شروع اللہ کریم کے نام مبارک سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
بے انتھا درود و سلام تمام تر تعظیمات نثار ہوں اس فخر انسانیت پر جنھوں نے انسان کو اصول انسانیت سکھائے جو تمام جہانوں کے لیے رحمت صلی اللہ علیہ و علی آلہ و بارک وسلم ہیں سلام و تسلیمات لامحدود ہوں ان شمع رسالت کے پروانے پہ جو وجہ ضوفشانی مشعل حق ہیں
قسم ہے اس دہر کی انسان خسارے میں
بیشک انسان خسارے میں انسان کی مثال ایک بے بس پنچھی کی سی ہے جو ایک تاریک زنداں میں مقید ہے جس میں موت نام کا ضیاد ہر وقت اس پہ اپنی خونخوار نگاہیں جمائے بیٹھا ہے لیکن انسان اپنے جیسے ہی مظلوم انسانوں کے لیے خود ہی پیغام اجل بن جاتا ہے افسوس کہ میری آنکھ سے اس دبیز اندھیرے کا پردہ اٹھ جائے اور میں اسرار حقیقت سے واقف ہوجاؤں
میرے نزدیک دہر ایک قبرستان ہے اور میں اسی قبرستان کی ایک لوح ہوں اس لیے میں نے اپنا نام
لوح ء دہر
رکھ لیا میں امید کرتا ہوں کہ اس محفل میں میں ایک اچھا وقت گزاروں گا
مقید قید حیات
فقط
لوح ء دہر
چشم عبرت سے دیکھ مجھے
نشق ء لوح ء دہر ہوں میں
Bookmarks