قائد اعظم (رح) کا تصور پاکستان

تحریر: شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
پاکستان کا قیام تاریخ انسانی کا ایک عظیم واقعہ ہے۔ مسلمانان ہند کی سال ہا سال کی قربانیوں اور قائد اعظم کی ولولہ انگیز اور بابصیرت قیادت کا ثمر تھا کہ انگریزوں کی سازشوں اور ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود مسلمانان برصغیر نے چند سال کی محنت کے نتیجے میں کرہ ارض پر دنیا کا سب سے بڑی اسلامی مملکت قائم کرنے کا معجزہ کر دکھایا۔ لیکن آج جب ہم تاریخ کے اوراق میں جھانکتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پاکستان قائم ہونے کے باوجود ان مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہوا جو قیام پاکستان کے وقت پیش نظر تھے۔ آج ہمیں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قائداعظم، علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے پیش نظر وہ کیا مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے اتنی طویل جدوجہد کی گئی، جس کے لئے ان گنت قربانیاں دی گئی اور ہجرت کا ایک ایسا عظیم عمل وجود میں آیا جس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ صاف ظاہر ہے اس کے پیش نظر دنیا کا کوئی حقیر مقصد نہیں ہوسکتا تھا بلکہ یہ سب کچھ ایک عظیم نظریاتی، روحانی اور تہذیبی مقصد کے پیش نظر تھا۔ آج جب کہ قوم بانی پاکستان کا یوم ولادت منا رہی ہے یہ امر بہت اہم کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ قائد اعظم کے پیش نظر پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھا اور ان کے تصور کے مطابق پاکستان کا نظام اور پاکستان کی قومی زندگی کی ہیئت کیا ہونی چاہیے تھی؟ قائد اعظم کے بیسیوں بیانات اور ان کی تحریریں اس امر کو واضح کرتی ہیں کہ ان کا تصورِ پاکستان کیا تھا۔ 22 مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ہونے والا قائداعظم کا خطاب اس امر کو بہت تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ ان کے پیش نظر ہندو مسلم اختلاف اور فرق کی نوعیت کیا تھی اور اس فرق کے نتیجے میں متحدہ ہندوستان میں وہ کون سے حالات تھے جن کے تحت مسلمان زندگی نہیں گزار سکتے تھے اور وہ اس امر پر مجبور تھے کہ یہ ایک الگ خطہ کا مطالبہ کریں۔ قائد اعظم نے اپنے اس تاریخی خطاب میں ہندو مسلم تہذیب اور قوم کے اختلافات کو بیان کرتے ہوئے اس طرف اشارہ کیا کہ ہندؤوں اور مسلمانوں کا تنازعہ کوئی وقتی یا فرقہ وارانہ تنازعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک تہذیبی اور ثقافتی فرق ہے جس کی جڑیں مذہب میں گہری ہیں۔ آپ نے اس خطاب میں ہندو مسلم اختلافات کی اس تاریخی اور نظریاتی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’یہ سمجھنا بہت دشوار بات ہے کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو مت کی حقیقت نوعیت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں مذاہب نہیں ہیں۔ فی الحقیقت یہ مختلف اور نمایاں معاشرتی نظام ہیں اور یہ ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم کی سلک میں منسلک ہو سکیں گے۔ ایک ہندی قوم کا تصور حدود سے بہت زیادہ تجاوز کر گیا ہے اور آپ کے بہت سے مصائب کی جڑ ہے۔ اگر ہم بروقت اپنے تصورات پر نظرثانی نہ کرسکے تو یہ ہند کو تباہی سے ہمکنار کر دے گا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کا دو مختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رسم و رواج اور ادب سے تعلق ہے۔ نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں نہ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں۔ دراصل وہ دو مختلف تہذیبوں سے متعلق ہیں جن کی اساس متصادم خیالات اور تصورات پر استوار ہے۔ یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں۔ ان کی رزم مختلف ہے، ہیرو الگ ہیں اور داستانیں جدا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن ہوتا ہے اور اسی طرح ان کی کامرانیاں اور ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہیں۔ ایسی دو قوموں کو ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کا جن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اور دوسری اکثریت ہو، نتیجہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی ہوگا اور آخر کار وہ تانا بانا ہی تباہ ہو جائے گا جو اس طرح کی ریاست کے لئے بنایا جائے گا۔ ‘‘
یہی وہ وژن تھا کہ قائد اعظم نے جب بھی قیام پاکستان کی بات تو اس حقیقت کو انہوں نے شرح صدر کے ساتھ جابجا بیان کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک الگ خطہ کا مطالبہ بنیادی طور پر ایک ایسی سرزمین کے حصول کے لئے کوشش ہے جہاں وہ ایک ایسی مملکت قائم کرسکیں جس میں ان کے اپنے نظریاتی روحانی اور مذہبی آدرش تکمیل پذیر ہوسکیں اور وہ اپنی خواہشات کے مطابق نظام کو قائم کرسکیں جس کے اندر ان کے ایمان و ایقان اورنظریات کی بقا ہے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کے قیام کے اس مقصد کو بیان کرتے ہوئے نئی دہلی میں یکم اپریل 1940ء کو ارشاد فرمایا:
’’اس امر کے احساس ہی کی وجہ سے ہندو انڈیا کی مسلمان اقلیتوں نے آمادگی کے ساتھ قرارداد لاہور کی تائید کی تھی۔ ہندو انڈیا میں مسلم اقلیتوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا نو کروڑ نفوس پر مشتمل پورے مسلم ہند پر ہندو اکثریت کا راج مسلط کر دیا جائے جہاں انہیں اپنی روحانی، اقتصادی اور سیاسی زندگی کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ترقی دینے اور اپنا مستقبل خود سنوارنے کا موقع حاصل ہو اور ہندوؤں اور دیگر لوگوں کو بھی یہی موقع حاصل ہو۔ مسلمانوں کے وطن میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کی یہی صورت حال ہوگی۔