کان میں ہوٹل: تین سو ستائیس میٹر زیرزمین




اس فائیو سٹار ہوٹل کی نو منزلیں ہیں۔ اس میں
شادی بیاہ اور موسیقی کے پروگراموں کے لیے بڑے شاندار ہال ہیں، کئی چرچ ہیں، سوئمنگ پول ہیں اور ایک شاندار ریسٹورنٹ بھی ہے۔ اس ہوٹل کی دلکشی اس کا زیرزمین چونسٹھ سے لے کر تین سو ستائیس میٹر کی گہرائی میں ہونا ہے۔ اچھائیوں کے ساتھ ساتھ اس ہوٹل کی کچھ خامیاں بھی ہیں۔ سر فہرست اس میں رات کے قیام کا انتظام نہ ہونا ہے یعنی یہاں رہائش کے لیے کمرے نہیں ہیں۔ اس میں دن کی روشنی نہیں ہے۔


دراصل یہ ہوٹل نہیں پولینڈ کے جنوب میں کریکو شہر کے قریب ولیچکا کے مقام پر سب سے بڑی نمک کی ‏‏‏کان ہے جسے دیکھنے کے لیے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بارہ لاکھ سیاح ہر سال آتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً چار لاکھ مقامی مقامی جبکہ باقی غیرملکی سیاح ہیں۔ مقامی گائیڈ کے مطابق غیرملکی سیاحوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
کلِک ولیچکا میں نمک کی کان: تصاویر
اس مقام پر زمانہ وسطی سے لے کر انیس سو چھیانوے تک کان کنی کی جاتی رہی جس سے تقریباً دو ہزار مزدور وابستہ تھے۔ لیکن بعد میں اسے غیرمنافع بخش ہونے کی وجہ سے بند کر دیا گیا۔ تاہم اس حیران کن کان کو بند نہیں کیا گیا۔ یہاں مزید سرمایہ کاری کرنے کے بعد اسے دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات میں سے ایک بنا دیا گیا ہے۔




ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ کان پہنچے تو حیرت ہوئی۔ نا کوئی پہاڑ نہ کوئی کان۔ ذہن میں تھا کہ کسی بڑے پہاڑ کے دھانے پر کان کا پرانا گندا سا دروازہ کان کا داخلی راستہ ہوگا۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہ بڑی سی ہوٹل نما عمارت دراصل کان کا دروازہ ہے۔ اس عمارت کی چھت سے نکلا ہوا لوہے کاسفید ستون ہی اسے اردگرد کی عمارتوں سے قدرے مختلف بناتا تھا۔ اکیلے سیاح کے لیے الگ جبکہ گروپس کی صورت میں آنے والوں کے لیے الگ راستہ تھا۔ غیر ملکیوں کے لیے مقامی کرنسی یعنی پینسٹھ زلوٹی (تقریباً ساڑھے سترا سو روپے) کا ایک داخلہ ٹکٹ تھا۔
چند سیڑھیاں اتر کر آپ قدیم چار منزلہ لفٹ تک جاتے ہیں۔ ہر منزل میں نو لوگ سما سکتے ہیں۔ اس لفٹ کو اپنی اصلی حالت میں استعمال کیا جا رہا ہے یہاں تک کہ اس کی گھنٹی بھی۔ کان کو گرنے سے بچانے کی خاطر لکڑی کے شہتر اتنی زیادہ تعداد میں استعمال کیے گئے ہیں کہ بعض سیاحوں کے مطابق یہ نمک کی کم اور لکڑی کی کان زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ اس کے لیے علاوہ ڈرلنگ کے جدید طریقے سے لوہے کے سلاخیں ڈال کر بھی کان کو محفوظ بنایا گیا ہے۔
کان کا اگر کسی نے ہر کونا دیکھنا ہو تو ہمارے گائیڈ کے مطابق دو ہفتے درکار ہوں گے۔ کان مختلف چھوٹے بڑے ہالوں، گرجا گھروں، نمکین پانی کے تالابوں اور عجائب گھروں میں تقسیم کی گئی ہے۔ لیکن سینٹ کینگا چیپل ان میں سے سب سے زیادہ قابل دید ہے۔ اس میں رکھے بت، قمقمے حتیٰ کہ فرشی ٹائلیں بھی سیاہ رنگت مائل نما نمک سے اٹھارہ سو چھیانوے میں تیار کی گئیں۔ یہاں دمے کے مریضوں کے لیے ایک سینیٹوریم بھی قائم ہے۔


گائیڈ مارکو نے بتایا کہ وہ اس کان میں گزشتہ پچیس برسوں سے سیاحوں کی اس کی تاریخی اہمیت سمجھنے میں مدد کر رہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہاں سانس لینا پھیپھڑوں کے لیے بہیت مفید ہے۔ لہٰذا مفت میں جتنی لمبی سانسیں لے سکتے ہیں لے لیں۔
گائیڈ کے مطابق سینٹ کینگا چیپل موسیقی کے لیے انتہائی مفید ہے لہٰذا اسی کی فرمائش سے زیادہ اصرار پر میں اور میرے دو ساتھیوں نے پشتو میں با آواز بلند ٹپے گا کر اپنی گانے کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
کان میں نمک نکالنے کے قدیمی طریقے بھی بتوں اور پرانی لکڑی کی مشینری کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک وقت میں کان کنی کے دوران یہاں دو ہزار مزدور روزگار سے منسلک تھے لیکن اب اس کان کی دیکھ بھال کے لیے دو سو افراد مصروف رہتے ہیں۔ سیاہ یونیفارم میں ملبوس تقریباً درجن بھر گائیڈز اس کے علاوہ ہیں۔ ہمارے گائیڈ نے بتایا کہ دنیا بھر سے سیاح اس کان کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس نے گزشتہ برس بھارت سے آئے ایک وفد کو یاد کر کے کہا کہ انہوں نے اسے بالی وڈ میں کام کا موقع دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب تک کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔
دوپہر کا کھانا زیر زمین ریسٹورانٹ میں کھانے کے بعد واپس لوٹ آئے لیکن ایک غیرمنافع بخش کان کو بڑی سرمایہ کاری کرنے کے بعد سیاحوں کے لیے پرکشش اور اپنے لیے منافع بخش بنانے پر اس منصوبے کو سوچنے اور اسے عملی جامعہ پہنچانے والوں کی تعریف کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔