روح، روحانیت، روحانی خواص و اثرات اور انرجی کا حصول
اللہ تعالی نے اس دنیا کا نظام اَسباب و علل کے ساتھ مربوط کر دیا ہے، تاہم اپنی قدرت کے اظہار کیلیے بعض اوقات اللہ تعالی کوئی ایسا معاملہ ظاہر فرما دیتے ہیں جو اس کائنات کے نظام کار اور اس کے اسباب و علل سے ماوراء ہوتا ہے، اسے معجزہ کہتے ہے اور یہ نبیوں اور رسولوں کے ہاتھوں ظاہر ہوتا ہے مثلاً حضرت صالح علیہ السلام کیلیے اللہ تعالی نے پہاڑ سے زندہ اونٹنی نکال دی، حالانکہ اونٹ پہاڑوں سے پیدا نہیں ہوتے اور نہ ہی حضرت صالح علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کیلیے کبھی پہاڑ سے کوئی اونٹ نکلا ہے۔
اور اگر معجزات سے ملتی جلتی کوئی چیز کسی نیک شخص کے ہاتھوں ظاہر ہو تو اسے کرامت کہا جاتا ہے۔ گویا کرامت بھی اسباب و علل سے ماوراء ہوتی ہے اور یہ بھی اللہ کے حکم سے ظاہر ہوتی ہے، وگرنہ کوئی نیک بندہ اگر یہ چاہے کہ میں جب چاہوں، کوئی نہ کوئی کرامت ظاہر کر دوں تو یہ اس کیلیے ممکن ہی نہیں ہے۔ انبیاء سے بھی لوگ مطالبے کیا کرتے تھے کہ کوئی معجزہ ظاہر کریں تو انبیاء ان کو جواب میں یہی کہا کرتے تھے کہ
قَالَتۡ رُسُلُہُمۡ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یَدۡعُوۡکُمۡ لِیَغۡفِرَ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرَکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ؕ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا کَانَ یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ
{سورہ ابراہیم: 11}
"ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے، اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزہ تمہیں لا دکھائیں۔"
مادہ پرست لوگ معجزات و کرامات کو تسلیم نہیں کرتے، ان کے بقول کائنات کی ہر چیز اسباب و علل کے ساتھ مربوط ہے۔ جب اسباب و علل کا یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا تو کائنات خود ہی تباہ ہو جائے گی، گویا ان کے بقول کائنات کا سارا نظام اسباب و علل کی بنیاد پر خود بخود چل رہا ہے، اسے چلانے والی کوئی مقتدر ہستی موجود نہیں۔ بعض کے بقول کائنات کو پیدا تو اس ذات نے کیا ہے جسے اللہ، خدا وغیرہ کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے، تاہم اس نے کائنات بنا کر اسباب و علل کا تعین کر دیا اور اس کے بعد یہ نظام از خود چلتا چلا جا رہا ہے۔ گویا کائنات بنانے کے بعد وہ اللہ اس کائنات سے ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا ہے یا دوسرے لفظوں میں وہ اتنا بے اختیار ہو گیا ہے کہ اپنے ہی بنائے ہوئے نظام میں ذرا سی تبدیلی یا کمی بیشی بھی اب نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔نعوذ باللہ
ظاہر ہے یہ سب غیر اسلامی تصورات ہیں اور حقیقت حال یہ ہے کہ کائنات اللہ تعالی نے پیدا کی ہے، اس کا نظام بھی وہی چلا رہا ہے، اسے اسباب و علل کے ساتھ بھی اسی نے مربوط کر رکھا ہے لیکن وہ ان اسباب و علل کا محتاج نہیں بلکہ وہ جب اور جہاں چاہے، اسباب و علل کے قانون کو توڑ سکتا ہے۔ بہت سے مواقع پر وہ ایسا کرتا بھی ہے۔ مگر وہ ایسا کیوں کرتا ہے، اس کی ذات سے یہ سوال کرنے کے ہم مجاز ہی نہیں، تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہ حکیم و دانا بغیر کسی حکمت کے ایسا نہیں کرتا۔ بعض حکمتیں ہمیں سمجھ آ جاتی ہیں اور بعض سمجھ نہیں آتیں، مثلا معجزات کے سلسلے میں ایک حکمت یہ سمجھ آتی ہے کہ اس طرح وہ اپنی قوت و طاقت اور اپنے نبیوں کی صداقت ظاہر کرتا ہے، نیز ان لوگوں کو اپنی ذات کا وجود منواتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات کا نظام خود بخود چل رہا ہے۔ بہر حال اس کے کام کی کوئی حکمت ہمیں سمجھ آئے یا نہ، ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اس حقیقت کو ماننا چاہیے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور اپنی قدرت ظاہر کرتا ہے۔
مادہ پرستوں سے متاثر بعض مسلمان بھی معجزات کے حوالے سے عجیب و غریب توجیہات کرتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح انہیں اسباب و علل کے ساتھ مربوط کر دکھائیں۔ یہ رویہ صرف مسلمانوں ہی میں نہیں بلکہ یہود و نصاری کے ہاں بھی پایا جاتا ہے، اسلیے کہ یہود اور عیسائی جن پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں، ان میں سے بعض کے ہاتھوں اللہ تعالی نے معجزات بھی ظاہر کیے تھے۔ اس سلسلہ میں حضرت داود، سلیمان، موسی، عیسی علیہ السلام واجمعین کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
جو لوگ معجزات و کرامات کو اسباب و علل کے تابع قرار دینے پر مصر ہیں، ان کے بقول انبیاء کے ہاتھوں جو معجزے ہوئے، وہ مافوق الفطرت کام نہیں تھے بلکہ ہر انسان توجہ، محنت اور کوشش سے ویسے ہی بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ اسے وہ ذہنی طاقت، اور بقول بعض 'روحانیت' کا کمال کہتے ہیں،یہی حال آج کال نام نہاد صوفی اور مراقبہ حال سجانے والے خواجہ عظیمیوں کا ہے، بلکہ ایک صاحب نے تو یہاں تک دعوی کر ڈالا کہ
"انبیاء نے معجزات پیش کیے، وہ دراصل یہ دکھانے کیلیے تھے کہ ہر انسان میں ایسی مخفی طاقتیں موجود ہیں جن کی مدد سے بلاتفریق مذہب انسان بڑے بڑے کام کر سکتا ہے۔"
{دیکھیے: روحانیت، دانش اور حقیقتیں، از: قمر اقبال صوفی، اورینٹل پبلی کیشنز}
بعض غیر مسلم فلاسفہ کے بقول اس کائنات کا نظام ایک مخفی قوت یا غیر محسوس انرجی چلا رہی ہے اور یہ انرجی کائنات کی ہر چیز میں نفوذ کیے ہوئے ہے۔ اسلیے کائنات کی ہر چیز سے مخفی طاقت نکل رہی ہے اور خود انسان میں بھی کئی ایک مخفی طاقتیں موجود ہیں۔ ان مخفی طاقتوں کے حصول کیلیے مختلف ادارے بنائے گئے ہیں جیسا کہ مشہور عظیمی سلسلہ جنہوں نے مراقبہ حال تیار کیے رکھے ہیں جن میں انسانوں کی ان مخفی طاقتوں کو بیدار کرنے کیلیے عجیب و غریب کورسز کرائے جاتے ہیں۔ یہ بات اب غیر مسلم ہی نہیں، بہت سے مسلمان بھی کرنے لگے ہیں۔ پاکستان میں بھی بعض ایسے ادارے موجود ہیں جہاں انسانی توانائی کو مرتکز کر کے اس سے عجیب و غریب کام لینے کی صلاحیت بیدار کرنے کی کوششیں کرائی جاتی ہیں۔
ان اداروں میں بعض وہ ہیں جو اپنے آپ کو غیر مذہبی باور کراتے ہیں اور اپنے طریق کار کو سائنٹفک کرار دیتے ہیں۔ شاید اسلیے بھی کہ ان کے نزدیک انسان اپنی توانائی سے کام لے تو وہ ہر طرح کی 'کرامتیں' ظاہر کر سکتا ہے۔ جب کہ بعض مذہب اور روحانیت کی آڑ میں یہی کام انجام دے رہے ہیں۔ دونوں طرح کے اداروں میں ایک بنیادی نکتہ اعتراض اختلاط مرد و زن اور نماز وغیرہ جیسی اہم عبادات سے لاپرواہی ہے اور قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں طرح کے ادارے انسان کی مخفی طاقتوں کو بیدار اور متحرک کرنے میں مصروف ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک اسے 'انرجی' قرار دیتا ہے اور دوسرا 'روحانیت'۔
یہاں آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ جن اداروں میں لمبے مراقبے کروائے جائیں اور نمازیں بھی ان کی نذر کر دی جائیں، ستر و حجاب کی حدود کا کوئی خیال نہ رکھا جائے تو وہاں کون سی مخفی طاقت اور روحانیت بیدار کی جاتی ہوگی۔ {یہ صرف تجزیاتی سوال ہے، باقی تبصرہ مراقبہ اور چلہ کشی والے تھریڈ میں تفصیل سے مذکور ہے}
مسلمانوں میں بہت سے صوفیاء کے ہاں یہ تصور پایا جاتا رہا ہے کہ انسان ریاضتوں، مجاہدوں اور وظیفوں کے ساتھ ایسی طاقت حاصل کر سکتا ہے کہ وہ جب چاہے، عجیب و غریب کرشمے ظاہر کر سکتا ہے۔ غیب کے پردے اس کی باطنی نظر کے سامنے ظاہر کر دیے جاتے ہیں اور وہ ماضی، مستقبل اور قسمت سے متعلقہ تمام غیبی معلومات حاصل کر لیتا ہے۔ بعض صوفیاء کے بقول اس مقصد کیلیے از خود محنت کی ضرورت نہیں بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ کسی عامل، پیر، مرشد کو تلاش کرے اور اس کی خدمت کیلیے اپنے آپ کو وقف کر دے۔ اس طرح پیر و مرشد کی محض نظر و کرم سے یہ روحانی طاقت اسے حاصل ہو جائے گی۔
روحانی طاقت حاصل کرنے کیلیے صوفیاء کے ہاں ورد اور ریاضتیں مخصوص ہیں۔ یہ ورد متعین تعداد اور مخصوص طریق کار کے ساتھ کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اپنی مرضی سے کام لینا اس راہ میں قابل گردن زنی قرار پاتا ہے۔ اور بار ہا یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی وظیفہ استاد کے بغیر نہ پڑھیں، ورنہ الٹا پڑ جائے گا۔ عامل، پیر وغیرہ حضرات اپنے شاگرد کو مخصوص عمل بتاتے اور اور خاص اوقات میں وہ عمل پیر و مرشد کی نگرانی اور حکم پہ کیا جاتا ہے۔ ان میں اس طرح کی باتیں مشہور کی جاتی ہیں کہ فلاں نے بغیر استاد کے فلاں قرآنی دعا یا مسنون وظیفہ پڑھا، مگر اس کے باوجود اس پر الٹ اثر ہو گیا۔ حالانکہ اگر وہ قرآنی دعا تھی تو اسے پڑھنے سے الٹا اثر کیسے ہو سکتا ہے، کیا قرآن کریم اپنے پڑھنے والوں کیلیے شفاء ہے یا الٹا اثر کرتا ہے؟؟؟ فتدبر
اسی طرح جن وظائف و اذکار کی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین کی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ انہیں پڑھنے کیلیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مزید کسی کی تصدیق یا اجازت کی ضرورت باقی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ان شاء اللہ
Bookmarks