تیری طلب میں عزابوں کے شھر سے گزرے...
تمام رات خوابوں کے شھر سے گزرے...
وہ پیاس دیکھی کے صحرا کی یاد آنے لگی...
یہ زخمی جسم سیلابوں کے شھر سے گزرے..
انھیں خبر نا تھی ھم چور چور زخموں سے....
وہ سمجھے ھم کے گلابوں کے شھر سے گزرے...
میرے لاھور، کہ مکتب گلی گلی بکھرے....
کہ علم والے.....کتابوں کے شھر سے گزرے...
دراز عمر نا ھو ھم نے بد دعا مانگی...
کے بیتی عمر عزابوں کے شھر سے گزرے....
جھاں تھے بھوک کے ماروں کے غول اور افلاس..
پتہ چلا کے نوابوں کے شھر سے گزرے...
---حافظ مظفر محسن---
Bookmarks