میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وکی لیکس پر امریکہ کے خفیہ سفارتی پیغامات کا ایک بڑا حصہ امریکی محکمہ دفاع کے نیٹ ورک ِسپر نیٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔

میڈیا کے مطابق محکمہ دفاع کا نیٹ ورک جسے’ سیکرٹ انٹرنیٹ پروٹوکول روٹر نیٹ ورک‘ یا ِسپر نیٹ ورک(Siprnet) کہا جاتا ہے حساس معلومات کے تبادلے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

یہ نیٹ سنہ انیس سو نوے میں قائم کیا گیا تھا اور اسے نائن الیون کے واقعے کے بعد حساس معلومات کے آسانی سے تبادلے اور مختلف خفیہ ایجنسیوں کے درمیان رابطے کی ناکامیوں کو روکنے کے لیے وسعت دی گئی تھی۔

اس نیٹ ورک کو اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ خفیہ معلومات جو قومی سلامتی کے لیے نقصان دے ثابت ہو سکتی کا تبادلہ کیا جا سکے۔
پچیس لاکھ امریکی فوجی اور سول لوگوں کو اس نیٹ ورک تک رسائی حاصل ہے تاہم اس نیٹ ورک کو انتہائی خفیہ معلومات کے تبادلے کے قابل نہیں کہا گیا تھا۔

اس نیٹ ورک کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ پچیس لاکھ امریکی فوجی اور سول لوگوں کو اس نیٹ ورک تک رسائی حاصل ہے تاہم اس نیٹ ورک کو انتہائی خفیہ معلومات کے تبادلے کے قابل نہیں کہا گیا تھا۔

صرف چھ فیصد دستاویز جو پندرہ ہزار بنتی ہیں کو خفیہ قرار دیا گیا تھا جب کہ چالیس فیصد کو راز کا حامل قرار دیا گیا تھا اور بقایا تمام کو خفیہ قرار نہیں دیا گیا تھا۔

ِسپرنیٹ کو منظر عام پر لائی گئی دستاویزات کا ذرائع کہا جا رہا ہے کیونکہ ان پر’ ِسپڈس یا Sipdis‘ کا ٹیگ ہے جس کا مطلب ہے کہ ِسپرنیٹ نے تقسیم کیا ہے۔یہ نیٹ کے ایڈریس کا ایک کوڈ ہوتا ہے جو اس کی قیادت کرتا ہے۔

محکمہ دفاع کے اس نیٹ ورک کو استعمال کرنے کے ہدایت نامے کے مطابق ِسپرنیٹ کو استعمال کرنے والے وہ ہی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں جو عام نیٹ صارفین کرتے ہیں لیکن اس میں وقف شدہ اور خفیہ لائنز ہوتی ہیں جو اس کو دوسرے تمام نیٹ ورک نظاموں سے الگ کر دیتی ہیں۔

محمکہ دفاع کے مطابق اس نیٹ ورک کا سلسلہ وار سکیورٹی اقدامات کے تحت محفوظ بنایا گیا ہے۔ تمام استعمال کنندہ کی منظوری اور اور ان کا رجسٹر ہونا لازمی ہے۔

پاس ورڈ پیچیدہ ہیں اور ان کو ایک سو پچاس دن کے بعد لازمی طور تبدیل کرنا ہوتا ہے۔کسی بھی محفوظ جگہ سے مخصوں کمپیوٹرز کے ذریعے ہی اس نیٹ ورک کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کمپیوٹرز کو کسی صورت بھی اکیلا نہیں چھوڑ جائے گا۔پہلے سے منظوری کے علاوہ عام انٹرنیٹ سے اس کو منسلک نہیں کیا جائے گا۔
نائن الیون کے واقعے کے بعد سے دنیا بھر سے اس نیٹ ورک تک رسائی حاصل کرنا آسان ہو گیا تھا اور اب امریکی کے سفارت خانوں کی ایک بڑی تعداد ِسپرنیٹ سے منسلک ہیں۔

ِِِسپر نیٹ سے منسلک کرنے کے بعد میڈیا سٹوریج کی ڈیواسز کو خفیہ رکھا رکھائے گا۔تمام استعمال کنندہ حساب کتاب رکھا جائے گا اور تمام استعمال کنندہ کی شناخت کی جائے گی۔

تاہم نائن الیون کے واقعے کے بعد سے دنیا بھر سے اس نیٹ ورک تک رسائی حاصل کرنا آسان ہو گیا تھا اور اب امریکی کے سفارت خانوں کی ایک بڑی تعداد ِسپرنیٹ سے منسلک ہیں۔

جولائی میں امریکہ کے انٹیلیجنس کی ماہر کیتھرین لوٹیرونیٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ موثر انٹیلیجنس نیٹ ورک کے لیے معلومات کا تبادلہ ضروری ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر معلومات کے تبادلے کے دوران معلومات کے چرائےجانے کا خطرہ ہو گا کیونکہ منفی پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی قواعد کو توڑ سکتا ہے۔

ابھی تک وکی لیکس کو خفیہ سفارتی معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے کسی پر الزام عائد نہیں کیا گیا ہے لیکن افغان جنگ سے متعلق خفیہ دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات میں امریکی فوج کے خفیہ امور کے اہلکار پریڈلے مینِنگ پر توجہ مرکوز ہے، پریڈلے میننگ کو ایک کلاسیفائڈ ویڈیو جاری کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور حالیہ سفارتی معلومات منظر عام پر آنے کے بعد شبہہ انھیں پر ہے۔

وکی لیکس نے ماضی میں تردید کی تھی کہ پریڈلے میننگ سے دستاویز وصول نہیں کی ہیں تاہم وکی لیکس کا کہنا تھا اگر وہ ان کا سورس یا ذرائع ہیں بھی تو تکنیکی طور پر یہ جاننا ناممکن ہے۔

برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق مبینہ طور پر ایک آن لائن سکیورٹی سسٹم جو ِسپر نیٹ کے مشکوک استعمال پر نظر رکھتا ہے کو عراق میں تعینات امریکی فوجیوں کی شکایات پر کہ یہ تکلیف دے یا مسائل کا سبب بنتا کے بعد اس کو کمپیوٹرز پر بند کر دیا گیا تھا۔

ماہرین کے مطابق یہ امکان بھی ہے عراق میں کسی نے ِسپرنیٹ سے کیبلز تک رسائی حاصل کر لی ہو۔