کس کا جنونِ دید تمنّا شکار تھا؟
آئینہ خانہ وادئِ جوہر غبار تھا
کس کا خیال آئینۂ انتظار تھا
ہر برگِ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا
ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا
اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ، تمثال دار تھا
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں
جاں دادۀ ہوائے سرِ رہگزار تھا
موجِ سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذره، مثلِ جوہرِ تیغ، آب دار تھا
کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو، پر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
واۓ دیوانگئ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا
جلوه از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے
جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا
عشرتِ قتل گہِ اہل تمنا، مت پوچھ
عیدِ نظ اره ہے شمشیر کا عریاں ہونا
لے گئے خاک میں ہم داغِ تمنائے نشاط
تو ہو اور آپ بہ صد رنگِ گلستاں ہونا
عشرتِ پارۀ دل، زخمِ تمنا کھانا
لذت ریشِ جگر، غرقِ نمکداں ہونا
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
حیف اُس چار گره کپڑے کی قسمت غالبؔ !
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
بے نیازی حد سے گزری بنده پرور، کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے 'کیا'؟
حضرتِ ناصح گر آئیں، دیده و دل فرشِ راه
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وه اب لائیں گے کیا
گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا
خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا
ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسدؔ
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں ، کھائیں گے کیا؟
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتاا
اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح
کوئی چاره ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
رگِ سنگ سے ٹپکتا وه لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا
غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟
نہ کبھی جنازه اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وه یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائل تصّوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے ،جو نہ باده خوار ہوتا
آپ کی شیئرنگ پڑھ کربہت اچھا لگا
شکریہ جناب اس عمدہ شیئرنگ کرنے کا
nice
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا
نگاهِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا
فروغِ شعلۂ خس یک نف س ہے
ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا
نفس موجِ محیطِ بیخودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا
دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے
غمِ آوارگی ہائے صبا کیا
دلِ ہر قطره ہے سازِ ‘انا البحر’
ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا
محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ
شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا
سن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سن
شکستِ قیمتِ دل کی صدا کیا
کیا کس نے جگرداری کا دعویٰ؟
شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا
یہ قاتل وعدۀ صبر آزما کیوں؟
یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا
نگاهِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا
فروغِ شعلۂ خس یک نف س ہے
ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا
نفس موجِ محیطِ بیخودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا
دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے
غمِ آوارگی ہائے صبا کیا
دلِ ہر قطره ہے سازِ ‘انا البحر’
ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا
محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ
شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا
سن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سن
شکستِ قیمتِ دل کی صدا کیا
کیا کس نے جگرداری کا دعویٰ؟
شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا
یہ قاتل وعدۀ صبر آزما کیوں؟
یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
بندگی میں بھی وه آزاده و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا
کم نہیں نازشِ ہمنامئ چشمِ خوباں
تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا
سینے کا داغ ہے وه نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وه قطره کہ دریا نہ ہوا
نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا
ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب
حمزه کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۀ بینا نہ ہوا
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا
Bookmarks