بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ہر طرح کی تعریفیں اللہ رب العالمین کو ہی سزاوار ہیں جس نے یہ سب کائناتیں صرف چھ۶ دن میں بنائیں اور اس عظیم ذات کو زرہ سی بھی تھکن نہ ہوئی،تیری حمد ہو اتنی جتنے درختوں کے پتے ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے دن اور راتیں ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے سب کائناتوں میں موجود ذرات ہیں،
اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پرآپ کی آل رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر۔
نبی اکرم علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے بلا شبہ ہزاروں پہلو ہیں اور بنی نوع انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے اعتبار سے ہر پہلو دوسرے پر سبقت لے جانے والا ہے۔
نبوت سے پہلے بھی آپ ؑ یقینا لوگوں کے لیے سرتا سر رحمت تھے مکہ میں صادق اور امین کے لقب سے مشہور ہونا اس بات کی دلیل ہے۔پہلی وحی کے بعد جب رسول اکرم ﷺ خوف کی حالت میں گھر تشریف لائے تو اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا اللہ آپ ﷺ کو ہر گزضائع نہیں کرےگا آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں،مصیبت زدہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں،بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں،مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور حق والوں کو حق دلاتے ہیں۔
اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یہ گواہی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ نبوت سے پہلے بھی آپ ﷺ لوگوں کے لیے سرتا سر رحمت تھے۔
منصبِ رسالت پر فائز ہونے کے بعد رسول اکرم ﷺ نے اپنی اُمت تک دین پہنچانے کے لیے جس صبر و تحمل، عفو و درگزر اور شفقت و رحمت کا طرز عمل اختیار فرمایا وہ آپﷺ کی سیرت طیبہ کا ایک ایسا عظیم الشان پہلوہے جس کی رفعتوں اور بلندیوں کا ادراک کرنا کسی انسان کی بس کی بات نہیں ہے۔
غور فرمایئے کہ چالیس سال کے بعد اللہ نے آپﷺ کو منصبِ نبوت سے سرفراز فرمایا،عمر کا یہ وہ حصہ ہوتا ہے جس میں ہر انسان اپنی عزت اور احترام کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے
چالیس سال تک صادق اور امین کہلانے کے بعد جب آپ ﷺ کو لوگ جھوٹا،مجنوں،شاعر،کاہن،اور جادوگر کہتے ہوں گے تو آپ ﷺ کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ آپﷺان گالیوں اور طعنوں کے جواب میں کبھی بھی ایک غلط لفظ تک زبان سے نہیں نکالا۔
تین سال تک خفیہ دعوت کے بعد آپﷺ نے علانیہ دعوت کا علان فرمایا تو رسول اکرمﷺنے تمام قبائل کو جمع فرما کر توحید کی دعوت پیش کی، آپﷺ کے چچا ابولہب نے آپﷺ کی سخت توہین کی اور یہ کہہ کر ڈانٹ دیا تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں کیا تو نے ہم کو اس لیے جمع کیا ہے‘‘‘آپ ﷺ نے چچا کے اس ہتک آمیز رویہ پر مکمل خاموشی اختیار فرمائی لیکن قرآن میں اللہ نے اس کا جواب دیا’’’ تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ Ǻۭابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا ‘‘‘ کہہ کر دے دیا۔
امیہ بن خلف آپﷺ کو دیکھتے ہی گالیاں بکنا شروع کر دیتا تھا اور لعن طعن کرتا تھا لیکن آپﷺ نے اس کے جوب میں ہمیشہ خاموشی اختیار کی حتیٰ کہ اللہ نے قرآن مجید میں اس کا جواب دیا’’’وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ Ǻۙ بڑی خرابی (اور تباہی) ہے ہر ایسے شخص کے لیے جو خوگر (و عادی) ہو منہ در منہ طعن (و تشنیع) کا اور پیٹھ پیچھے عیب لگانے کا۔
جب رسول اکرم ﷺ کے صاحبزادے عبداللہ فوت ہوئے تو ابولہب،عاص بن وائل،ابوجاہل وغیرہ نے آپﷺ کو ـ’’’جڑ کٹا‘‘‘ہونے کا طعنہ دیا لیکن آپ ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اللہ نے قرآن میں اس کا جواب یوں دیا،’’’اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ Ǽ یقیناً تیرا دشمن ہی لا وارث اور بے نام و نشان ہے ۔
مکی زندگی کے ۱۳ سال اسی طرح کی مشکلات میں گزرے ہر کوئی اہلِ اسلام کو پریشان کرنے کا طریقہ سوچتا رہتا کوئی موقعہ ہاتھ سے خالی نہیں جانے دیتے تھے مکی زندگی میں اور بھی بہت سی مشکلات کا سامنا تھا مگر یہاں صرف وہ واقعات پیش کرنے ہیں جس میں نبی علیہ السلام کی ناموس کو نشانہ بنایا گیا۔
تاریخ کے صفحات میں جہاں کفار کے گھناونے جرائم اور ظلم و ستم کی داستانیں محفوظ ہیں وہاں یہ خیرت انگیز حقیقت بھی محفوظ ہے کہ آپﷺ نے ان مظالم سے تنگ آ کر اپنی ناراضگی کا اظہار کتنی دفعہ فرمایااور کن الفاظ میں فرمایا؟ تیرا ۱۳ سالہ طویل مکی زندگی میں صرف تین یا چار مواقع ایسے ملتے ہیں جب رسول اکرمﷺ نے کفار کےظلم و جور سے تنگ آ کر اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا، حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی ناراضی کا اظہار بھی آپﷺ کے کریمانہ اور شریفانہ اخلاق کا اعلیٰ ترین مظہر ہے۔
پہلا واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے ہمسائے میں ابولہب،عقبہ بن ابی معیط وغیرہ رہتے تھے جو شب و روز آپﷺ کے گھر غلاظت اور گندگی پھینک کر آپ ﷺ کو اذیت پہنچاتے تھے جب آپﷺ زیادہ پریشان ہوتے تو دیوار پر چڑھ کر یا دروازے پر کھڑے ہو کر بس اتنا فرماتے’’’’’اے بنو عبدمناف یہ کیسی ہمسائیگی ہے؟‘‘‘‘‘
یہ تھا آپﷺ کا ردِعمل اس تکلیف اور اذیت ناک بدتمیزی پر۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ مسجد حرام میں آپﷺ نماز پڑھ رہے تھے، ائمہ کفر نے مشورہ کر کے سجدے کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی آپﷺ کی کمر پر رکھ دی اور خود کھڑے ہو کر قہقہے لگانے لگے حتیٰ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع ملی اور انہوں نے آکر اوجھڑی ہٹائی اس وقت آپ ﷺ نے تین بار فرمایا ’’اللھم علیک بقریش‘‘ یعنی ’’’یا اللہ تو قریش سے نپٹ لے‘‘‘ مشرکینِ مکہ کے ظالمانہ اور استہزایہ کرتوتوں پر یہ آپﷺ کا دوسرا ردِعمل تھا۔
تیسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک بار دورانِ طواف مشرکین نے آپﷺ کو لعن طعن کی اور ڈانٹا تو آپﷺ نے یہ جواب دیا’’’’’میں تمہارے پاس ذبح کا حکم لے کر آیا ہوں‘‘‘‘اس پر سارے مشرکین ساکت ہو کر رہ گئے۔
مصائب و مشکلات سے پُر آپ ﷺ کی تیرہ سالہ طویل مکی زندگی میں آپﷺکی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ ہیں سخت سے سخت الفاظ جو ہمیں تاریخ سے ملتے ہیں جس میں کسی کو گالی دی نہ لعن طعن کیا،کسی سے بدتمیزی کی نہ کسی کا مذاق اڑایا،کسی سے لڑائی جھگڑا مول لیا نہ کسی سے بحث کی، بلکہ انتہائی شائستہ اور مہذب الفاظ میں معاملہ اللہ کے سپرد کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ آپﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ تسلیم کیئے بغیر چارہ نہیں کہ آپﷺ اپنے اخلاق اور کردار کے اعتبار سے بالکل ویسے ہی تھے جیسا کہ اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا’’’اے محمدﷺبےشک آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز ہیں‘‘‘سورۃ القلم آیت نمبر۴۔
اخلاق کا ایسا عظیم مرتبہ جس پر اس کائنات کا کوئی دوسرا انسان فائز ہے نہ ہو سکتا ہے۔
یہ سب حالات تھے مکہ کے مدینہ میں جب ہجرت ہو گئی اور درالسلام بن گیا تو اللہ نے جہاد اور قتال کا حکم نازل فرمایا مکہ میں صبر کرنے کا حکم ہم کو ملتا ہے آلِ یاسر رضی اللہ عنہم پر جو ظلم ہوئے اس پر بھی صرف صبر کا حکم آیا اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا کہ مسلمان ڈرتے تھے نہیں بلکہ اللہ کی اس میں کوئی حکمت تھی جو ہر معاملے پر صبر کرنے کو کہا گیا۔
اب وہ آیات دیکھیں جس میں صبر کا حکم دیا گیا ہے۔
اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ کہ ہماری امداد ان کو پہنچی اور اللہ کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں ، اور آپ کے پاس بعض پیغمبروں کی بعض خبریں پہنچ چکی ہیں ۔
سورۃ الانعام آیت نمبر۳۴۔
موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ تعالٰی کا سہارا حاصل کرو اور صبر کرو، یہ زمین اللہ تعالٰی کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے وہ مالک بنا دے اور آخر کامیابی ان ہی کی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں ۔
سورۃ الاعراف آیت نمبر ۱۲۸
اور ہم نے ان لوگوں کو جو بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی اور آپ کے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا اور ہم نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے سب کو درہم برہم کر دیا ۔
سورۃ الاعراف نمبر ۱۳۷
ان آیات میں پہلے رسولوں کا ذکر کر کے ان کے صبر کا بتایا گیا ہےاور ان کے صبر کی ہی برکت سے اللہ نے ان کو کفار پر غالب کر دیا۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ جب مسلمان کمزور ہوں تو صبر اور استقامت سے کام لینا چاہیے۔ صبر کفار کے ظلم پر اور استقامت اپنے دین پر قائم رہ کر۔
مدنی زندگی۔
ایک واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ۔۔۔۔۔۔
محمد بن یحیی بن فارس، حکم بن نافع، شعیب، زہری، عبدالرحمن بن عبد اللہ بن کعب بن مالک، حضرت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ وہ ان تین اشخاص میں سے ایک ہیں جن کا گناہ (غزوہ تبوک) میں معاف ہوا تھا۔ اور کعب بن اشرف ایک یہودی تھا جو (اپنے اشعار میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت کیا کرتا تھا اور کفار قریش کو آپ کے خلاف بھڑکاتا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو یہاں مختلف مذاہب کے لوگ تھے جن میں مسلمان بھی تھے۔ بت پرست مشرکین بھی اور یہودی بھی جو (اپنے اشعار اور کلام کے ذریعہ) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو ایذا پہنچاتے تھے اس پر اللہ تعالی نے مکہ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صبر اور درگزر کا حکم فرمایا آیت نازل ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے تم ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اس موقعہ پر اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار تو بیشک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔
پس جب کعب بن اشرف نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچانے سے باز نہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ کو حکم فرمایا کہ وہ اس کو قتل کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجیں پس انھوں نے محمد بن مسلمہ کو بھیجا۔ اور راوی نے اس کے قتل کا قصہ ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب انھوں نے کعب بن اشرف کو قتل کر ڈالا تو یہودی اور مشرکین سب خائف ہو گئے اور یہ سب لوگ صبح کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور بولے چند لوگوں نے ہمارے سردار کو قتل کر دیا تو بنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی وہ باتیں ان کے سامنے نقل کیں جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت میں کہا کرتا تھا اس کے بعد آپ نے ان سے فرمایا اب ہمارے اور تمہارے درمیان ایک قرارداد لکھی جانی چاہئیے جس پر دونوں فریق رک جائیں (اور اس سے تجاوز نہ کریں) پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ان کے اور تمام مسلمانوں کے درمیان ایک قرارداد لکھی۔
سنن ابوداؤد:جلد دوم: باب : مدینہ سے یہودیوں کااخراج
ریگین تحریر کے لیے پی۔ڈی۔ایف فائل اتاریں
Bookmarks