دلہن کا سفر میکے سے سسرال تک
شادی چار لفظوں کا مجموعہ بظاہر چھوٹا سا لفظ مگر بڑا معنی خیز جاندار اپنے اندر ایک عجب طلسم و اسرار چھپاۓ ہوۓیہ ہی وجہ ہے کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے سنجیدہ سے سنجیدہ طبع افراد بھی شادی کا نام آتے ہی مسکرا دیتے ہیں یا شرما جاتے ہیں ہر جوان لڑکا اور لڑکی اس لفظ کے سہارے سپنوں کی حسین دنیا میں کھو
جاتے
ہیں یہ انہیں تحفظ کا احساس دلاتا ایک ایسا رشتہ ہے جس میں سب سے زیادہ اپنائیت کا احساس جاگتا ہے
مختصر کہوں تو بیٹی کو کبھی یہ مت کہیں
دیکھا گیا ہے کہ گھر میں کی جانے والی بے جا روک ٹوک کی کرواہٹ کو یہ کہہ کر شیرے میں لپیٹ دیا جاتا ہے کہ بھئی سسرال جا کے جو دل چاہے کرتی رہنا یا شوہر کے گھر تمہیں پوری آزادی ہو گی اور لڑکی حقیقتا سمجھتی بھی یہی ہے جو کہ اس کے حق میں غلط ہےشادی لفظ ایک لڑکی کو بڑا سیدھا سا تصور دیتا ہے جس کے بارے میں لڑکی صرف یہ ہی سوچ سکتی ہے کہ شادی کا مطلب ہے خوب تیار ہو کر بن سنور کر دلہن بننا.شادی کا مطلب یہ ہی سمجھا جاتا ہے کہ شادی والے دن لڑکی خوب سج سنور کے زیور سے لدی پھندی جہیز سے بھرے ٹرک کے ساتھ سسرال میں قدم رکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اپنی آزاد زندگی میںبھی قدم رکھ رہی ہے میکے کی پابندیوں سے آزاد!
کچے ذہہنوں کی لڑکیاں اس کو ذہہن میں بسا کر سسرال میں قدم رکھتی ہیں اور شوہر پر اس کی کمائی پر اس کی محبت پر اپنا حق سمجھتی ہیں
وہ صرف اپنے حقوق کے بارے میں ہی جانتی ہے کہ فرائض کیا ہیں اس سے نا آشنا ہوتی ہے ذہہن میں تو مکمل خمار ہوتا ہے مکمل آزادی کا
لڑکی سب رشتوں کو بھلا کر صرف شوہر سے مطلب رکھنا چاہتی ہے یہیں سے گلے شکوے اور رنجشیں جنم لیتی ہیں اور آہستہ آہستہ پورے گھر کے ماحول پر اثر انداز
ہو کر اسے خراب کرتی ہیں
اس کے نتیجے میں وہ عوامل جنم لیتے ہیں ایک تو یہ کہ اگر شوہر سادہ مزاج ہوگا تو بیوی اثر انداز ہو کر الگ گھر لے کر رہنے مجبور کر دے گی اور اگر شوہر سخت مزاج کا اور تھوڑا وکھڑی ٹائپ ہو گا تو بیوی میکے میں بیٹھی ہو گی زیادہ بات بگڑ گئی تو نوبت طلاق تک بھی پہنچ سکتی ہے سو لڑکی کی پرورش بہت دھیان سے کرنی چاہیے ورنہ لڑکی لڑکے کے ساتھ دو خاندان بھی ڈسٹرب ہونگے،بری سوچ ساری برائی کی جڑ ہے اور ان خوبصورت رشتوں میں دراڑیں ڈال دیتی ہے ساس بہو کی ہر بات میں مین میخ نکالنا اپنا فرض سمجھتیں ہیں
خاص طور پر بیٹے کے سامنے بہو کی برائیاں کی جاتی ہیں تاکہ بہو بیٹے کے دل میں گھر نہ کر لے اور مجھ سے میرا بیٹا چھین نہ لے،بہو کے گھر آتے نندیں کام کاج سے ہاتھ اٹھا لیتی ہیں
جیسے بھابی نہیں نوکرانی گھر لائی ہوں لڑکی کے گھر والوں کی برملا برائی لڑکی کے سامنے کی جاتی ہے اور جہیز میں لائی گئی چیزوں کو کم قیمت اور سستا بتایا جاتا ہے یہ ہی چھوٹی چھوٹی باتیں آخر کار لڑائیوں کا موجب بنتی ہیں اگر لڑکے کے گھر والے شروع دن سے یہ بات سمجھ لیں کہ آنے والی بھی ان کی اپنی بیٹی ہے تو مسائل جنم ہی نہ لیں،،ہر ساس یہ سوچ لے کہ بہو اس کے لئے ایسے ہی ہے جیسے اس کی بیٹی اور وہ اپنی بہو کی تکلیف کو ایسے ہی محسوس کرے جیسے کہ اپنی سگی بیٹی کی تکلیف پڑ تڑپ محسوس ہوتی ہے،اور بہو بھی ساس کو شوہر کی ماں اپنی دشمن شوہر کو اپنی جانب کھینچنے والی سمجھنے کے بجاۓ ساس کو ماں سمجھے اور شوہرکو جو کہ پہلے ان کا بیٹا ہے انہیں وقت دینے کے لئے کہے بےشک وہ دونوں کے لئے جنت ہیں
اگر یہ سب ہو تو کسی گھر میں ساس بہو کا وجود نہ ہو بلکہ ہر ساس ماں ہو اور ہر بہو بیٹی! انصاف کے ساتھ گھر کے تمام رشتوں میں توازن رکھے تو کسی کو شکایت نہ ہو گی،اب سب سے اہم شخصیت شوہر کی بات کی جاۓ جس کے سہارے ایک لڑکی اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر انجان لوگوں میں آکر رہتی ہے،،نئے طور طریقوں کو اپناتی ہے شوہر کے سرد گرم رویوں کو برداشت کرتی ہیں لیکن اگر وہ بیوی کو عزت و احترام نہ دے اس کا مذاق اڑاۓ طنز سے
کام لے کر اس کو نیچا دکھانے کی کوشش کرے تو یہ سب سے قریبی رشتہ بہت دور ہو جاتا ہے
شوہر صرف شوہر ہی نہیں ہوتا
اب سب سے اہم شخصیت شوہر کی بات کی جاۓ جس کے سہارے ایک لڑکی اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر انجان لوگوں میں آکر رہتی ہے
نئے طور طریقوں کو اپناتی ہے شوہر کے سرد گرم رویوں کو برداشت کرتی ہیں لیکن اگر وہ بیوی کو عزت و احترام نہ دے اس کا مذاق اڑاۓ طنز سے
کام لے کر اس کو نیچا دکھانے کی کوشش کرے تو یہ سب سے قریبی رشتہ بہت دور ہو جاتا ہے
شوہر صرف شوہر ہی نہیں ہوتا،،بلکہ ایک بیٹا،اور بھائی بھی ہوتا ہے
اس لئے اس کے کندھوں پر بڑا بوجھ ہوتا ہے اب یہ اسکی صلاحیتوں پر مخصر ہے کہ وہ سارے رشتوں کے درمیان کیسے توازن رکھتا ہے جہاں بیوی سے گھر والوں کی عزت کروانی چاہیے وہیں ماں باپ بہن بھائیوں اور بیوی کے درمیان انصاف اور رشتوں کو اس کے تناسب کے ساتھ رکھنا چاہیے.بیوی کے گھر والوں کی عزت ایسے ہی کریں جیسے کہ اپنے گھر والوں کی تاکہ بیوی کے دل میں شوہر کی محبت اور اس کے گھر والوں کی عزت دوچند ہو جاۓ،بہرحال! یہ ایک بہت بڑی معاشرتی مذہبی اور سماجی دمہ داری ہے جو شادی شدہ لوگوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس تجربہ سے سب کو گزرنا پڑتا ہے لیکن شادی کوئی قید کا نام نہیں نہ ہی یہ ایسی آزادی ہے جو ہر چیز سے ناآشنا کر دے بلکہ یہ ایک مقدس فریضہ ہے جو اپنے اندر
حقوق و فرائص کی لمبی فہرست رکھتا ہے،
Bookmarks