کمانڈر ابن الخطاب شہید
تاریخ بڑے لوگوں کے حالات زندگی کا نام ہے ۔ جو لوگ اپنی اہلیتیوں اور قابلیتیوں کی بنا پر حالات کو فطری انداز سے تبدیل کرکے اپنی پسند کے دھارے میں ڈھالتے ہیں وہ بلاشبہ بڑے لوگ ہوتے ہیں ۔ اگر ہم ایسے ہی لوگوں کا اسلامی تاریخ سے جائزہ لیں تو ان کا تعارف شیخ عبداللہ عزام یوں کرواتے نظر آتے ہیں۔
’’وہ بہت کم افراد ہیں جو اسلام کی مبادیات اٹھانے والے ہیں ۔ اور وہ ان میں سے بھی تھوڑے ہیں جو ان مبادیات کی تبلیغ کیلئے دنیا بھر میں نکلتے ہیں۔پھر ان میں سے بھی وہ بھت کم ہیں جو ان مبادیات کی تائید میں اپنا خون اور اپنی جان تک پیش کر دیتے ہیں ۔اور یہی لوگ جو قلیل میں سے قلیل میں سے قلیل افراد ہیں ان کے راستے سے سواکسی اور راستے سے بزرگی اور شرف حاصل کرنا ممکن نہیں اور یہی واحد راستہ ہے ‘‘۔
اگر ہم تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو بہت کم اسلام کے ان ابطال کا تذکرہ ہمارے سامنے آئے گا جنہوں نے جہد اسلامی کے ان تمام پہلوؤں کو پورا کیا ہو۔ لیکن ان قلیل ابطال میں سے ایک نام اسلام کے اس بطل جلیل کا آئے گا جسے پوری دنیاامیر ابن الخطاب شہید کے نام سے جانتی ہے ۔
ابن الخطاب 1969میں سعودی عرب کے شمال سرحدی علاقے عرعر میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد سعودی عرب سے تھے جبکہ والدہ ترکی سے تعلق رکھتی تھیں ۔ چنانچہ انہوں نے ایک نسبتاً بہتر دولت مند اور تعلیم یافتہ گھرانے میں پرورش پائی اور بڑے ہوکر بہادر اور تنو مند نوجوان بنے جنہیں نڈر اور بے خوف سمجھا جاتا تھا۔ وہ سکول میں انتہائی لائق اور ذہین طالبعلم شمار ہوتے تھے اور انہوں نے سیکنڈری سکول امتحان میں 94%نمبر حاصل کئے ۔بعد ازاں انگلش زبان میں ماسٹرز کرنے کے بعد انہوں نے1987میں ایک امریکن انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لے لیا اور مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
یہ وقت تھاجب افغانستان پر چڑھائی کرنے والی سوویت یونین کے خلاف جہاد اپنے عروج پر تھا۔ پوری دنیا سے مسلمان نوجوان‘ الشیخ عبداللہ عزام(شہید1989) ٬الشیخ تمیم عدنانی (وفات1988) اور الشیخ اسامہ بن لادن جیسی جہادی شخصیات کی پکار پر لبیک کہنے کیلئے افغانستان کا رخ کر رہے تھے ۔ مجاہدین کے دلیرانہ کارناموں اور بے باک شجاعتوں کے ورطئہ حیرت میں ڈال دینے والے واقعات دنیا بھر کے مسلمانوں کے کانوں تک پہنچ رہے تھے ۔ لہٰذا خطاب کیلئے بھی جب امریکہ میں نئی تعلیمی زندگی کی ابتدا کرنے کا وقت آیا تو انہوں نے امریکہ کی بجائے ؛اپنے بہت سے دوستوں اور رشتہ داروں کی طرح افغان جہاد میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔ جس دن 1987کے اواخر میں وہ اپنے والدین اور خاندان والوں سے رخصت ہوئے تو اس کے بعد وہ اپنے گھر واپس نہیں آئے۔
ان کے ایک مجاہد ساتھی نے اُس نو عمر‘ خطاب ۔ ۔ ۔ جو اپنے پہلے تربیتی کیمپ جلال آباد پہنچا ۔ ۔ ۔ کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کاحال بیان کرتے ہوئے کہا’’ جلال آباد کے نزدیک یہ تربیتی کیمپ ان مجاہد ساتھیوں سے بھرا ہوا تھا جو کہ تقریباً روزانہ نئے پہنچتے اور ٹریننگ حاصل کرکے چلے جاتے ۔ ہم ان دنوں روسیوں کے خلاف ایک بڑے حملے کی تیاری کر رہے تھے ۔ وہ مجاہد جو اپنی تربیت مکمل کر چکے تھےاپنے اپنے پیک تیار کرنے کے بعد فرنٹ لائن پر پہنچنے کیلئے روانہ ہو رہے تھے ۔ ہم بھی تربیت کے بعد فرنٹ لائن پر پہنچنے کیلئے کیمپ چھوڑنے کی تیاری کر رہے تھے کہ نئے بھائیوں کا ایک گروپ آپہنچا ۔میں نے اس گروپ میں لمبے بالوں اور کشادہ پیشانی والے 16-17سال کی عمر کے ایک نوجوان کا جائزہ لیا۔ اس نوجوان کو جونہی فرنٹ لائن پر جانے والے ہمارے قافلے کا علم ہوا تو یہ نوجوان تربیتی کیمپ کے کمانڈر کے پاس چلا گیا ۔ اور اس سے التجا کرنے لگ گیا کہ اسے بھی فرنٹ لائن پہ جانے والے اس گروپ کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے ۔ لیکن کمانڈر نے بغیر تربیت کے اسے فرنٹ لائن پر بھیجنے سے یکسر انکار کر دیا ۔ میں اس نوجوان سے بہت متاثر ہوا،اسکے پاس گیا اور اسے تھپتھپا کر حوصلہ دیا ۔ میں نے اس سے اس کا نام دریافت کیا ۔ اس نے جواب دیا ’’ابن الخطاب‘‘۔
خطاب اس کیمپ میں اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد فرنٹ لائن پرچلے گئے۔معسکر میں ان کے اساتذہ میں سے ایک حسن الصریحی تھے [یہ جدہ کے نواحی ایک حراستی کیمپ میں 1996سے زیر حراست ہیں] جواس معسکرکے امیربھی تھے انہوں نے 1987میں جاجی کے محاذ پر افغان اور پاکستانی مجاہدین کے ساتھ شیخ اسامہ کی کمان میں زندگی اور موت کا ایساشاندار معرکہ سر کیاتھاجو آج عسکری تاریخ کا سنہری باب بن چکا ہے ۔ ایسے قابل قدر اساتذہ سے تربیت پانے کے بعد خطاب آئندہ چھے سالوں میں مجاہدین کے منتخب بہادر اور تجربہ کار کمانڈروں کی صف میں شامل ہو چکے تھے جنہوں نے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے ۔ اور ہر محاذ پر روسی افواج کو ہزیمت سے دوچار کیا ۔ وہ روسی افواج کے خلاف ایمبش اورحملوں سے لے کر قریباً ہر بڑے آپریشن فتح جلال آباد ، فتح خوست اور فتح کابل میں شامل رہے ۔
خطاب میدان جہاد میں بسا اوقات موت کے ہاتھوں بال بال بچے ،کہ ابھی وہ وقت مقررہ نہیں آیا تھا۔ ایک دفعہ ان کے پیٹ میں 12.7mmہیوی مشین گن کی گولی لگ گئی (یاد رہے کہ یہ گن بکتر بند گاڑیوں کو نقصان پہنچانے اور دشمن کی مضبوط مورچہ بندیوںکو کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے) چنانچہ ان کے دوست نے یہ واقعہ بتلاتے ہوئے کہاکہ ’’ ایک آپریشن کے دوران ہم چند ساتھی خط ثانی پر ایک مکان میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ یہ شام کے دھندلکے کا وقت تھا اور خط اول پر لڑائی شدت سے جاری تھی ۔ اسی اثناء میں خطاب کمرے میں داخل ہوا ۔ اس کا چہرہ زرد دکھائی دے رہا تھا ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ نارمل ہونے کی کوشش کر رہا ہو۔ وہ دیوار کے ساتھ چلتا ہوا ہما رے سامنے بیٹھ گیا۔اور خلاف معمول دیرتک خاموش بیٹھا رہا ۔ساتھیوں نے محسوس کیاکہ اس کے ساتھ کوئی گڑ بڑ ہو گئی ہے ۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ کہیں وہ زخمی تو نہیں ہوگیا ۔ ’’نہیں ‘‘ اس نے مختصر سا جواب دیا۔اس نے مزید بتایا کہ ’’ آج صبح خط اول پرلڑائی کے دوران معمولی فائر لگ گیا تھا جو زیادہ خطرناک نہیں ہے‘‘ ۔ بھائیوں نے خطاب سے کہا کہ وہ انہیں زخم دکھائے ۔لیکن خطاب نے زخم دکھانے سے انکار کر دیا۔ جب ایک بھائی کے مزید اصرار پر اس نے اپنا زخم دکھایا تو ہم نے دیکھا کہ فائر لگنے سے جسم پھٹ چکا تھا اور کپڑے خون میںبھیگ رہے تھے ۔ تب ہم نے ایک گاڑی کا انتظام کرکے اسے جلدی سے نزدیکی فیلڈ ہسپتال میں پہنچایا جبکہ وہ مسلسل کہے جارہا تھا کہ فائر معمولی ہے اور زخم زیادہ خطرناک نہیں ہے ‘‘۔
اسی طرح خطاب اس وقت افغانستان میںہی تھے جب ایک مقامی طور پر تیار کردہ ہینڈ گرنیڈ پھینکتے ہوئے ان کے دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں اڑ گئیں ۔ گرینڈ ان کے ہاتھ میں ہی پھٹا اوراس نے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کو اڑا دیا ۔ خطاب اس دھماکے میں بال بال بچ گئے ۔ مجاہدین نے ان کے علاج پر توجہ دینے کیلئے اُنہیں پشاور جانے پر قائل کرنا چاہا مگر وہ مصر رہے کہ زخم پر شہد لگانے سے ہی یہ ٹھیک ہو جائیگا اور اس کیلئے پشاور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ چنانچہ پشاور جانے سے انہوں نے قطعاً انکار کر دیا ۔ اس کے بعد ان کی یہ انگلیاں پٹی میں بندھی رہتیں ۔
چیچن جہاد میں بھی وہ کئی مرتبہ دشمن کے ہاتھوں دھوکے سے شہید ہونے سے بچے ۔ ایک مرتبہ وہ مال غنیمت میں ملنے والی 4ٹن وزنی روسی گاڑی چلا کر لارہے تھے ۔ گاڑی میں روسیوں نے دھوکے سے ٹائم بم نصب کیا ہوا تھا ۔ اچانک راستے میں گاڑی دھماکے سے پھٹ گئی ۔ گاڑی میں سوار مجاہدین کے اعضاء دور تک جا بکھرے ۔ لیکن خطاب کو اللہ کے فضل سے خراش تک نہ آئی اور وہ بچ گئے ۔
افغانستان سے روسی افواج کے پسپا ہونے کے بعد، جب ان کے حمایتی کمیونسٹ بھی مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھا گئے تو خطاب اور ان کے دوستوں نے ایک مرتبہ دوبارہ جہاد کی آواز سنی اور یہ آواز اس مرتبہ تا جکستان سے آئی تھی ۔ اپنے ساتھیوں کے چھوٹے سے گروپ کے ہمراہ انہوں نے تاجکستان کیلئے رخت سفر باندھا ۔ وہ مناسب گولہ و بارود اور اسلحہ کی شدید قلت کے باوجود تاجکستان کے برفانی پہاڑی سلسلوں میں روسیوں کے خلاف مسلسل2 سال تک بر سر پیکار رہے۔جہاد تا جکستان میں دو سال تک حصہ لینے کے بعد وہ 1995کے آغاز میں دوبارہ افغانستان واپس آگئے ۔ روس اس وقت چیچنیا کے خلاف اپنی پہلی جنگ کا آغاز کر چکا تھا ۔چیچنوں کے اسلام سے والہانہ لگاؤ اور دینی وابستگی کی وجہ سے ہر کوئی اس جنگ سے مضطرب نظر آ رہا تھا۔
خطاب نے ایک شام ، سٹلائیٹ ٹیلیویژن پر چیچنیا جنگ کے متعلق خبریں دیکھیں توانہیں اس جنگ کے بارے میں تفصیلاً علم ہوا۔ بعد میں انہوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے بتلایا ،’’ جب میں نے ایک چیچن گروپ کو پیشانیوں پر لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ وا لی پٹیاں باندھے اور تکبیر کے نعرے لگاتے جاتے ہوئے دیکھا تو میں نے فیصلہ کیا کہ چیچنیا میں بھی جہاد جاری ہے، مجھے لازماًوہاں پہنچنا چاہئے ‘‘ ۔ خطاب نے بتایا کہ وہ اس سے قبل چیچنیا کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے تھے ماسوا کہ ان کے پاس امام شامل اور ان کی تحریک کے بارے میں سرسری سی معلومات تھیں ۔
Bookmarks