‎جب اِنسان اپنے رب کے سامنے سر بسجود ہوتا ہے تو اپنے جسم کا سب سے بلند حصہ خاک پر رکھ کر خدا کی واحدانیت اور حمد و ثناء کے ساتھ دو باتوں کا بھی اقرار کرتا ہے۔ ایک یہ کہ میں نے اپنے وجود کا سب سے بلند حصہ تیرے آگے جھکا دیا اور دوسرا یہ کہ مجھے خاک سے کمتر کوئی شئے نہیں ملی جس پر سر ٹکا کر اپنی عاجزی کا اعتراف کرتا....!! اور پھر کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اِنسان جبیں سے خاک صاف ہوتے ہی بعض ایسے کارنامے سر انجام دیتا ہے کہ شاعر کو کہنا پڑتا ہے۔۔

اشرف المخلوقات کیوں ہے؟........ اِنسانیت کی وجہ سے!!
اب اِس منطق کی رو سے اگر بظاہر کوئی اِنسان نظر آرہا ہے لیکن اُس میں اِنسانیت نہ ہو تو یقینی طور پر وہ اشرف المخلوقات نہیں ہے۔ اب اگر آپ مجھ سے سوال کریں کہ اِنسانیت کو ناپنے کا پیمانہ کیا ہے تو میرا جواب ہوگا ”دل“۔ اگر آپ کا دل کسی بات پر دُکھتا ہے اور وہی بات آپ کسی اپنے جیسے اِنسان کے ساتھ کرتے ہیں تو پھر آپ میں اِنسانیت کی کچھ کمی ہے!!
خدا کی واحدانیت اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت اور حقانیت پر ایمان رکھنے والے ہر مسلمان کا خود پر فخر حق بجانب ہے مگر....لازم نہیں کہ مسلمان ایک اچھا اِنسان بھی ہو!! میرا ماننا ہے کہ جس طرح اِنسان خالق کی بنائی ہر مخلوق سے افضل ہے اِسی طرح کسی کا مسلمان ہونا بھی اِنسانیت کی معراج ہے۔ میں مسلمان‘ آپ مسلمان۔ یہ بھی مسلمان وہ بھی مسلمان۔ پر کیا ہم اِنسانیت کی اُس معراج پر ہیں جہاں ہم خود کو ”مسلمان“ کہہ سکیں..میرا یہ کہنا شاید عبث ہو کہ جب اُس نے اِنسان کو خلق کیا تو اُس میں اِنسانیت بھی رکھی ہوگی؟؟ کسی کو پیدا نہیں کیا سوائے اِنسان کہ اور مجھے کہنے کی اِجازت ہو تو کہنے دیجئے کہ اُس اِنسان کی پہلی شریعت ہی اِنسانیت تھی!! اور یہ بات میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ ”مسلمان ہونا اِنسانیت کی معراج ہے“ یہاں تک لانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں بطور انسان خلق کیا گیا‘ ہمارا پہلا راستہ یا شریعت اِنسانیت اور مسلمان ہونا معراجِ انسانیت تو میراسوال بس یہ ہے میرے بھائیوں کہ ہم اِنسان کتنے ہیں؟؟
اِنسانیت کیا ہے؟ شاید یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں‘ آپ سب ہی سمجھدار ہے‘ آپ سب کے سینے میں دل دھڑک رہا ہے۔ اُسی پیمانے پر غور کرتے جایئے۔اور میرا اِتنی تمہید کا مقصد اور پیغام بھی یہی ہے کہ چھوڑو یہ سب، یہ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، دیوبند، بریلوی، وہابی، شیعہ، سب چھوڑ دو۔۔ آﺅ پہلے یہ دیکھیں اور اپنے اندر ٹٹولیں کہ ہمارے رب نے ہمیں جیسا خلق کیا تھا اور جو پہلی چیز ہمارے دل میں رکھی تھی کیا ہم نے اُس پر عمل کیا؟ ایک منٹ کےلئے یہ سب بھول جاﺅ کہ اس وقت تم کیا ہو‘ چند لمحے رک کر بس یہ سوچو کہ تم کیا تھے!! اور تمہیں کیا ہونا چاہئے تھا؟ تمہارا مسلمان ہونا تو ابھی بہت دور کی بات ہے‘ پہلے وہ اشرف المخلوقات وہ اِنسان تو بنو جو دوسرے کےلئے بھی وہی سوچے جو خود کےلئے سوچتا ہے۔ تم وہ معراج وہ منزل کیسے پا سکتے ہو جس کےلئے تم نے ”پہلا قدم“ ہی نہیں بڑھایا؟ سب تمہارے جیسے ہی ہیں‘ تمہارے سینے میں خنجر اُترتے وقت جتنی تکلیف ہوگی اُتنی ہی دوسرے کے ہوگی‘ جس بات پر تمہارا دل دُکھے گا اُس بات پر دوسرے کا دل بھی ٹوٹ سکتا ہے‘ اختلافات کو اُس نہج پر مت پہنچاﺅ کہ ایک دوسرے کی شکل سے بھی نفرت ہوجائے!! اور جس دل میں نفرت کا بسیرا ہو وہاں اِنسانیت کہاں؟؟ اور جہاں اِنسانیت ہی نہ ہو وہاں اُس کی معراج کا کیا تذکرہ؟؟
میرا پیغام اور درخواست صرف یہ ہے کہ اِنسانیت ”پہلا قدم“ ہے، خدا کے واسطے پہلا قدم اُٹھاﺅ....!! یہ تفرقہ.... یہ دوسرے اِنسان سے نفرت‘ یہ وہ کیوں کرتا ہے.... وہ یہ کیوں کرتا ہے۔ چھوڑ دو یہ سب...‎