رمضان المبارک ٨ھ میں مکہ فتح ہوا- ٩ھ میں مسلمانوں نے اجتماعی طور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی امارت میں پہلا حج ادا کیا- حضور اس حج میں خود تشریف نہیں لے گئے- حضرت ابوبکر صدیق کو مدینہ سے امیر حج بنا کر بھیجا اور ان کے ذریعے حج کے موقع پر کچھ اعلانات کروائے- ان کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بھیجا` کچھ اعلانات ان کے ذریعے کروائے اور آئندہ سال اپنے حج کے لیے تیاری کی- (بخاری` رقم ٣٥٦) اس تیاری میں دو تین باتیں اہم تھیں- مختلف عرب قبائل کے ساتھ معاہدات تھے- کچھ کو باقی رکھنے کا فیصلہ کرنا تھا اور کچھ کو ختم کرنے کا- اور ایک بات یہ تھی کہ آئندہ سال اپنے حج سے پہلے حضور مکہ کے ماحول میں کچھ صفائی چاہتے تھے- مثلاً پہلے ہر قسم کے لوگ حج کے لیے آجاتے تھے- آپ نے اعلان کروا دیا کہ آج کے بعد کوئی غیر مسلم یہاں نہیں آئے گا- یہ بیت اللہ صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص ہے` آج کے بعد مسلمانوں کے علاوہ یہاں اور کوئی نہیں آئے گا- یہ بیت اللہ ابراہیمی ہے اور ابراہیم علیہ السلام کی ملت کے لیے مخصوص ہے-
دوسری بات یہ کہ پہلے بہت سے لوگ حج کے لیے آتے تو ننگے طواف کرتے` مرد بھی اور عورتیں بھی- عورتوں نے معمولی سا لنگوٹی طرز کا کوئی کپڑا پہن رکھا ہوتا تھا اور کہتے تھے کہ یہ نیچر ہے کہ ہم دنیا میں بھی ننگے آئے تھے` اس لیے ہم اللہ کے دربار میں ننگے ہی پیش ہوں گے- بعض روایات (مسلم` رقم ٥٣٥٣) میں ذکر ہے کہ مرد تو تلبیہ پڑھتے تھے` لیکن عورتیں کچھ اشعار پڑھتی تھیں` مثلاً :

الیوم یبدو بعضہ أو کلہ فما بدا منہ فلا أحلہ
جن کا مطلب یہ تھا کہ ہم اللہ کے دربار میں اس کیفیت (ننگی حالت) میں پیش ہیں- ہمارا ستر سارا یا اس کا کچھ حصہ دکھائی دے گا` لیکن ہم اپنے آپ کو کسی پر حلال نہیں کرتیں کہ وہ ہماری طرف دیکھے- اس طرح کے اشعار پڑھتی ہوئی طواف کرتی تھیں- تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان بھی کروا دیا کہ آج کے بعد کوئی شخص ننگا طواف نہیں کرے گا- عورتیں تو مکمل لباس میں ہوں گی اور مرد بھی اپنا جسم مکمل طور پرڈھانپیں گے لیکن دو چادروں سے- مردوں کے لیے دو چادریں مخصوص ہوں گی جبکہ عورتیں پورے لباس میں با حیا اور با وقار طریقہ سے آکر طواف کریں گی-
یہ دو اعلان حضور نے اگلے سال کے لیے کروا دیے کہ اگلے سال کوئی غیر مسلم حج کے لیے نہیں آئے گا اور کوئی ننگا طواف نہیں کرے گا- اس کے علاوہ اور بھی متفرق اعلانات کروائے کہ آج کے بعد حج میں یہ ہوگا اور یہ نہیں ہوگا- پھر اس اہتمام کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا سال مختلف قبائل میں پیغامات بھیجے کہ آئندہ سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں` اس لیے جو مسلمان بھی اس موقع پر پہنچ سکتا ہے` پہنچے- چنانچہ پورا سال یہ اعلانات ہوتے رہے` لوگوں تک یہ پیغام پہنچتا رہا کہ جس مسلمان نے حضور کی رفاقت حاصل کرنی ہے` معیت حاصل کرنی ہے` جس نے آپ سے کوئی بات پوچھنی ہے تو وہ حج پر پہنچے- چنانچہ پورے اہتمام کے ساتھ جزیرة العرب کے مختلف علاقوں سے لوگ حج کے لیے آئے- ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ چالیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حجة الوداع کے موقع پر جمع ہوئے- یہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں صحابہ کرام کا سب سے بڑا اجتماع تھا- حضور کی حیات میں اس سے بڑا صحابہ کا اجتماع نہیں ہوا- صحابہ کرام مختلف علاقوں سے آئے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا-