یار سب ہم نوا نہیں ہوتے
درد کی سب دوا نہیں ہوتے
رنگ ہی رنگ ہیں یہاں لیکن
رنگ سب خوشنما نہیں ہوتے
صدق ہو گر ہماری باتوں میں
سچے جذبے فنا نہیں ہوتے
بولتے سب وفا مگر یارو
بے حیا با وفا نہیں ہوتے
زندگی قرض ہے اگر ہمدم
قرض سارے ادا نہیں ہوتے
جو ملے راستے کی گلیوں میں
وہ سبھی آشنا نہیں ہوتے
سنگ سے تم تراش لیتے ہو
گو کہ پتھر خدا نہیں ہوتے
چونکتا ہے سبھی صداؤں پر
حرف سارے ندا نہیں ہوتے
گو محبت ہماری کیسی ہو
کیا بھروسہ جدا نہیں ہوتے
یوں میری بات کو مگر اظہر
جس نے سمجھا خفا نہیں ہوتے
پھول تو ہیں، مہک ہی باقی نہیں
ہیں تو پنچھی، چہک ہی باقی نہیں
آنکھ کے سامنے جو رہتے تھے
اُن کی اب تو، جھلک ہی باقی نہیں
Bookmarks