نہ ہوگا "یک بیاباں ماندگی" سے ذوق کم میرا
حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا
سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
بقدرِ ظرف ہے ساقی! خمارِ تشنہ کامی بھی
جوتو دریائے مے ہے، تو میں خمیازه ہوں ساحل کا
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پرده ہے ساز کا
رنگِ شکستہ صبحِ بہارِ نظاره ہے
یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظرہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژه ہائے دراز کا
صرفہ ہے ضبطِ آه میں میرا، وگرنہ میں
طعمہ ہوں ایک ہی نف سِ جاں گداز کا
ہیں بسکہ جوشِ باده سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا
کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرهِ نیم باز کا
تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسدؔ !
سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
بزمِ شاہنشاه میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا
شب ہوئی، پھر انجمِ رخشنده کا منظر کھلا
اِس تک لّف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا
گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا
گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گونہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے؟ کہ مجھ سے وه پری پیکر کھلا
ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
منہ نہ کھلنے پرہے وه عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا
در پہ رہنے کو کہا، اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلاؤں کا نزول
آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۀ اختر کھلا
کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
اس کی امّ ت میں ہوں مَیں، میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالبؔ ! گنبدِ بے در کھلا
شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیری دل بیتاب تھا
شوخئِ وحشت سے افسانہ فسونِ خواب تھا
شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۀ ابر آب تھا
شعلۂ جوّالہ ہر اِک حلقۂ گرداب تھا
واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا
لے زمیں سے آسماں تک فرش تھیں بے تابیاں
شوخئِ بارش سے مہ فوّارۀ سیماب تھا
واں ہجومِ نغمہ ہاۓ سازِعشرت تھا اسدؔ
ناخن، غم یاں سرِ تارِ نفس مضراب تھا
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا
جلوۀ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو
یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا
یاں سرِ پرشور بے خوابی سے تھا دیوار جو
واں وه فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب تھا
یاں نف س کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بےخودی
جلوۀ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا
فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا
ناگہاں اس رنگ سے خوں نابہ ٹپکانے لگا
دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا
نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
تھا سپندِبزمِ وصلِ غیر ، گو بیتاب تھا
دیکھتے تھے ہم بچشمِ خود وه طوفانِ بلا
آسمانِ سفلہ جس میں یک کفِ سیلاب تھا
موج سے پیدا ہوۓ پیراہنِ دریا میں خار
گریہ وحشت بے قرارِ جلوۀ مہتاب تھا
جوشِ تکلیفِ تماشا محشرستانِ نگاه
فتنۂ خوابیده کو آئینہ مشتِ آب تھا
بے دلی ہاۓ اسدؔ افسردگی آہنگ تر
یادِ ایّامے کہ ذوقِ صحبتِ احباب تھا
مَقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے !
خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا
نازشِ ا یّامِ خاکستر نشینی ، کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ ، وقفِ بسترِ سنجاب تھا
کچھ نہ کی اپنے جُنونِ نارسا نے ، ورنہ یاں
ذرّ ه ذرّ ه روکشِ خُرشیدِ عالم تاب تھا
I love ghalib. Jazakallah khair
Bhuat khoob !
Bookmarks