ماہ رجب كےمتعلق
اللہ وحدہ قہار كى تعريفات ہيں،اور نبى مختار محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى پاكباز آل و اصحاب پر درود و سلام كے بعد:
اس اللہ سبحانہ و تعالى كى تعريف ہےجس كا فرمان ہے:
{ اور تيرا پروردگار جو چاہتا ہے پيدا كرتا اور اختيار كرتا ہے }.
يہاں اختيار كا معنى چن لينا ہے، جو كہ اللہ سبحانہ و تعالى كى وحدانيت و ربوبيت اور اس كى كمال حكمت و علم اور قدرت پر دلالت كرتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كے چن لينے اور افضليت دينے ميں يہ شامل ہے كہ اللہ تعالى نے بعض ايام اورمہينوں كو بھى چن ليا اور انہيں فضيلت دى ہے، مہينوں ميں سے اللہ سبحانہ و تعالى نے چار مہينوں كو حرمت والا مہينہ بنايا اور اختيار كيا ہے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاں كتاب اللہ ميں مہينوں كى گنتى بارہ ہے، اسى دن سے جب سے آسمان و زمين كو اس نے پيدا كيا ہے، ان ميں سےچار حرمت و ادب والے مہينے ہيں، يہى درست دين ہے، تم ان مہينوں ميں اپنى جانوں پرظلم نہ كرو }.
اور يہ مہينے چاند كے طلوع ہونے كى اعتبار سے ہيں كہ سورج كے يعنى قمرى ہيں شمسى نہيں، جيسا كہ كفار نے كيا ہوا ہے.
اس آيت ميں حرمت والے مہينے مبہم بيان ہوئے ہيں اور ان كے نام كى تحديد نہيں كى گئى، ليكن ان مہينوں كے نام سنت نبويہ ميں محدد كيے گئے ہيں.
ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر خطاب فرمايا اور اپنے خطبہ ميں ارشاد فرمايا:
" يقينا وقت اسى دار چل رہا ہے جس حالت ميں آسمان و زمين پيدا كرنے كے دن تھا، سال ميں بارہ ماہ ہيں، جن ميں سے چار ماہ حرمت و ادب والے ہيں، تين تو مسلسل ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہيں، اور ايك جمادى اور شعبان كے مابين رجب مضر كا مہينہ ہے "
صحيح بخارى كتاب الحج باب الخطجبۃ ايام منى حديث نمبر ( 1741 ) صحيح مسلم كتاب القسامۃ باب تحريم الدماء حديث نمبر ( 1679 ).
اسے رجب مضر كا نام اس ليے ديا گيا ہے كہ مضر قبيلہ كے لوگ اس ماہ كو تبديل نہيں كيا كرتے تھے، بلكہ اسے اسى كے وقت ميں ہى رہنے ديتے، ليكن باقى عرب لوگ حرمت والے مہينوں كو اپنى مرضى اور جنگ كى حالت كى بنا پر تبديل كر ليا كرتے تھے، اور درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں اسے نسئي كے نام سے ذكر كيا گيا ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
{ نہيں سوائے اس بات كہ كہ مہينوں كو آگے پيچھے كرنا تو كفر كى زيادتى ہے، اس سے وہ لوگ گمراہى ميں ڈالے جاتے ہيں جو كافر ہيں، ايك سال تو اسے حلال كر ليتے ہيں، اور ايك اسى كو حرمت والا قرار دے دے ديتے ہيں، كہ اللہ تعالى نے جو حرمت كر ركھى ہے اس كى گنتى ميں موافقت كر ليں }.
اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: اس ماہ كى مضر كى طرف نسبت اس ليے نسبت كى گئى كہ وہ اس ماہ كى حرمت و تعظيم زيادہ كرتے تھے، اس ليے يہ ماہ ان كى طرف منسوب كر ديا گيا.
اس ماہ كى وجہ تسميہ:
ابن فارس رحمہ اللہ نے " مقاييس اللغۃ ( 445 ) " ميں كہا ہے كہ:
رجب: راء اور جيم اور باء اس ميں كسى چيز كى مدد اور اس كى تقويت پر دلالت كرتے ہيں، اور يہ بھى اسى قبيل سے ہے رجبت الشئ يعنى اس كى تعظيم كى.... تو اسے رجب اس ليے كہا گيا كہ وہ اس كى تعظيم كرتے تھے، اور شريعت اسلاميہ نے بھى اس كى تعظيم كى " ا ھـ
اہل جاہليت اس ماہ كو منصل الاسنۃ كا نام ديتے يعنى اس ميں اسلحہ كو ركھ ديا جاتا اور لڑائى نہيں ہوتى تھى، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
ابو رجاء العطاردى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
ہم پتھروں كى عبادت كيا كرتے تھے، اور جب ہميں كوئى اس سے بہتر اور اچھا پتھر مل جاتا تو پہلے كو پھينك كر دوسرا لے ليتے، اور جب ہميں كوئى پتھر نہ ملتا تو ہم مٹى كى ڈھيرى بناتے اور بكرى لا كر اس كا دودھ اس ڈھيرى پر دھوتے اور پھر اس ڈھيرى كا طواف شروع كر ديتے.
اور جب ماہ رجب شروع ہوتا تو ہم كہتے: اسلحہ سے لوہا كھينچ لو، اس ليے جو تير بھى ہوتا اس كا لوہا اتار ليا جاتا اور رجب كے مہينہ ميں نيزے سے بھى اتار كر ركھ ديا جاتا " اسے امام بخارى نے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے.
امام بيہقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہل جاہليت ان حرمت والے مہينوں كى تعظيم كيا كرتے تھے، اور خاص كر رجب كى تعيظيم زيادہ ہوتى، كيونكہ وہ اس ميں لڑى نہيں كرتے تھے " اھـ
ـ ماہ رجب حرمت و ادب والا مہينہ ہے:
جن مہينوں كو حرمت كا مقام حاصل ہے، ان ميں ماہ رجب بھى ہے، كيونكہ حرمت والے مہينوں ميں رجب كا مہينہ بھى شامل ہے ، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اے ايمان والو تم اللہ تعالى شعائر كى بےحرمتى نہ كرو، اور ہى حرمت والے مہينوں كى }.
يعنى تم اللہ تعالى كى ان حرمتوں كو پامال مت كرو جس كى حرمت و تعظيم كرنے كا اللہ نے حكم ديا ہے، اور حرمت پامال كرنے سے منع كيا ہے، لہذا يہ ممانعت و نہى قبيح فعل سرانجام دينے، اور اس اعتقاد ركھنے كو بھى شامل ہوگى.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ چنانچہ تم ان ميں اپنے آپ پر ظلم مت كرو }.
يعنى ان حرمت والے مہينوں ميں، اس آيت ميں ضمير ان حرمت والے چار مہينوں كى طرف لوٹتى ہے، ابن جرير طبرى رحمہ اللہ كا يہى كہنا ہے.
اس ليے ان مہينوں ميں ان كے مقام و مرتبہ اور حرمت كى قدر كرتے ہوئے معاصى و گناہ سے اجتناب كرنا چاہيے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس وقت كو حرمت عطا كى ہے، اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے سابقہ آيت ميں اپنے اوپر ظلم كرنے سے منع فرمايا ہے، حالانكہ ـ اپنے آپ پر ظلم كرنا اور گناہ و معاصى تو ـ سب مہينوں ميں حرام ہيں.
ـ حرمت والے مہينوں ميں لڑائى كرنا حرام ہے:
اللہ سبحانہ و تعالى كا ارشاد ہے:
{ آپ سے حرمت والے مہينوں ميں لڑائى كے متعلق پوچھتے ہيں، آپ فرما ديئجے كہ اس ميں لڑائى كرنا كبيرہ گناہ ہے }.
جمہور علماء كرام يہ كہتے ہيں كہ حرمت والے مہينوں ميں لڑائى كرنا درج ذيل فرمان بارى تعالى كے ساتھ منسوخ ہے:
{ اور جب حرمت والے مہينے گزر جائيں تو مشركوں كو جہاں بھى پاؤ انہيں قتل كرو }.
اس كے علاوہ دوسرے عمومى دلائل بھى جن ميں مشركوں كو عموما قتل كرنے كا حكم ديا گيا ہے.
اور انہوں نے اس سے بھى استدلال كيا ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اہل طائف كے ساتھ ذوالقعدہ ميں جنگ كى تھى اور ذوالقعدہ حرمت والے مہينوں ميں شامل ہے.
ليكن دوسرے علماء كہتے ہيں كہ: حرمت والے مہينوں ميں لڑائى كى خود ابتدا كرنى جائز نہيں، ليكن اگر وہ شروع كريں يا پھر پہلے سے ہو رہى ہو تو اس كى تكميل كرنى جائز ہے، اور انہوں نے اہل طائف سے لڑائى كو اسى پر محمول كيا ہے كہ حنين ميں لڑائى كى ابتدا تو شوال كے آخر ميں شروع ہوئى تھى.
يہ سب كچھ تو اس لڑائى كے متعلق ہے جو دفاعى نہيں يعنى جس ميں دفاع مقصود نہ ہو، اس ليے جب دشمن مسلمانوں كے ملك پر حملہ آور ہو تو اس علاقے كے لوگوں پر دفاع كرنا واجب ہے چاہے حرمت والے مہينہ ميں ہو يا كسى دوسرے مہينہ ميں.
العتيرۃ:
دور جاہليت ميں عرب اپنے بتوں كا قرب حاصل كرنے كے ليے ماہ رجب ميں جانور ذبح كيا كرتے تھے.
ليكن جب دين اسلام نے اللہ تعالى كے ليے ذبح كرنے كا حكم ديا تو اہل جاہليت كا يہ فعل باطل ہو گيا.
فقھاء كرام كا ماہ رجب ميں بطور العتيرہ ذبح كيے جانے والے جانور كے حكم ميں اختلاف ہے:
جمہور فقھاء يعنى احناف مالكى اور حنبلى فقھاء كے ہاں يہ منسوخ ہے، اور انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے استدلال كيا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نہ تو فرع ہے، اور نہ ہى عتيرۃ "
اسے امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے روايت كيا ہے.
اور شافعى حضرات كہتے ہيں كہ يہ منسوخ نہيں بلكہ انہوں نے عتيرہ كو مستحب قرار ديا ہے، اور ابن سيرين رحمہ اللہ كا قول يہى ہے.
ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كى تائيد ابو داود اور نسائى اور ابن ماجہ كى درج ذيل حديث سے ہوتى ہے جسے حاكم اور ابن منذر نے صحيح كہا ہے.
نبيشہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كہا:
" ہم دور جاہليت ميں عتيرۃ ذبيح كيا كرتے تھے، آپ اس كے بارہ ميں كيا حكم ديتے ہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كسى بھى مہينہ ميں ذبح كر ليا كرو.... "
ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بالكل اصل ميں عتيرہ كو باطل نہيں كيا، بلكہ ماہ رجب ميں ذبح كرنا باطل كيا ہے.
ماہ رجب ميں روزے ركھنا:
خاص كر ماہ رجب ميں روزے ركھنے كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى صحابہ كرام سے كى كوئى فضيلت وارد نہيں.
بلكہ اس ماہ ميں بھى وہى روزے مشروع ہيں جو دوسرے مہينوں ميں مشروع ہيں، مثلا سوموار اور جمعرات اور ايام بيض يعنى تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كا روزہ، اور ايك دن چھوڑ كر دوسرے دن كا روزہ ركھنا، اور سرر شہر، اس كے بارہ ميں علماء كہتے ہيں كہ يہ ماہ كا ابتدا ہے، اور بعض درميان اور بعض آخر قرار ديتے ہيں.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ ماہ رجب ميں روزہ ركھنے سے منع كيا كرتے تھے كيونكہ اس سے جاہليت سے مشابہت ہوتى ہے جيسا كہ خرشۃ بن حر بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں نے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو ديكھا كہ وہ رجبيوں كے ہاتھوں كو مار رہے تھے حتى كہ انہوں نے اپنے ہاتھ كھانے ميں ڈا لديے اور عمر كہہ رہے تھے: اس ماہ كى ت وجاہليت والے تعظيم كيا كرتے تھے "
ديكھيں: الارواء الغليل ( 957 ) علامہ البانى نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
امام ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تين ماہ مسلسل ( يعنى رجب اور شعبان اور رمضان ) روزے نہيں ركھے جيسا كہ بعض لوگ كرتے ہيں، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كبھى رجب كے روزے ركھے، اور نہ ہى اسے مستحب قرار ديا.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " تبيين العجب بما ورد في فضل رجب " ميں كہتے ہيں:
" ماہ رجب كى فضيلت ميں كوئى بھى ايسى حديث وارد نہيں جو قابل حجب ہو، اور مجھ سے قبل يہى امام ابو اسماعيل الھروى رحمہ اللہ بھى كہہ چكے ہيں، اور اسى طرح ہم نے ان كے علاوہ دوسروں سے بھى روايت كيا ہے.
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" ماہ رجب ميں كسى دن كو روزے كے ليے خاص كرنے كے متعلق ہمارے علم ميں تو كوئى شرعى دليل نہيں ہے
Bookmarks