Results 1 to 11 of 11

Thread: اُردو ہماری مشترکہ تہذیب کی علامت ہے

  1. #1
    ~*SEEP*~'s Avatar
    ~*SEEP*~ is offline Senior Member+
    Last Online
    7th March 2016 @ 07:32 PM
    Join Date
    13 Nov 2006
    Location
    Khawaboon Main ...
    Posts
    13,136
    Threads
    745
    Credits
    -20
    Thanked
    410

    Default اُردو ہماری مشترکہ تہذیب کی علامت ہے

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کاتہ

    ہمیں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اُردو کو دل سے عزیز اور جان سے قریب رکھنے والے کچھ لوگ جن میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں، اس بات پر اپنی ناگواری کا اظہار کرتے ہیں کہ اُردو کو ہندوستان میں مسلمانوں کی زبان کیوں کہا جارہا ہے۔ یہ لوگ اُردو کو مشترکہ اور گنگا جمنی تہذیب (گو کہ اس کا مفہوم آج تک ہم پر واضح نہ ہوسکا) کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اُردو زبان و ادب کی تاریخ سے بے شمار غیر مسلم اُردو شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کا نام لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اُردو صرف مسلمانوں کی ہی نہیں ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں اور دوسری قوموں کی بھی زبان ہے۔ کبھی کبھی بحث فرقہ وارانہ رنگ بھی اختیار کرلیتی ہے جو اُردو کی اسپرٹ اور مزاج کے ہی خلاف ہے۔ کچھ لوگوں کو مثلاً افسانہ نگار جتیندر بلو کو یہ بھی شکایت ہے کہ ہندوستان میں اردو کا اسلامائزیشن ہو رہا ہے اور وہ بطور ثبوت اردو رسالوں میں حمد، نعت، منقبت کی شمولیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف ہر شخص کرتا ہے کہ اردو کو قبول عام، ہر دلعزیز اور عالمی شہرت کی زبان بنانے میں مسلمانوں کے دوش بدوش دوسرے مذاہب کے ماننے والوں نے لائق تحسین اور عظیم کارنامے انجام دیئے اور بلا شبہ آج بھی دے رہے ہیں۔ اس سے کسی کو انکار نہیں اور اس کے لئے مثالیں دینے کی ضرورت نہیں۔ سب کو معلوم ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں نے عہد گزشتہ میں اپنی پرُ خلوص خدمات سے اُردو کو مالا مال نہیں کیا یا آج نہیں کر رہے ہیں۔ سوال صاف، کھلا اور دوٹوک یہ ہے کہ کیا آج کوئی ایسا غیر مسلم ہے جس نے 1901 کی مردم شماری میں یا دوسرے سرکاری کاغذات میں اردو کو بحیثیت مادری زبان لکھوایا ہے۔ یہ سوال ہم نے بار بار اٹھایا لیکن آج تک ایک بھی غیر مسلم ایسا نہیں ملا جو اُردو کو اپنی مادری زبان کہتا ہو۔ یہ تو ہم مانتے ہیں کہ بے شمار ایسے لوگ ہیں جو اردو کو اپنی مادری زبان سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں لیکن وہ اسے اپنی مادری زبان نہیں مانتے۔ 1901 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ افراد کی مادری زبان اُردو ہے (گوکہ یہ اعداد و شمار غلط ہیں۔ صحیح تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ مردم شماری کرنے والوں کے متعصبانہ رویوں، دیہاتوں میں جاہل عوام کے سامنے پیش کئے جانے والے پرُ فریب منظر ناموں، ہندی اور اردو کو خلط ملط کرنے کی سازشوں سے صحیح صورت سامنے نہیں آپاتی اور بیشتر اردو والوں کی مادری زبان ہندی یا مقامی لکھ دی جاتی ہے۔ لیکن یہ الگ بحث ہے) تو یہ ساڑھے پانچ کروڑ کون لوگ ہیں۔ کیا ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں، اس کا علم ہونا چاہئے۔ ہماری معلومات کے مطابق پورے ہندوستان میں اردو کو اپنی مادری زبان کہنے والا ایک بھی غیر مسلم نہیں ہے۔ اگر کسی کو اس بات سے انکار ہے تو وہ برائے کرم ہمارے دعوے کی تردید کرے اور کوئی ایسا غیر مسلم ڈھونڈھ لائے جس نے 1901 کی مردم شماری میں مادری زبان کے کالم میں اردو لکھا ہو اور دوسرے سرکاری نیز غیر سرکاری کاغذات میں بھی مادری زبان کے کالم میں اردو لکھتا ہو۔ کئی سالوں سے ہم ایسے جیالے کی تلاش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک نہیں ملا۔ تو جب وہ لوگ جو اردو کو اپنی مادری زبان کہتے ہیں سارے کے سارے مسلمان ہیں تو پھر اردو کس کی زبان ہوئی اور اگر یہ لوگ اردو کو اپنی مادری زبان کہتے ہیں تو کسی کو تکلیف کیوں ہوتی ہے... دیکھئے... اُردو سے محبت کرنا، اس زبان میں شعر و شاعری اور افسانہ نگاری کرنا، نام و نمود اور پیسہ کمانا اور لطف اندوز ہونا ایک بات ہے اور اس سے عقیدت رکھنا اور اسے اپنی مادری زبان کہنا، سمجھنا اور عمل کرنا دوسری بات ہے۔ آپ اردو سے محبت کرتے ہیں، اردو زبان میں شاعری کرتے ہیں، اسے محبوبہ کی طرح ٹوٹ کر چاہتے ہیں، اس کی محفلیں سجاتے ہیں، اس کے پیروں میں گھنگھرو باندھ کر کوٹھے پر نچاتے ہیں، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی تھیوریاں فلوٹ کرتے ہیں لیکن اسے اپنی مادری زبان نہیں سمجھتے... کیوں؟ آخر کیوں...؟ اور ہندوستان کے ساڑھے پانچ کروڑ مسلمان اسے اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں... کیوں؟ آخر کیوں...؟
    اس کا جواب بڑا آسان اور سیدھا ہے۔ وہ اس لئے کہ غیر مسلمانوں کی ثقافت، کلچر، سماجی بنت، مذہبی لٹریچر، رسومات، وراثت اور لین دین کا تعلق اردو سے نہیں ہے اور مسلمانوں کی ثقافت، کلچر، سماجی بنت، مذہبی لٹریچر، رسومات، وراثت اور لین دین کا تعلق اردو سے ہے۔ اس لئے غیر مسلم اسے اپنی مادری زبان نہیں کہتے اور ساڑھے پانچ کروڑ مسلمان کہتے ہیں۔ جب یہ ساڑھے پانچ کروڑ لوگ جو اردو کو اپنی مادری زبان کہتے ہیں، سب کے سب مسلمان ہیں تو اردو مسلمانوں کی زبان ہوئی کہ نہیں... اس کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں اور سرکاریں جب بھی مسلمانوں کے حوالے سے کوئی فلاحی، اصلاحی اور ترقیاتی منصوبہ بناتی ہیں وہ اردو کو اس سے ضرور جوڑ دیتی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ گزشتہ ساٹھ سالوں میں ہندوستان کی تمام حکومتوں نے شعوری اور غیر شعوری دونوں طریقوں سے اردو کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ یہاں تک کہ قومی اردو کونسل کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لئے تشکیل کردہ ڈی۔ آر۔ گوئل کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اردو کونسل ہندوستان میں اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھ کر کام کرتی ہے... ایسی صورت میں وہ محبانِ اردو جو اردو کو مشترکہ زبان ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں وہ سرکار کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے کہ وہ اردو کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں جوڑتی ہے اور ان شہروں اور محلوں میں ہی اردو اسکول کھولنے کی بات کیوں کرتی ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ وہ سرکار سے سوال کیوں نہیں پوچھتے کہ اردو اسکول ہندو یا سکھ علاقے میں کیوں نہیں کھولے جاتے۔ اردو تو سب کی زبان ہے۔ آج تک اس بات کو لے کر کسی نے احتجاج کیا، دھرنا دیا، سڑکوں پر اُترے، بھوک ہڑتال کی... نہیں بھائی نہیں کی... اس لئے کہ سب کے سب دل کی گہرائیوں سے یہی سمجھتے ہیں کہ اردو کا لالی پاپ صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔ یہ دانہ انہیں کو زیر دام لانے کے لئے ڈالا جاتا ہے پھر اردو کو مسلمان اپنی زبان سمجھے تو برائی کیا ہے۔ کمال ہے، مرکزی اور ریاستی سرکاریں اردو کو مسلمانوں کی زبان مان کر چلیں اور غیر مسلم شعرا اور ادبا اسے اپنی مادری زبان نہ سمجھیں اس میں کوئی برائی نہیں لیکن اگر مسلمان یہ کہے کہ اردو ہماری زبان ہے تو اس پر قیامت ٹوٹے۔ مظہر امام اردو سے ہی دستبردار ہونے پر آمادہ ہوجائیں۔ نہایت احترام کے ساتھ ہم مظہر امام سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا غیر مسلم ڈھونڈ نکالیں جس نے گزشتہ مردم شماری میں اپنی مادری زبان اردو لکھوائی ہو اور سرکاری نیز غیر سرکاری کاغذات میں مادری زبان کے کالم میں ’اردو‘ لکھتا ہو۔ اور اگر موصوف ایسا کوئی نام نہیں پیش کرسکتے تو اردو سے دستبردار ہونے میں اب دیر نہ کریں۔
    ہمیں عرض یہ کرنا ہے کہ ہندوستان میں اردو کو مسلمانوں کی زبان مان لینے میں کوئی نقصان نہیں۔ اس سے اتنا تو ہوگا کہ دستور ہند میں دفعہ 25 تا 30 کے تحت اس زبان کو گارنٹی مل جائے گی۔ خصوصاً دفعہ 29 کے تحت مسلمانوں کو اس کے تحفظ اور فروغ کے لئے آئینی حق حاصل ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ وہ لوگ جو اردو سے فائدہ تو اٹھالیتے ہیں لیکن کوئی قربانی نہیں دیتے وہ حاشیے پر لگ جائیں گے۔ مزید یہ کہ بقول پروفیسر طاہر محمود ’’اُردو میں آتنک وادی‘‘ جو گھس رہے ہیں ان کے خلاف اردو کی بے حرمتی اور بے آبروہی کرنے کا الزام لگاکر قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ میڈیا پر قدغن لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی ’’ہندی‘‘ نشریات اور دوسرے پروگراموں میں اُردو الفاظ کا استعمال نہ کریں اور اگر کرتے ہیں تو ان نشریات اور پروگراموں کو ’’ہندی اردو نشریات‘‘ یا ’’ہندوستانی نشریات‘‘ کا نام دیں۔ اردو کے خوبصورت موثر اور غنائیت سے بھرپور الفاظ، جملے، محاورات اور اشعار لے کر (اکثر ان کا حلیہ بگاڑ کر) ہندی کا جھنڈا اونچا کرنا غاصبانہ طرز حکمت ہے اور یہ عمل بد دیانتی کے مترادف ہے۔ اس پر روک اسی وقت لگائی جاسکتی ہے جب اردو کو ہندوستان میں مسلمانوں کی زبان کا درجہ دے دیا جائے۔ ایسی صورت میں اقلیتی زبان کے تحفظ کا حوالہ دے کر فلموں کے متعدد ’’ہندی‘‘ سرٹیکفیٹ کو بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے اور فلم سے وابستہ لوگوں کو اپنا جارحانہ رویہ بدلنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔


  2. #2
    ~*SEEP*~'s Avatar
    ~*SEEP*~ is offline Senior Member+
    Last Online
    7th March 2016 @ 07:32 PM
    Join Date
    13 Nov 2006
    Location
    Khawaboon Main ...
    Posts
    13,136
    Threads
    745
    Credits
    -20
    Thanked
    410

    Default

    رہ گئی اردو کو اسلامائزیشن کرنے کی بات تو یہ تہمت ہم اعزاز سمجھ کر قبول کرتے ہیں کیونکہ جب اُردو سو فیصد مسلمانوں کی زبان ٹھہری اور اس کا 90 فیصد قاری اور تخلیق کار مسلمان ہے تو مسلمانوں کے جذبات، عقائد، مسلک اور افکار کا اس کے اندر در آنا فطری عمل ہے۔ سیکولر ہندوستان کے ہر سرکاری دفتر میں جب دیوتاؤں کے فوٹو رکھنے میں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ عمل جمہوریت (اکثریت پڑھئے) کے عقیدے کا متقاضی ہے تو پھر اُردو رسالوں میں حمد، نعت اور منقبت یا مسلمانوں کے مذہب، عقیدے، مسلک اور مسائل سے متعلق تحریریں شائع کرنا کیسے غلط ہوا۔ اس کے علاوہ اردو کا 80 فیصد قاری ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہزاروں مدرسوں اور دینی درسگاہوں سے نکلا ہوا ہے اس کی فکر، اس کی سوچ اور اس کی پسندکا اردو زبان میں جھلکنا قدرتی بات ہے۔ یہاں یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ ہندوستان میں اردو اپنی انفرادی شناخت کے ساتھ دینی مدرسوں سے ہی زندہ رہے گی۔ یہ کھردرے وقت کی پیشانی پر جلی حرفوں میں لکھا جاچکا ہے۔ کسی کو دکھائی دے یا نہ دے۔
    آج تک آزاد ہندوستان کی کسی بھی حکومت نے اُردو کی ترقی اور فروغ کے لئے نیک نیتی کے ساتھ عمل نہیں کیا اور نہ آئندہ کسی سے توقع کی جاسکتی ہے۔ تمام سرکاریں لیپا پوتی کریں گی، پالیسیاں بنائیں گی، بیانات دیں گی، اعلانات کریں گی جن پر عمل قطعی نہ ہوگا، کیونکہ ہمارے ملک میں ایک زبردست لابی ہمیشہ سے موجود رہی ہے جس کا خیال ہے کہ اُردو کا عروج ہندی کے زوال کا باث بن سکتا ہے۔ اس لئے ارباب حکومت اُردو کا چیر ہرن کرکے ہندی کو پرُ کشش بنانے کا عمل اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اُردو زبان ہندی زبان میں پوری طرح ضم ہوکر اپنی انفرادی شناخت نہیں کھودیتی۔ فلمی دنیا، ٹی۔ وی، اخبارات اور دوسری خبر رساں ایجنسیاں اردو کو ہندی بنانے میں لگی ہوئی ہیں۔ ایسے اردو شعرا جو اپنے مجموعے دیوناگری رسم الخط میں چھپواتے ہیں وہ بھی اس مہم کو تیز تر کرنے میں مشغول ہیں۔ کیا یہ حضرات بتانے کی زحمت کریں گے کہ ان کے دیوناگری رسم الخط میں شائع ہونے والے مجموعے اُردو کے فروغ میں کس طرح معاون ہوتے ہیں۔ (البتہ ان کا اپنا فروغ ہوسکتا ہے) اُردو کے فروغ سے تو ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اردو اپنے رسم الخط میں لکھی اور پڑھی جائے۔ جب یہ صورت ہی باقی نہ رہے گی تو پھر اردو کہاں رہے گی۔ لہٰذا وہ حضرات جو ہندوستان میں اُردو کو مسلمانوں سے جوڑنے کی بات پر ہنہنانے لگتے ہیں موجودہ حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور بار بار غیر مسلم شعرا اور ادبا کی خدمات (جس کے ہم دل سے معترف ہیں) کا ذکر کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں کہ آج کے ہندوستان میں اُردو سب کی زبان ہے۔ بصورتِ دیگر وہ اُردو کو سب کی مادری زبان بناکر دکھائیں اور اس بات کا باضابطہ اعلان کریں۔ ملک گیر پیمانے پر ایک مہم چھیڑیں اور ان ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں سے جو اُردو سے کسی نہ کسی طور جڑے ہوئے ہیں کہیں کہ وہ شعر و شاعری، افسانہ نگاری اور تنقید نگاری کرکے اُردو کو محض محبوبہ کا درجہ نہ دیں بلکہ اگلی مردم شماری میں اُردو کو اپنی مادری زبان بناکر اسے گھروالی کا درجہ دیں تاکہ اُردو کو اپنی مادری زبان کہنے والوں کی تعداد ساڑھے پانچ کروڑ سے بڑھ کر ساٹھ کروڑ ہوجائے تب ہم بھی فخر کے ساتھ کہیں گے کہ اُردو ہماری مشترکہ تہذیب کی علامت ہے اور یہ کسی خاص فرقے کی زبان نہیں ہے۔


  3. #3
    MREHAN is offline Senior Member+
    Last Online
    18th November 2015 @ 11:27 AM
    Join Date
    04 Mar 2010
    Age
    36
    Posts
    103
    Threads
    7
    Credits
    0
    Thanked
    9

    Default

    [SIZE="7"]nice bohot achay[/SIZE]

  4. #4
    inaam1's Avatar
    inaam1 is offline Senior Member
    Last Online
    22nd May 2019 @ 03:45 PM
    Join Date
    10 Jul 2010
    Location
    ال&
    Age
    46
    Gender
    Male
    Posts
    7,710
    Threads
    409
    Credits
    111
    Thanked
    531

    Default

    شکریہ آپ کا

  5. #5
    kurrum is offline Junior Member
    Last Online
    9th June 2011 @ 09:29 AM
    Join Date
    08 Jan 2011
    Gender
    Male
    Posts
    15
    Threads
    3
    Credits
    940
    Thanked: 1

    Default

    Nice post but so lengthy..........

  6. #6
    *Tamraiz*'s Avatar
    *Tamraiz* is offline Advance Member+
    Last Online
    29th August 2022 @ 08:08 AM
    Join Date
    26 Nov 2010
    Location
    Sialkot
    Gender
    Male
    Posts
    16,583
    Threads
    1051
    Credits
    1,207
    Thanked
    1738

    Default


  7. #7
    *Abdul-Basit*'s Avatar
    *Abdul-Basit* is offline Senior Member+
    Last Online
    4th September 2016 @ 03:12 AM
    Join Date
    03 Aug 2010
    Location
    Lahore
    Age
    31
    Gender
    Male
    Posts
    10,691
    Threads
    498
    Credits
    964
    Thanked
    1298

    Default


  8. #8
    hafiz_has is offline Senior Member+
    Last Online
    18th March 2013 @ 07:01 PM
    Join Date
    27 Apr 2009
    Location
    I live in Rahim Yar Khan
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    217
    Threads
    13
    Credits
    0
    Thanked
    7

    Default

    nyc sharing

  9. #9
    Join Date
    16 Aug 2009
    Location
    Makkah , Saudia
    Gender
    Male
    Posts
    29,910
    Threads
    482
    Credits
    148,896
    Thanked
    970

    Default

    Quote ~*SEEP*~ said: View Post
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کاتہ

    ہمیں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اُردو کو دل سے عزیز اور جان سے قریب رکھنے والے کچھ لوگ جن میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں، اس بات پر اپنی ناگواری کا اظہار کرتے ہیں کہ اُردو کو ہندوستان میں مسلمانوں کی زبان کیوں کہا جارہا ہے۔ یہ لوگ اُردو کو مشترکہ اور گنگا جمنی تہذیب (گو کہ اس کا مفہوم آج تک ہم پر واضح نہ ہوسکا) کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اُردو زبان و ادب کی تاریخ سے بے شمار غیر مسلم اُردو شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کا نام لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اُردو صرف مسلمانوں کی ہی نہیں ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں اور دوسری قوموں کی بھی زبان ہے۔ کبھی کبھی بحث فرقہ وارانہ رنگ بھی اختیار کرلیتی ہے جو اُردو کی اسپرٹ اور مزاج کے ہی خلاف ہے۔ کچھ لوگوں کو مثلاً افسانہ نگار جتیندر بلو کو یہ بھی شکایت ہے کہ ہندوستان میں اردو کا اسلامائزیشن ہو رہا ہے اور وہ بطور ثبوت اردو رسالوں میں حمد، نعت، منقبت کی شمولیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف ہر شخص کرتا ہے کہ اردو کو قبول عام، ہر دلعزیز اور عالمی شہرت کی زبان بنانے میں مسلمانوں کے دوش بدوش دوسرے مذاہب کے ماننے والوں نے لائق تحسین اور عظیم کارنامے انجام دیئے اور بلا شبہ آج بھی دے رہے ہیں۔ اس سے کسی کو انکار نہیں اور اس کے لئے مثالیں دینے کی ضرورت نہیں۔ سب کو معلوم ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں نے عہد گزشتہ میں اپنی پرُ خلوص خدمات سے اُردو کو مالا مال نہیں کیا یا آج نہیں کر رہے ہیں۔ سوال صاف، کھلا اور دوٹوک یہ ہے کہ کیا آج کوئی ایسا غیر مسلم ہے جس نے 1901 کی مردم شماری میں یا دوسرے سرکاری کاغذات میں اردو کو بحیثیت مادری زبان لکھوایا ہے۔ یہ سوال ہم نے بار بار اٹھایا لیکن آج تک ایک بھی غیر مسلم ایسا نہیں ملا جو اُردو کو اپنی مادری زبان کہتا ہو۔ یہ تو ہم مانتے ہیں کہ بے شمار ایسے لوگ ہیں جو اردو کو اپنی مادری زبان سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں لیکن وہ اسے اپنی مادری زبان نہیں مانتے۔ 1901 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ افراد کی مادری زبان اُردو ہے (گوکہ یہ اعداد و شمار غلط ہیں۔ صحیح تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ مردم شماری کرنے والوں کے متعصبانہ رویوں، دیہاتوں میں جاہل عوام کے سامنے پیش کئے جانے والے پرُ فریب منظر ناموں، ہندی اور اردو کو خلط ملط کرنے کی سازشوں سے صحیح صورت سامنے نہیں آپاتی اور بیشتر اردو والوں کی مادری زبان ہندی یا مقامی لکھ دی جاتی ہے۔ لیکن یہ الگ بحث ہے) تو یہ ساڑھے پانچ کروڑ کون لوگ ہیں۔ کیا ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں، اس کا علم ہونا چاہئے۔ ہماری معلومات کے مطابق پورے ہندوستان میں اردو کو اپنی مادری زبان کہنے والا ایک بھی غیر مسلم نہیں ہے۔ اگر کسی کو اس بات سے انکار ہے تو وہ برائے کرم ہمارے دعوے کی تردید کرے اور کوئی ایسا غیر مسلم ڈھونڈھ لائے جس نے 1901 کی مردم شماری میں مادری زبان کے کالم میں اردو لکھا ہو اور دوسرے سرکاری نیز غیر سرکاری کاغذات میں بھی مادری زبان کے کالم میں اردو لکھتا ہو۔ کئی سالوں سے ہم ایسے جیالے کی تلاش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک نہیں ملا۔ تو جب وہ لوگ جو اردو کو اپنی مادری زبان کہتے ہیں سارے کے سارے مسلمان ہیں تو پھر اردو کس کی زبان ہوئی اور اگر یہ لوگ اردو کو اپنی مادری زبان کہتے ہیں تو کسی کو تکلیف کیوں ہوتی ہے... دیکھئے... اُردو سے محبت کرنا، اس زبان میں شعر و شاعری اور افسانہ نگاری کرنا، نام و نمود اور پیسہ کمانا اور لطف اندوز ہونا ایک بات ہے اور اس سے عقیدت رکھنا اور اسے اپنی مادری زبان کہنا، سمجھنا اور عمل کرنا دوسری بات ہے۔ آپ اردو سے محبت کرتے ہیں، اردو زبان میں شاعری کرتے ہیں، اسے محبوبہ کی طرح ٹوٹ کر چاہتے ہیں، اس کی محفلیں سجاتے ہیں، اس کے پیروں میں گھنگھرو باندھ کر کوٹھے پر نچاتے ہیں، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی تھیوریاں فلوٹ کرتے ہیں لیکن اسے اپنی مادری زبان نہیں سمجھتے... کیوں؟ آخر کیوں...؟ اور ہندوستان کے ساڑھے پانچ کروڑ مسلمان اسے اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں... کیوں؟ آخر کیوں...؟
    اس کا جواب بڑا آسان اور سیدھا ہے۔ وہ اس لئے کہ غیر مسلمانوں کی ثقافت، کلچر، سماجی بنت، مذہبی لٹریچر، رسومات، وراثت اور لین دین کا تعلق اردو سے نہیں ہے اور مسلمانوں کی ثقافت، کلچر، سماجی بنت، مذہبی لٹریچر، رسومات، وراثت اور لین دین کا تعلق اردو سے ہے۔ اس لئے غیر مسلم اسے اپنی مادری زبان نہیں کہتے اور ساڑھے پانچ کروڑ مسلمان کہتے ہیں۔ جب یہ ساڑھے پانچ کروڑ لوگ جو اردو کو اپنی مادری زبان کہتے ہیں، سب کے سب مسلمان ہیں تو اردو مسلمانوں کی زبان ہوئی کہ نہیں... اس کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں اور سرکاریں جب بھی مسلمانوں کے حوالے سے کوئی فلاحی، اصلاحی اور ترقیاتی منصوبہ بناتی ہیں وہ اردو کو اس سے ضرور جوڑ دیتی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ گزشتہ ساٹھ سالوں میں ہندوستان کی تمام حکومتوں نے شعوری اور غیر شعوری دونوں طریقوں سے اردو کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ یہاں تک کہ قومی اردو کونسل کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لئے تشکیل کردہ ڈی۔ آر۔ گوئل کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اردو کونسل ہندوستان میں اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھ کر کام کرتی ہے... ایسی صورت میں وہ محبانِ اردو جو اردو کو مشترکہ زبان ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں وہ سرکار کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے کہ وہ اردو کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں جوڑتی ہے اور ان شہروں اور محلوں میں ہی اردو اسکول کھولنے کی بات کیوں کرتی ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ وہ سرکار سے سوال کیوں نہیں پوچھتے کہ اردو اسکول ہندو یا سکھ علاقے میں کیوں نہیں کھولے جاتے۔ اردو تو سب کی زبان ہے۔ آج تک اس بات کو لے کر کسی نے احتجاج کیا، دھرنا دیا، سڑکوں پر اُترے، بھوک ہڑتال کی... نہیں بھائی نہیں کی... اس لئے کہ سب کے سب دل کی گہرائیوں سے یہی سمجھتے ہیں کہ اردو کا لالی پاپ صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔ یہ دانہ انہیں کو زیر دام لانے کے لئے ڈالا جاتا ہے پھر اردو کو مسلمان اپنی زبان سمجھے تو برائی کیا ہے۔ کمال ہے، مرکزی اور ریاستی سرکاریں اردو کو مسلمانوں کی زبان مان کر چلیں اور غیر مسلم شعرا اور ادبا اسے اپنی مادری زبان نہ سمجھیں اس میں کوئی برائی نہیں لیکن اگر مسلمان یہ کہے کہ اردو ہماری زبان ہے تو اس پر قیامت ٹوٹے۔ مظہر امام اردو سے ہی دستبردار ہونے پر آمادہ ہوجائیں۔ نہایت احترام کے ساتھ ہم مظہر امام سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا غیر مسلم ڈھونڈ نکالیں جس نے گزشتہ مردم شماری میں اپنی مادری زبان اردو لکھوائی ہو اور سرکاری نیز غیر سرکاری کاغذات میں مادری زبان کے کالم میں ’اردو‘ لکھتا ہو۔ اور اگر موصوف ایسا کوئی نام نہیں پیش کرسکتے تو اردو سے دستبردار ہونے میں اب دیر نہ کریں۔
    ہمیں عرض یہ کرنا ہے کہ ہندوستان میں اردو کو مسلمانوں کی زبان مان لینے میں کوئی نقصان نہیں۔ اس سے اتنا تو ہوگا کہ دستور ہند میں دفعہ 25 تا 30 کے تحت اس زبان کو گارنٹی مل جائے گی۔ خصوصاً دفعہ 29 کے تحت مسلمانوں کو اس کے تحفظ اور فروغ کے لئے آئینی حق حاصل ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ وہ لوگ جو اردو سے فائدہ تو اٹھالیتے ہیں لیکن کوئی قربانی نہیں دیتے وہ حاشیے پر لگ جائیں گے۔ مزید یہ کہ بقول پروفیسر طاہر محمود ’’اُردو میں آتنک وادی‘‘ جو گھس رہے ہیں ان کے خلاف اردو کی بے حرمتی اور بے آبروہی کرنے کا الزام لگاکر قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ میڈیا پر قدغن لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی ’’ہندی‘‘ نشریات اور دوسرے پروگراموں میں اُردو الفاظ کا استعمال نہ کریں اور اگر کرتے ہیں تو ان نشریات اور پروگراموں کو ’’ہندی اردو نشریات‘‘ یا ’’ہندوستانی نشریات‘‘ کا نام دیں۔ اردو کے خوبصورت موثر اور غنائیت سے بھرپور الفاظ، جملے، محاورات اور اشعار لے کر (اکثر ان کا حلیہ بگاڑ کر) ہندی کا جھنڈا اونچا کرنا غاصبانہ طرز حکمت ہے اور یہ عمل بد دیانتی کے مترادف ہے۔ اس پر روک اسی وقت لگائی جاسکتی ہے جب اردو کو ہندوستان میں مسلمانوں کی زبان کا درجہ دے دیا جائے۔ ایسی صورت میں اقلیتی زبان کے تحفظ کا حوالہ دے کر فلموں کے متعدد ’’ہندی‘‘ سرٹیکفیٹ کو بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے اور فلم سے وابستہ لوگوں کو اپنا جارحانہ رویہ بدلنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

    Thanks for Sharing

  10. #10
    qadeerfireman is offline Senior Member+
    Last Online
    26th February 2018 @ 10:33 AM
    Join Date
    15 Dec 2017
    Location
    karachi
    Age
    52
    Gender
    Male
    Posts
    128
    Threads
    4
    Credits
    449
    Thanked: 1

    Default

    good

  11. #11
    leezuka389's Avatar
    leezuka389 is offline Advance Member
    Last Online
    9th August 2023 @ 04:14 PM
    Join Date
    04 Nov 2015
    Gender
    Male
    Posts
    6,596
    Threads
    39
    Credits
    56,449
    Thanked
    294

    Default

    [QUOTE=~*SEEP*~;2228999]
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کاتہ

    ہمیں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اُردو کو دل سے عزیز اور جان سے قریب رکھنے والے کچھ لوگ جن میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں، اس بات پر اپنی ناگواری کا اظہار کرتے ہیں کہ اُردو کو ہندوستان میں مسلمانوں کی زبان کیوں کہا جارہا ہے۔ یہ لوگ اُردو کو مشترکہ اور گنگا جمنی تہذیب (گو کہ اس کا مفہوم آج تک ہم پر واضح نہ ہوسکا) کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اُردو زبان و ادب کی تاریخ سے بے شمار غیر مسلم اُردو شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کا نام لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اُردو صرف مسلمانوں کی ہی نہیں ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں اور دوسری قوموں کی بھی زبان ہے۔ کبھی کبھی بحث فرقہ وارانہ رنگ بھی اختیار کرلیتی ہے جو اُردو کی اسپرٹ اور مزاج کے ہی خلاف ہے۔ کچھ لوگوں کو مثلاً افسانہ نگار جتیندر بلو کو یہ بھی شکایت ہے کہ ہندوستان میں اردو کا اسلامائزیشن ہو رہا ہے اور وہ بطور ثبوت اردو رسالوں میں حمد، نعت، منقبت کی شمولیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف ہر شخص کرتا ہے کہ اردو کو قبول عام، ہر دلعزیز اور عالمی شہرت کی زبان بنانے میں مسلمانوں کے دوش بدوش دوسرے مذاہب کے ماننے والوں نے لائق تحسین اور عظیم کارنامے انجام دیئے اور بلا شبہ آج بھی دے رہے ہیں۔ اس سے کسی کو انکار نہیں اور اس کے لئے مثالیں دینے کی ضرورت نہیں۔ سب کو معلوم ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں نے عہد گزشتہ میں اپنی پرُ خلوص خدمات سے اُردو کو مالا مال نہیں کیا یا آج نہیں کر رہے ہیں۔ سوال صاف، کھلا اور دوٹوک یہ ہے کہ کیا آج کوئی ایسا غیر مسلم ہے جس نے 1901 کی مردم شماری میں یا دوسرے سرکاری کاغذات میں اردو کو بحیثیت مادری زبان لکھوایا ہے۔ یہ سوال ہم نے بار بار اٹھایا لیکن آج تک ایک بھی غیر مسلم ایسا نہیں ملا جو اُردو کو اپنی مادری زبان کہتا ہو۔ یہ تو ہم مانتے ہیں کہ بے شمار ایسے لوگ ہیں جو اردو کو اپنی مادری زبان سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں لیکن وہ اسے اپنی مادری زبان نہیں مانتے۔ 1901 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ افراد کی مادری زبان اُردو ہے (گوکہ یہ اعداد و شمار غلط ہیں۔ صحیح تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ مردم شماری کرنے والوں کے متعصبانہ رویوں، دیہاتوں میں جاہل عوام کے سامنے پیش کئے جانے والے پرُ فریب منظر ناموں، ہندی اور اردو کو خلط ملط کرنے کی سازشوں سے صحیح صورت سامنے نہیں آپاتی اور بیشتر اردو والوں کی مادری زبان ہندی یا مقامی لکھ دی جاتی ہے۔ لیکن یہ الگ بحث ہے) تو یہ ساڑھے پانچ کروڑ کون لوگ ہیں۔ کیا ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں، اس کا علم ہونا چاہئے۔ ہماری معلومات کے مطابق پورے ہندوستان میں اردو کو اپنی مادری زبان کہنے والا ایک بھی غیر مسلم نہیں ہے۔ اگر کسی کو اس بات سے انکار ہے تو وہ برائے کرم ہمارے دعوے کی تردید کرے اور کوئی ایسا غیر مسلم ڈھونڈھ لائے جس نے 1901 کی مردم شماری میں مادری زبان کے کالم میں اردو لکھا ہو اور دوسرے سرکاری نیز غیر سرکاری کاغذات میں بھی مادری زبان کے کالم میں اردو لکھتا ہو۔ کئی سالوں سے ہم ایسے جیالے کی تلاش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک نہیں ملا۔ تو جب وہ لوگ جو اردو کو اپنی مادری زبان کہتے ہیں سارے کے سارے مسلمان ہیں تو پھر اردو کس کی زبان ہوئی اور اگر یہ لوگ اردو کو اپنی مادری زبان کہتے ہیں تو کسی کو تکلیف کیوں ہوتی ہے... دیکھئے... اُردو سے محبت کرنا، اس زبان میں شعر و شاعری اور افسانہ نگاری کرنا، نام و نمود اور پیسہ کمانا اور لطف اندوز ہونا ایک بات ہے اور اس سے عقیدت رکھنا اور اسے اپنی مادری زبان کہنا، سمجھنا اور عمل کرنا دوسری بات ہے۔ آپ اردو سے محبت کرتے ہیں، اردو زبان میں شاعری کرتے ہیں، اسے محبوبہ کی طرح ٹوٹ کر چاہتے ہیں، اس کی محفلیں سجاتے ہیں، اس کے پیروں میں گھنگھرو باندھ کر کوٹھے پر نچاتے ہیں، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی تھیوریاں فلوٹ کرتے ہیں لیکن اسے اپنی مادری زبان نہیں سمجھتے... کیوں؟ آخر کیوں...؟ اور ہندوستان کے ساڑھے پانچ کروڑ مسلمان اسے اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں... کیوں؟ آخر کیوں...؟
    اس کا جواب بڑا آسان اور سیدھا ہے۔ وہ اس لئے کہ غیر مسلمانوں کی ثقافت، کلچر، سماجی بنت، مذہبی لٹریچر، رسومات، وراثت اور لین دین کا تعلق اردو سے نہیں ہے اور مسلمانوں کی ثقافت، کلچر، سماجی بنت، مذہبی لٹریچر، رسومات، وراثت اور لین دین کا تعلق اردو سے ہے۔ اس لئے غیر مسلم اسے اپنی مادری زبان نہیں کہتے اور ساڑھے پانچ کروڑ مسلمان کہتے ہیں۔ جب یہ ساڑھے پانچ کروڑ لوگ جو اردو کو اپنی مادری زبان کہتے ہیں، سب کے سب مسلمان ہیں تو اردو مسلمانوں کی زبان ہوئی کہ نہیں... اس کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں اور سرکاریں جب بھی مسلمانوں کے حوالے سے کوئی فلاحی، اصلاحی اور ترقیاتی منصوبہ بناتی ہیں وہ اردو کو اس سے ضرور جوڑ دیتی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ گزشتہ ساٹھ سالوں میں ہندوستان کی تمام حکومتوں نے شعوری اور غیر شعوری دونوں طریقوں سے اردو کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ یہاں تک کہ قومی اردو کونسل کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لئے تشکیل کردہ ڈی۔ آر۔ گوئل کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اردو کونسل ہندوستان میں اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھ کر کام کرتی ہے... ایسی صورت میں وہ محبانِ اردو جو اردو کو مشترکہ زبان ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں وہ سرکار کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے کہ وہ اردو کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں جوڑتی ہے اور ان شہروں اور محلوں میں ہی اردو اسکول کھولنے کی بات کیوں کرتی ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ وہ سرکار سے سوال کیوں نہیں پوچھتے کہ اردو اسکول ہندو یا سکھ علاقے میں کیوں نہیں کھولے جاتے۔ اردو تو سب کی زبان ہے۔ آج تک اس بات کو لے کر کسی نے احتجاج کیا، دھرنا دیا، سڑکوں پر اُترے، بھوک ہڑتال کی... نہیں بھائی نہیں کی... اس لئے کہ سب کے سب دل کی گہرائیوں سے یہی سمجھتے ہیں کہ اردو کا لالی پاپ صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔ یہ دانہ انہیں کو زیر دام لانے کے لئے ڈالا جاتا ہے پھر اردو کو مسلمان اپنی زبان سمجھے تو برائی کیا ہے۔ کمال ہے، مرکزی اور ریاستی سرکاریں اردو کو مسلمانوں کی زبان مان کر چلیں اور غیر مسلم شعرا اور ادبا اسے اپنی مادری زبان نہ سمجھیں اس میں کوئی برائی نہیں لیکن اگر مسلمان یہ کہے کہ اردو ہماری زبان ہے تو اس پر قیامت ٹوٹے۔ مظہر امام اردو سے ہی دستبردار ہونے پر آمادہ ہوجائیں۔ نہایت احترام کے ساتھ ہم مظہر امام سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا غیر مسلم ڈھونڈ نکالیں جس نے گزشتہ مردم شماری میں اپنی مادری زبان اردو لکھوائی ہو اور سرکاری نیز غیر سرکاری کاغذات میں مادری زبان کے کالم میں ’اردو‘ لکھتا ہو۔ اور اگر موصوف ایسا کوئی نام نہیں پیش کرسکتے تو اردو سے دستبردار ہونے میں اب دیر نہ کریں۔
    ہمیں عرض یہ کرنا ہے کہ ہندوستان میں اردو کو مسلمانوں کی زبان مان لینے میں کوئی نقصان نہیں۔ اس سے اتنا تو ہوگا کہ دستور ہند میں دفعہ 25 تا 30 کے تحت اس زبان کو گارنٹی مل جائے گی۔ خصوصاً دفعہ 29 کے تحت مسلمانوں کو اس کے تحفظ اور فروغ کے لئے آئینی حق حاصل ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ وہ لوگ جو اردو سے فائدہ تو اٹھالیتے ہیں لیکن کوئی قربانی نہیں دیتے وہ حاشیے پر لگ جائیں گے۔ مزید یہ کہ بقول پروفیسر طاہر محمود ’’اُردو میں آتنک وادی‘‘ جو گھس رہے ہیں ان کے خلاف اردو کی بے حرمتی اور بے آبروہی کرنے کا الزام لگاکر قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ میڈیا پر قدغن لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی ’’ہندی‘‘ نشریات اور دوسرے پروگراموں میں اُردو الفاظ کا استعمال نہ کریں اور اگر کرتے ہیں تو ان نشریات اور پروگراموں کو ’’ہندی اردو نشریات‘‘ یا ’’ہندوستانی نشریات‘‘ کا نام دیں۔ اردو کے خوبصورت موثر اور غنائیت سے بھرپور الفاظ، جملے، محاورات اور اشعار لے کر (اکثر ان کا حلیہ بگاڑ کر) ہندی کا جھنڈا اونچا کرنا غاصبانہ طرز حکمت ہے اور یہ عمل بد دیانتی کے مترادف ہے۔ اس پر روک اسی وقت لگائی جاسکتی ہے جب اردو کو ہندوستان میں مسلمانوں کی زبان کا درجہ دے دیا جائے۔ ایسی صورت میں اقلیتی زبان کے تحفظ کا حوالہ دے کر فلموں کے متعدد ’’ہندی‘‘ سرٹیکفیٹ کو بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے اور فلم سے وابستہ لوگوں کو اپنا جارحانہ رویہ بدلنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔




    umda sharing janab

Similar Threads

  1. Replies: 6
    Last Post: 7th February 2021, 07:14 AM
  2. Replies: 14
    Last Post: 27th December 2011, 12:50 PM
  3. Replies: 18
    Last Post: 14th July 2011, 01:54 PM
  4. Replies: 19
    Last Post: 9th July 2011, 02:30 PM
  5. Replies: 3
    Last Post: 10th January 2010, 05:51 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •