اسے کہنا
دسمبر لوٹ آیا ہے،
ہوائیں سرد ہیں
وادیاں بھی دھند میں گم ہیں،
پہاڑوں نے برف کی شال
بھر سے اوڑ رکھی ہے
سبھی راستے تمہاری یاد میں
پرنم لگتے ہیں
جنہیں شرف محبت تھا
وہ سارے کارڈ،وہ پرفیوم،
وہ چھوٹی سی ڈائری ،وہ ٹیرس
وہ چائے جو ہم نے ساتھ پی تھی
تمہاری یاد دلاتے ہیں
تمہیں وآپس بلاتے ہیں
اسے کہنا،
دیکھو یوں ستاؤ نہ
دسمبر لوٹ آیا ہے
تم بھی لوٹ آؤ نا
Bookmarks