ رسول !آپ گھوڑے پر سوار ہوجائںا وگرنہ میں بھی نیچے اتر آتا ہوں۔

    حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:۔
    " اگر میں تھوڑی دیر تک اپنے پاؤں راہِ خدا میں غبارآلود کرلوں تو اس میں کیا مضائقہ ہے"
    الغرض حضرت اسامہؓ کا لشکر شام کی طرف روانہ ہوا اور چالیس دِن کے بعد انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنے تمام مقاصد کو حاصل کرنے کے بعد یہ لشکر مدینہ واپس پہنچا۔ صحابہ کرامؓ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ نے مدینہ سے باہر جا کر اس لشکر کا استقبال فرمایا۔

    حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کو ابھی سوا دوسال ہوئے تھے کہ آخری وقت آپہنچا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز سخت سردی کے موسم میں حضرت ابوبکرؓ نے غسل فرمایا‘ غسل فرمانے کے بعد بخار ہوگیا جو مسلسل پندرہ دِن تک رہا۔

    حضرت ابوبکرؓ نے اپنی بیماری کے دِنوں میں حضرت عمرؓ کو امامت کے فرائض سرانجام دینے کے لیے کہااور جب آپ نے یہ محسوس کیاکہ یہ بیماری جان لیوا ثابت نہ ہو تو صحابہؓ کے مشورہ سے آپ نے حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین منتخب کیا اور حضرت عمرؓ کے انتخاب کا اعلان خود مجمع عام میں اس طرح فرمایا کہ:
    "میں نے اپنے عزیز یا بھائی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ بلکہ اس کو منتخب کیا ہے جو تمام لوگوں میں سب سے بہتر ہے۔ تمام حاضرین نے اس حسنِ انتخاب پر سمعنا و اطعنا کہا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو بلاکر کچھ نصیحتیں فرمائیں"۔ (طبقات ابن سعد)

    اس کے بعد حضرت عائشہؓ کو اپنے ذاتی اور خانگی معاملات کے بارے میں کچھ وصیت کی اور پھراپنی تجہیز و تکفین کے متعلق فرمایا کہ "دیکھو اس وقت جوکپڑے میرے بدن پر ہیں انہیں کو دھو کر دوسرے کپڑوں کے ساتھ مجھے کفن دینا، حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ یہ تو پرانے ہیں۔ اس پر فرمایا جانِ پدر!مُردوں کی نسبت نئے کپڑوں کے زندہ زیادہ حقدار ہیں "۔

    اس کے بعد پوچھا آج کون سا دن ہے؟ جواب دیا دوشنبہ۔ پھر پوچھا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال کس دن ہوا تھا؟۔ بتایا گیا کہ دوشنبہ کے روز۔ اس پر فرمایا کہ "میری آرزوہے کہ آج کی رات ہی اس عالم فانی سے رخصت ہوں " چنانچہ آپ کی یہ آرزو بھی پوری ہوئی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور معیت کا یہ شوق بھی خدا نے قبول فرمایا اور 13ھ اواخر جمادی الاوّل کو تریسٹھ سال کی عمر میں آپ فوت ہوئے۔

    حضرت عمرؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی‘ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں آپ دفن ہوئے۔

  6. #6
    Mrs asad's Avatar
    Mrs asad is offline Senior Member+
    Last Online
    23rd October 2014 @ 03:35 PM
    Join Date
    02 Feb 2010
    Location
    faisal abad
    Gender
    Female
    Posts
    462
    Threads
    5
    Credits
    0
    Thanked
    45

    Default


  7. #7
    Numangumbat's Avatar
    Numangumbat is offline Senior Member+
    Last Online
    26th October 2015 @ 01:32 PM
    Join Date
    05 Jan 2009
    Location
    Islamabad
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    4,510
    Threads
    224
    Credits
    940
    Thanked
    547

    Thumbs down

    Quote Mrs asad said: View Post
    parh letay tu kiya hi acha hota...

  8. #8
    mr_chor's Avatar
    mr_chor is offline Advance Member
    Last Online
    17th January 2020 @ 07:08 AM
    Join Date
    30 Mar 2009
    Age
    37
    Posts
    668
    Threads
    119
    Credits
    1,155
    Thanked
    41

    Default

    subbannalh itne ZADA aur acha sachai likhe hai aap ne

  9. #9
    Foreign-Observe's Avatar
    Foreign-Observe is offline Senior Member+
    Last Online
    23rd May 2016 @ 03:50 PM
    Join Date
    04 Apr 2010
    Posts
    583
    Threads
    202
    Credits
    0
    Thanked
    194

    Default

    very nice sharing brother...

  10. #10
    Mrs asad's Avatar
    Mrs asad is offline Senior Member+
    Last Online
    23rd October 2014 @ 03:35 PM
    Join Date
    02 Feb 2010
    Location
    faisal abad
    Gender
    Female
    Posts
    462
    Threads
    5
    Credits
    0
    Thanked
    45

    Default

    ae kash k ham jesoon ko un k paaoon ke dhoolloon ke dhool he mil jaey aaammmeeeenn.

  11. #11
    Numangumbat's Avatar
    Numangumbat is offline Senior Member+
    Last Online
    26th October 2015 @ 01:32 PM
    Join Date
    05 Jan 2009
    Location
    Islamabad
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    4,510
    Threads
    224
    Credits
    940
    Thanked
    547

    Default

    reply karnay ka shukriya..........

  12. #12
    Reehab is offline Senior Member
    Last Online
    12th November 2018 @ 06:28 PM
    Join Date
    29 May 2009
    Location
    Dammam
    Gender
    Male
    Posts
    2,448
    Threads
    40
    Credits
    1,150
    Thanked
    449

    Default

    ALLAH ho akbar. parh ker dil bhut kush howa . kiya shan thi ke ALLAh pak un ke bori pahannae per hulam dete hein tamam farishte un ki takleed me borri pahana. SUBHANALLAH. perh ker iman taza ho gaya. but khoob bhayee bhut umda sharing. ALLAH pak aap ko jazyaye kheir ata farmaye ameen

Page 1 of 2 12 LastLast

Similar Threads

  1. Replies: 125
    Last Post: 22nd October 2019, 10:26 PM
  2. Replies: 2
    Last Post: 2nd January 2014, 10:02 AM
  3. Replies: 7
    Last Post: 28th February 2013, 02:28 PM
  4. Replies: 5
    Last Post: 23rd June 2011, 03:15 PM
  5. Replies: 1
    Last Post: 27th December 2008, 04:01 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •