جناب سرور کائنات` فخر موجودات` شفیع المذنبین` خاتم النبین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وازواجہ واتباعہ وسلم کا ہر ایک ارشاد` ہر جملہ اور ہر لفظ اہمیت کا حامل ہے- ہر ایک لفظ میں` ہر ایک جملے میں ہمارے لیے ہدایت اور راہنمائی کے بہت سے پہلو ہیں- لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہزاروں ارشادات عالیہ میں جن ارشادات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے` ان میں حجة الوداع کا خطبہ بھی شامل ہے- جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری حج کیا` اسے دو حوالوں سے حجة الوداع کہتے ہیں- ایک اس حوالہ سے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج وہی کیا` اور اس حوالے سے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس خطبہ میں ارشاد فرمایا : لعلی لا القاکم بعد عامی ھذا- یہ میری تم سے آخری اجتماعی ملاقات ہے` شاید اس مقام پر اس کے بعد تم مجھ سے نہ مل سکو- یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں یہ بات تھی کہ میں اپنے صحابہ سے آخری اجتماعی ملاقات کر رہا ہوں- آپ نے بطور خاص فرمایا کہ مجھ سے باتیں پوچھ لو` سیکھ لو` جو سوال کرنا ہے` سوال کر لو` شاید اس سال کے بعد میں تم لوگوں سے اس طرح ملاقات نہ کر سکوں- گویا حضور خود بھی الوداع کہہ رہے تھے- اس مناسبت سے اس حج کو حجة الوداع کہتے ہیں-
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ایک ہی حج کیا اور وہ حج یہی تھا- ہجرت سے پہلے جب مکہ مکرمہ میں حضور کا اپنا قیام تھا` ٥٣ سال کی عمر تک آپ حج کرتے رہے- تعداد ذکر نہیں ہے- محدثین یہ فرماتے ہیں کہ جب سے حضور نے ہوش سنبھالا` مکہ میں رہے تو ظاہر ہے کہ ہر سال حج میں شریک ہوتے رہے ہوں گے- روایات میں ذکر آتا ہے کہ حج کے موقع پر جو اجتماع ہوتا تھا` منی میں` عرفات میں` لوگ دنیا کے مختلف حصوں سے حج کے لیے آتے تھے` تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس اجتماع سے فائدہ اٹھاتے تھے- آپ خیموں میں جاتے تھے` لوگوں سے ملتے تھے اور دعوت دیتے تھے- چنانچہ انصار مدینہ کے دونوں گروہوں اوس اور خزرج کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو رابطہ ہوا` وہ حج ہی کے موقع پر ہوا- ان دونوں قبائل کے لوگ حج کے لیے آئے ہوئے تھے` حضور خیموں میں جا کر دعوت دے رہے تھے تو انہوں نے آپ کی بات توجہ سے سنی اور قبولیت کا اظہار کیا-