عنوان: عورت کی نصف گواہی کا تصور
سوال
میرا سوال یہ ہے كہ اسلام میں عورت كي گواہي كي اہمیت كیا ہے؟ كیونكہ كہا جاتا ہے كہ عورت كي گواہي مرد كے مقابلے میں نصف ہے۔ اگر كسي مقدمے میں صرف ایك ہي گواہ ہو (جیسے قتل یا اسي نوعیت كا كوئي اور مسئلہ جس میں عورت گواہ ہو اور اس كے علاوہ دوسرا گواہ (عورت یامرد) نہ ہو تو كیا اس صورت میں مجرم بچ جائے گا؟ یا كوئي اور صورت بھي ہے؟ كیونكہ تمام اسلامي احكام مرد و عورت كےلیے برابر ہیں(گناہ اور ثواب) توگواہي میں فرق كیوں ہے؟ براہ مہرباني اس كا جواب جلد از جلد دیں۔
جواب
سب سوالوں کے الگ الگ جواب دینے کی بجائے ہم یہاں اپنا موقف بیان کیے دیتے ہیں۔ امید ہے اس کی روشنی میں آپ کو تمام سوالوں کے جواب بآسانی مل جائیں گے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کی گواہی کا درجہ مرد کی گواہی کے مقابلے میں نصف ہے. اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ اسلام عورت کی گواہی کو مرد کی گواہی کی طرح قابل اعتماد اس لیے نہیں سمجھتا، کیونکہ عورت عقل میں کمزور ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تصور بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔
مرد کے مقابلے میں عورت کی نصف گواہی کا یہ تصور سورۂ بقرۂ کی آیت 282 سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس آیت پر تدبر سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ، اس آیت کا تعلق شریعت سے نہیں ہے، بلکہ اس میں مسلمانوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ جب دو یا دو سے زیادہ افراد کسی معین مدت کے لیے ادھار کا لین دین کریں، تو مستقبل میں کسی نزاع سے بچنے کے لیے انھیں چاہیے کہ وہ اس معابدے کو لکھ لیں۔ مزید احتیاط کے لیے انھیں اس تحریری معاہدے میں، اپنے مردوں میں سے، اعتماد کے دو مردوں کو گواہ بنا لینا چاہیے۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لیا جائے، تاکہ اگر ایک عورت اپنے بیان میں پریشانی یا تردد کا شکار ہو تو دوسری اس کی مدد کرسکے۔ یہ فرق عورت کی تحقیر کے پہلو سے نہیں ہے بلکہ اس کی مزاجی خصوصیات اور اس کے حالات و مشاغل کی وجہ سے ہے۔ قانونی اور عدالتی کارروائیوں میں عورتوں کا دخل بالعموم بہت کم ہوتا ہے اس لیے ایسی صورت میں اگر اس کی سہیلی یا کوئی قریبی رشتہ دار اس کے ساتھ گواہ ہو تو دونوں کو ایک دوسری کا سہارا حاصل رہے گا اور وہ زیادہ اعتماد سے گواہی دے سکیں گی۔ اس آیت سے یہ بھی واضح ہے کہ اس میں خطاب عدالت سے نہیں بلکہ عام انسان سے کیا گیا ہے، اور اپنی نوعیت میں ایک طرح کا مشورہ ہے۔ اس لیے اگر گواہی کے لیے ایک ہی عورت ہو اور اس پر اعتماد ہو کہ وہ عدالتی کارروائی کا آسانی سے سامنا کر لے گی تو اسے گواہ بنایا جا سکتا ہے، اور عدالت اس ایک عورت کے بیان کو تسلی بخش سمجھتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ مطمئن نہ ہونے پر عدالت دس مردوں کی گواہی کو بھی رد کر دے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ آیت صرف تحریری معاہدات میں گواہ بنانے سے متعلق ہے۔ جرائم یا حادثات پر گواہی کا معاملہ اس آیت میں سرے سے زیر بحث ہی نہیں ہے۔ خیال رہے کہ تحریری معاہدات کی صورت میں گواہ بنانے کا اختیار سر تا سر دونوں فریقوں کے ذاتی انتخاب پر منحصر ہوتا ہے۔ جبکہ کسی جرم یا حادثے کا معاملہ ایسا نہيں ہوتا کہ اس میں اپنی مرضی سے گواہ بنائے جا سکیں۔ اس وقت جو کوئی بھی موقع پر موجود ہو گا، خواہ وہ مرد ہو عورت ہو یا کوئی بچہ، اسی کو گواہ مانا جائے گا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ گواہی کی ان دونوں قسموں میں سرے سے کوئی مناسبت نہیں ہے۔ پہلی صورت میں گواہ خود منتخب کیا جاتا ہے جبکہ دوسری صورت میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ سورۂ بقرہ کی یہ آیت تحریری معاہدات کے علاوہ دوسرے کسی معاملے میں، عورت کی گواہی پر کسی بھی پہلو سے اثر انداز نہیں ہوتی۔
ان دو نکات کی بنیاد پر ہم سمجھتے ہیں کہ عورت کی نصف گواہی کا رائج تصور بالکل بے بنیاد ہے۔ آیت کا سیاق و سباق اور انداز بیاں ہرگز یہ اجازت نہیں دیتا کہ اس سے ایسا کوئی تصور اخذ کیا جائے جس سے عورت، مرد کے مقابلے میں کسی بھی پہلو سے کم تر قرار پائے۔
امیرعبدالباسط
9 جون
2003
Bookmarks