nasirnoman said:
جناب عمر صاحب ... ہمارے خیال میں استاد بھائی کہیں مصروف ہیں ... لہذا اُس وقت تک ہم اپنی بات جہاں ختم ہوئی وہاں سے دوبارہ شروع کردیتے ہیں
جیسا کہ ہم نے اپنی آخری پوسٹ میں لکھا تھا :
جناب عمر صاحب آپ نے درست فرمایا کہ دنیا کے لاکھوں کڑوڑوں انسان نہ سولی چڑھتے ہیں اور نہ قتل ہوتے ہیں ...لیکن پھر بھی زندہ نہیں
یعنی قدرتی موت مرجاتے ہیں
لیکن آپ شاید بھول رہے ہیں کہ ہم اس وقت دنیا کے لاکھوں کڑوڑوں انسانوں کی بات نہیں کررہے بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک خاص واقعہ کے متعلق بات کررہے ہیں
اور اس واقعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ واقعہ قرآن پاک میں بیان ہوا....اور اس واقعہ کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس واقعہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے اور سولی چڑھائے جانے کی سازش کا بیان ہوا ہے
اور اس خاص واقعہ کی تیسری خاص اور اہم بات یہ ہے کہ اس واقعہ میں اللہ رب العزت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمنوں کی سازش کی ناکامی کی خبر بیان کی گئی ہے
تو جناب عمر صاحب ....اس لئے آپ اس خاص واقعہ کو دنیا کے لاکھوں کڑوڑوں انسانوں کی مصلیب یا مقتول ہونے کے علاوہ قدرتی موت مرنے کی مثال پر قیاس نہیں کرسکتے
امید ہے کہ یہ معمولی بات آسانی سے سمجھ میں آگئی ہوگی
جس کا آپ نے کافی دلچسپ جواب دیا
آپ ایک موقعہ پر لکھتے ہیں
لیکن اس کے بعد قارئین کرام کے لئے بڑی دلچسپ صورتحال ہے کہ موصوف عمر صاحب اپنے اگلے ہی جملے میں لکھتے ہیں :
یعنی یھود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ قتل کرسکے اور نہ مصلوب۔ لیکن قتل یا مصلوب نہ ھونے کو حیات مان لینا چاھئے۔
تو اربوں، کھربوں انسانوں کو زندہ ماننا پڑے گا۔
معزز قارئین کرام
آپ نے وہ کہاوت تو سنی ہوگی "مرغے کی ایک ٹانگ" کہ جب بادشاہ اپنے وزیر کو لے کر مرغے کے دڑبے تک پہنچتا ہے اور مرغا ایک ٹانگ پرکھڑا ہوتا ہے
اور جب بادشاہ تالی بجاتا ہے ... تو مرغا ایک دم اٹھ کر دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہوجاتا ہے
اس کے بعد بادشاہ جتنی بحث کرتا ہے ... وزیر سب تسلیم بھی کرتا جاتا ہے
لیکن جواب وہ عمر صاحب والا ہی دیتا ہے کہ "مرغے کی ایک ٹانگ ہی ہے"
عمر صاحب کم از کم تھوڑی عقل تو استعمال کرو
اور خود سوچو کہ تم کیا کہہ رہے ہو
ایک طرف ہمیں کہتے ہو کہ ہاں جی میں مانتا ہوں
اور اگلی لائن میں کہتے ہو کہ نہیں جی مرغے کی ایک ٹانگ ہے ؟؟؟
آپ کیا کہنا چاہتے ہو ... مختصرا الفاظ میں لکھو
کیا آپ کو ہماری بات تسلیم ہے ؟
یا اعتراض ہے ؟
اور اعتراض کس بات پر ہے ؟
اور جو بھی جواب دیں اُس میں ہمارے جواب کو مد نظر ضرور رکھیں
اور بار بار ہماری باتیں دہرانےکی ضرورت نہیں ٹو دی پوائینٹ جواب عنایت فرمائیں
شکریہ
[/font][/size]
سب پر اللّھ کی سلامتی ھو؛
ناصر صاحب۔
بلکل میں نے لکھا تھا۔
میں بھئ مانتا ھوں۔
کہ یہ واقعہ قرآن پاک میں بیان ہوا . اس واقعہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے اور سولی چڑھائے جانے کی سازش کا بیان ہوا ہے۔
اس واقعہ میں اللہ رب العزت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمنوں کی سازش کی ناکامی کی خبر بیان کی گئی ہے
یعنی یھود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ قتل کرسکے اور نہ مصلوب۔ لیکن قتل یا مصلوب نہ ھونے کو
حیات مان لینا چاھئے۔ تو اربوں، کھربوں انسانوں کو زندہ ماننا پڑے گا۔
اور اگر کسی نبی کے مطلق جو غلط بات منسوب کی گئ ھو۔ اُسے قرآن پاک میں رد کرنے سے اُس نبی کی
حیات ثابت ھوتی ھے تو پھر کئ انبیا کو حیات ماننا پڑے گا۔
یعنی آپ کی یہ دلیل کہ واقعہ کا قرآن پاک میں ذکر، سازش کا بیان ھونا، سازش کا ناکام ھونا۔
سے ثابت ھوتا ھے۔ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں زندہ ھیں اس سے کوئی اتفاق نھیں کر سکتا۔
قرآنِ پاک میں کسی کا ذکر اُس کی حیات ثابت نھیں کرتی۔
جن جن حضرات کا قرآنِ پاک میں ذکر ھے ھم اُنھیں حیات نھیں مان سکتے۔
آپ نے یہ آخری خصوصیت بیان کی تھی۔
اور اس خاص واقعہ کی تیسری خاص اور اہم بات یہ ہے کہ اس واقعہ میں اللہ رب العزت نے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمنوں کی سازش کی ناکامی کی خبر بیان کی گئی ہے۔
جناب سے دوبارہ عرض ھے کہ
اور اگر کسی نبی کے مطلق جو غلط بات منسوب کی گئ ھو۔ اُسے قرآن پاک میں رد کرنے سے اُس نبی کی
حیات ثابت ھوتی ھے تو پھر کئ انبیا کو حیات ماننا پڑے گا۔
بلکل میں مانتا ھوں۔ کہ یھود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ قتل کر سکے اور نہ مصلوب۔
یعنی یہ تو ثابت ھوتا ھے۔ کہ واقع صلیب کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت نھیں ھوئے۔
لکین اس سے یہ ھر گز ثابت نھیں ھوتا۔ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کبھی فوت ھی نھیں ھوئے۔
بس اتنا ثابت ھوتا ھے کہ جس وقت یھود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔
صرف اُس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام حیات رھے۔ یھود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہ کر سکے۔
اس سے یہ کیسے ثابت ھو گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل اور مصلوب نہ ھونے کی وجہ سے
دائمی/غیر فطرتی زندگی میں داخل ھو گئے۔ واقع صلیب سے زندہ بج جانے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کھاں گئے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا ھوا۔ آسمان پر زندہ اُٹھا لیئے گئے یا اپنی طبعی زندگی پوری کر کے
فوت ھو گئے۔ اس بارے میں النساء 157 میں کچھ بھی بیا ن نھیں کیا گیا۔
واقع صلیب کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فوت نہ ھونا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آسمانی زندگی
کیلئے کیسے دلیل بن سکتا ھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ؟؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دائمی زندگی(حیاتِ مسیِح) کے لیئے النساء 157 دلیل ھے۔
مجھے یہ آپ کی بلکل ذاتی رائےمعلوم ھوتی ھے۔
میرے ناقص علم کے مطابق ختمِ نبوت والے حیاتِ مسیِح کے لیئے النساء 158 کا انتخاب کرتے ھیں۔
ھو سکتا ھے کہ اُستاد صاحب بھی آپ کی اس دلیل سے اتفاق نہ کرتے ھوں
اور اسلیئے استاد صاحب نے آپ کو روکا ھو۔
جب تک اُستاد صاحب آپ کی حیاتِ مسیح کے لیئے دلیل (قتل اور مصلوب نہ ھونا )کی تصدیق نھیں کرتے
مھربانی کر کہ اس بچگانہ دلیل/ زد کو چھوڑ دیں۔ اور آپ سے خصوصی درخواست ھے
چونکہ آپ ختمِ نبوت کے پرچم تلے کام کر رھے ھیں
اس لئے ختمِ نبوت کے نظریات/عقاعد/دلایئل کو اپنے ذاتی نظریات پر فوقیئت دیا کریں۔
اور ختمِ نبوت کے نظریات/عقاعد/دلایئل کو ھی لکھا کریں۔
نہ کہ اپنی ذاتی رائے/ زِد کو ختمِ نبوت سے منسوب کیا کریں۔
آپ جو بار بار النساء 157( قتل اور مصلوب نہ ھونا ) کو حیاتِ مسیِح کے لئے دلیئل کے طور پر استعمل کررھے ھیں۔
اس دلیئل کے حق میں ختمِ نبوت والوں کا ایک حوالہ ضرور دے دیں۔
"مرغے کی ایک ٹانگ"
قرآنِ پاک پر غور و فقر کے وقعت اس طرح کی فضول کہاوتوں سے پرھیز رکھیں مھربانی ھو گی۔
کیونکہ آپ کے پاس النساء 158 میں رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ (اللہ کی طرف) پر میرے اُٹھائے ھوئے سوالات
”یہ کیسے ممکن ھے کہ کوئی جسم کسی لا محدود، ھر جگہ موجود،
جسم سے پاک وجود (اللہ) کی طرف بنائے اور پھر حرکت کرے۔“ کے جوابات نھیں
اسلئے آپ کا النساء 157 پر اٹک جانا اور قرآنِ پاک کو چھوڑ کر اس طرح کی کہاوتوں کا سھارا
لینا آپ کے تذبب کو ظاھر کرتا ھے۔ اس لیئے بھتر ھے کہ پرھیز ھی رکھیں۔
آپ لکھتے ھیں کہ؛
جناب عمر صاحب ... ہمارے خیال میں استاد بھائی کہیں مصروف ہیں ... لہذا اُس وقت تک ہم اپنی
بات جہاں ختم ہوئی وہاں سے دوبارہ شروع کردیتے ہیں۔
بھتر یھی ھے کہ جب میں نے اُستاد صاحب کے مطابے پر احمدیت/ قادیانیت/مرزاعیت کی تفسیر النسا
لکھ دی ھے۔تو آپ
براہِ مھربانی یا تو حیاتِ مسیِح پر اُٹھائے ھوئے سوالات/ اعترازات کے جواب دیں۔
یا جو میں نے تفسیر لکھی ھے۔قرآنِ پاک سے دلائل دے کر اُس پر اعتراض کریں۔
یا پھر یہ تسلیم کریں کہ حیات مسیِح قرآِن پاک سے ثابت نھیں ھوتی اور وفات مسیح قرآنِ پاک
کے مطابق ھے۔
آپ کے جوابات، اعترازات، یا تسلیم کرنے کا منتظر۔
Bookmarks