Results 1 to 2 of 2

Thread: معارف اسم محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم

  1. #1
    aziz_865's Avatar
    aziz_865 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th February 2019 @ 04:26 PM
    Join Date
    01 Dec 2009
    Location
    Hyderabad
    Posts
    275
    Threads
    47
    Credits
    1,026
    Thanked
    21

    Default معارف اسم محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم

    معارف اسم محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم
    از :مقاصد الاسلام، حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ امام محمد انوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمۃ والرضوان
    نبوۃ جو سلطنت خدائی میں اعلی درجہ کا منصب ہے اس کا سلسلہ آپ ہی سے شروع ہوا جیسا کہ حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں :" کنت نبياً و آدم بين الماء و الطين " اور ایک روایت میں ہے :

    كنت نبيا وآدم بين الروح والجسد.

    (جامع ترمذی ،ابواب،باب فى فضل النبى صلى الله عليه وسلم،حدیث نمبر:3968-مستدرک علی الصحیحین، ذكر أخبار سيد المرسلين وخاتم النبيين محمد بن عبد الله بن عبد المطلب المصطفى صلوات الله عليه وعلى آله الطاهرين ، حدیث نمبر:4174- مسند امام احمد، حدیث نمبر: 17075)

    یعنی میں اس وقت بھی نبی تھا کہ آدم علیہ السلام ہنوز پیدا نہیں ہوئے تھے- پھر انبیاء گویا آپ کے امتی بنائے گئے کیونکہ آپ پر ایمان لانے کا صرف حکم ہی نہیں بلکہ نہایت شدومد سے اقرار لیا گیا ہے-

    کما قال الله : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آَتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ- (سورۃ آل عمران:81)

    یعنی جب لیا اللہ نے اقرار نبیوں کا کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم ، پھر آئے تمہارے پاس رسول، جو سچ بتادے اس کو جو تمہارے پاس ہے تو البتہ ایمان لاؤ اس پر اور البتہ مدد دینا اس کو، فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا اور لیا تم نے اس پر بھاری عہد میرا، کہا انہوں نے : اقرار کیا ہم نے- فرمایا : تو اب شاہد رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ شاہد ہوں- انتہی (سورۃ آل عمران:81)

    اس سے ظاہرا تمام انبیاء کا حضرت کے امتی ہونا معلوم ہوتا ہے، اسی وجہ سے کل انبیاء قیامت میں حضرت کے جھنڈے کے نیچے رہیں گے اور شب معراج حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان تمام انبیاء کو بتلادی گئی، چنانچہ سب کے امام آپ ہی بنائے گئے اور سب نے آپ کی اقتداء کی-

    کل انبیاء کا یہ حال ہو تو ان کی امتوں کے امتی ہونے میں کیا تامل ؟

    اسی وجہ سے فرماتے ہیں : بعثت الی الناس کافة-

    یعنی کل انسانوں کی طرف میں مبعوث ہوا ہوں اور حق تعالی فرماتا ہے: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا- (سورة سبأ:28)

    یعنی ہم نے تم کو سب آدمیوں کے واسطے بھیجا ، خوشی اور ڈر سنانے کو- (سورة سبأ:28)

    ہر چند معنوی طور پر موسی علیہ السلام حضرت کی امت میں داخل تھے مگر جب توریت میں حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خاص امت کے فضائل پر مطلع ہوئے تو دعا کی کہ ظاہری طور پر بھی حضرت کی امت میں داخل ہوں-



    عالم ملکوت میں آپ کی نام آوری اور شہرت کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ حق تعالی نے اپنے نام مبارک کے ساتھ آپ کا نام نامی یعنی " محمد رسول اللہ "عرش پر اور ہر ایک آسمان میں جگہ جگہ اور جنت کے جھاڑوں اور طوبی اور سدرۃ المنتہی کے ہر ایک پتے اور حوروں کے سینوں اور فرشتوں کی جبینوں پر لکھا-

    جب تک آدم علیہ السلام نے حضرت کے واسطے سے یہ کہہ کر دعا نہ کی کہ" يا رب بحق محمد لما غفرت لي" معافی نہ ہوئی-

    (مستدرک علی الصحیحین ، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194-

    معجم اوسط طبرانی، باب الميم من اسمه : محمد، حدیث نمبر: 6690-

    معجم صغیر طبرانی، باب الميم من اسمه : محمد، حدیث نمبر:989-

    دلائل النبوة للبيهقي، باب ما جاء في تحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم بنعمة ربه عز وجل، حدیث نمبر: 2243-

    مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث نمبر: 13917-

    كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، حدیث نمبر: 32138-)

    یہ اور ان کے سوا بہت سی روایتیں " الخصائص الکبری اورالنہجۃ السویۃ " اور " مواہب لدنیہ اور شفاء قاضی عیاض وغیرہ میں مذکور ہیں ، جن سے ثابت ہے کہ حضرت کا نام مبارک "محمد " ( صلی اللہ وسلم علی مسماہ )

    تمام عالم ملکوت والسماوات میں لکھا ہوا ہے، مقصود اس سے ظاہر ہے کہ اہل ملکوت وغیرہم معلوم کرلیں کہ تمام عالم میں حضرت سے زیادہ کوئی اللہ تعالی کا محبوب نہیں ، چنانچہ آدم علیہ السلام نے یہی خیال کرکے حضرت کے نام کے وسیلہ سے مغفرت چاہی-

    اب یہ دیکھ لیجئے کہ یہ نام مبارک ، حضرت کے لئے کیوں تجویز فرمایا گیا- بات یہ ہے کہ حق تعالی کو" حمد " نہایت محبوب اور مرغوب ہے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے، اسی وجہ سے قرآن شریف کی ابتداء " الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ " سے ہے ، جس کے معنی یہ ہیں " ہر طرح کی حمد، خدا ہی کو سزاوار ہے جو تمام جہان کا پروردگار ہے-

    اور نماز جو تمام عبادتوں میں اعلی درجہ کی عبادت ہے ، اس کی ابتداء بلکہ ہر رکعت کی ابتداء میں الحمد پڑھنے کا حکم ہے ، اور اہل ایمان جب جنت میں جائیں گے حمد کرتے ہوئے جائیں گے ،کما قال الله تعالی :

    وَآَخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ – ( سورة يونس :10)

    یعنی آخر پکارنا ان کا یہ ہے کہ سب تعریف واسطے اللہ کے ہے جو پروردگار سارے جہان کا ہے- انتہی ( سورة يونس :10)



    اب دیکھئے کہ تمام حمد جب حق تعالی کے لئے ثابت ہیں ، جن کا مطلب یہ ہوا کہ سب حامد ہیں اور حق تعالی محمود ہے تو اللہ تعالی کے محمد یعنی حمد کردہ شدہ ہونے میں کیا تامل ؟

    باوجود اس کے یہ پیارا لقب حق تعالی نے ازل سے حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے خاص فرمایا اور ابتدائی تکوین عالم سے عالم ملکوت میں اس کی شہرت دی تاکہ اہل ملکوت پر یہ منکشف ہوجائے کہ جس لفظ کے معنی کا مصداق جناب باری ہو وہ لفظ جن کے لئے تجویز کیا گیا وہ ضرور ایسے ہوں گے کہ عالم میں ان کا نظیر نہ ہوگا-

    اس سے بکمال وضاحت یہ بات ثابت ہوگئی کہ عالم میں حضرت کا مثل نہیں ہوسکتا ، کیونکہ اب ممکن نہیں کہ کوئی دوسرا شخص ازل سے محمد ہوسکے اور اس سے یہ بھی صاف طور پر معلوم ہوا کہ جتنی تعریف و توصیف آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کیجائے وہ باعث خوشنودی الٰہی ہے کیونکہ اس لقب کے عطا کرنے سے اور کیا مقصود ہوسکتا ہے ؟

    اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اشعار نعتیہ سے خوش ہوتے تھے جس کا منشاء خوشنودی الٰہی تھا-

    النہجۃ السویۃ میں لکھا ہے کہ حضرت کی امت کا لقب کتب سابقہ میں " حَمَّادِيْن " ہے -

    تعجب نہیں کہ اس لقب سے اس طرف بھی اشارہ ہو کہ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حمد، وہ کثرت سے کریں گے-

    اگرچیکہ حضرت کے بہت سارے نام ہیں مگر چونکہ یہ پیارا نام حق تعالی کو نہایت محبوب ہے اس لئے ایمان سے اس کو کمال درجہ تعلق ہے ، چنانچہ النہجۃ السویۃ میں لکھا ہے کہ کافر جب تک " محمد رسول اللہ " نہ کہے اس کا ایمان صحیح نہیں اور بجائے اس کے " احمد " کہنا کافی نہیں ہوسکتا-

    اس میں سِرْ یہی ہے کہ ایمان لانے ہی کے وقت آدمی سمجھ جائے کہ حضرت قابل حمد و ثنا ہیں اور حمد زبان اور دل سے کیا کرے –

    اور اسی میں بیہقی کی روایت نقل کی ہے کہ ایک جگہ محدثین کا مجمع تھا ، یہ مسئلہ پیش ہوا کہ عرب کے اشعار میں کونسا شعر عمدہ ہے، سب کا اتفاق حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے اس شعر پر ہوا :

    وَشَقَّ لَه مِنْ اِسْمِه لِيُجِلَّه فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَ هَذَا مُحَمَّدُ

    یعنی حق تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جلالت شان بتلانے کے لئے ان کا نام اپنے نام سے مشتق کیا چنانچہ حق تعالی محمود ہے اور ہمارے نبی کریم محمد ہیں (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)

    چونکہ لفظ " محمد " کے معنی میں کمال درجہ کی جلالت شان معلوم ہوتی ہے جیسا کہ حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے شعر سے بھی ظاہر ہے-

    اس لئے ابن معطی نے اس کے فہم معنی میں متحیر ہوکر یہ تجویز کی کہ وہ علم مرتجل (علم مترجل اس کو کہتے ہیں کہ لفظ بغیر مناسبت کے دوسرے معنی میں نقل کیا جائے جیسے " جعفر" کہ نہر کے لئے موضوع تھا اور بعد کسی کا نام رکھا گيا اور منقول اس کو کہتے ہیں کہ نقل کے وقت معنی سابق کی مناسبت ملحوظ ہو- ) ہے-

    مگر النہجۃ السویۃ میں لکھا ہے کہ علماء نے ان کی غلطی ثابت کی اور کہا کہ وہ منقول اور باب تفعیل سے اسم مفعول ہے ، جس کے معنی حمد کردہ شدہ ہیں-

    اور" صحاح " میں لکھا ہے کہ :

    المحمد الذی کثرت خصاله الحميدة انتهیٰ-

    غرضکہ حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ازل سے ہر ایک موطن و مقام میں ممتاز اور محمد رہے-

    النہجۃ السویۃ میں لکھا ہے کہ جس رات آپ پیدا ہوئے ملائکہ آپ کو خلیفۃ اللہ کہتے تھے، دیکھئے حق تعالی نے ملائکہ سے آدم علیہ السلام کے باب میں فرمایا تھا :

    إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً- (سورۃ البقرہ :30)

    جس سے ظاہر ہے کہ ان کی خلافت صرف زمین سے متعلق تھی لیکن فرشتے چونکہ افلاک وغیرہ میں دیکھتے تھے کہ حضرت کا نام مبارک حق تعالی کے نام مقدس کے ساتھ ہر جگہ مکتوب ہے، اس لئے انہوں نے ان کو علی الاطلاق خلیفۃ اللہ کہہ دیا ، اور" فِي الْأَرْضِ "کی قید جو آدم علیہ السلام کی خلافت میں ملحوظ بھی نہیں لگائی ، فرشتوں کی اس گواہی سے ثابت ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کل ملکوت میں خلیفۃ اللہ ہیں-

    اسی وجہ سے تمام آسمانوں کے ملائک اس خلیفۃ اللہ کے سلام کے لئے روز میلاد حاضر ہوئے ، جن کا نزول اجلال تمام عالم کے حق میں رحمت تھا جیسا کہ حق تعالی فرماتا ہے :

    وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ- (سورة الأنبياء:107)

    جب آپ رحمت مجسم ہوکر اس عالم میں تشریف لائے تو کون ایسا شقی ہوگا کہ نزول رحمت سے خوش نہ ہو-


  2. #2
    Abu ashar's Avatar
    Abu ashar is offline Advance Member
    Last Online
    22nd February 2022 @ 11:14 PM
    Join Date
    01 Apr 2010
    Location
    Kashmir
    Gender
    Male
    Posts
    4,593
    Threads
    241
    Credits
    1,140
    Thanked
    964

    Default

    Jazak Allah

Similar Threads

  1. Replies: 24
    Last Post: 23rd March 2014, 11:52 AM
  2. Replies: 9
    Last Post: 5th September 2013, 12:37 PM
  3. Replies: 13
    Last Post: 5th July 2013, 04:31 PM
  4. Replies: 6
    Last Post: 23rd November 2012, 08:23 AM
  5. Replies: 13
    Last Post: 4th September 2012, 12:39 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •