انٹرنیٹ کی دنیا میں ہمارے سفر کو ممکن بنانے والے سرچ انجن ہمارے بارے میں بہت کچھ جان لیتے ہیں، مثلاً ہمارے کمپیوٹر کا آپریٹنگ سسٹم کیا ہے، ہم کون سا براؤزر استعمال کر رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم عموماً کون سی ویب سائٹس پر جاتے ہیں۔ یورپ میں گُوگل کی پرائیویسی پالیسی پر حالیہ بحث کے پس منظر میں ہمارے ٹیکنالوجی ایڈیٹر ڈیرن واٹرز نے درج ذیل میں اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ آخر مختلف سرچ انجن اور دیگر ویب سائٹ اپنے صارفین کے بارے میں کیا کیا معلومات اکھٹی کر لیتے ہیں۔

مجھے یہ سب اس لیے پتہ ہے کہ گوگل مجھے یہ بتاتا ہے۔ چونکہ میرے پاس گوگل کا اکاؤنٹ ہے اور میں نےگوگل سے یہ معلومات دینے کی درخواست بھی کی ہوئی ہے، اس لیے یہ سرچ انجن میرے ہر مرتبہ انٹرنیٹ استعمال کرنے کے بارے میں معلومات جمع کرتا رہتا ہے۔

یہ معلومات خاصی تفصیل میں ہوتی ہیں۔ ان سے مجھے پتا چلا ہے کہ میں اپنا سرچ انجن زیادہ تر صبح گیارہ بجے اور دوپہر کے درمیانی وقت میں استعمال کرتا ہوں، لیکن یہ بھی کہ میں سرچ انجن کے علاوہ شام کو بھی انٹرنیٹ خاصی دیر استعمال کرتا ہوں۔

میرا سرچ انجن مجھے یہ بھی بتاتا ہے کہ میں کن چیزوں کی خریداری کے لیے انٹرنیٹ پر جاتا رہا ہوں، کن خبروں، کن تصویروں اور حتیٰ کہ کن علاقوں کے نقشوں کی تلاش کرتا رہا ہوں۔

گُوگل کے مطابق میں نے انٹر نیٹ پر سب سے زیادہ وقت مئی میں گزارا

اگر کوئی بھی شحض ان معلومات پر ایک نظر ڈالتا ہے تو اسے میرے طرز زندگی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ نہ صرف اس کا کہ میرے شوق کیا ہیں بلکہ میری حرکات و سکنات کا بھی۔ گوگل کو یہ بھی پتہ ہے کہ پچھلے ہفتے میں رچمنڈ کے علاقے میں ایک حجام کی دکان کا پتہ بھی ڈھونڈ رہا تھا۔

گوگل کے علاوہ یاہُو اور ایم ایس این بھی میرے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ اگرچہ میں ان دونوں کے سرچ انجن استعمال نہیں کرتا لیکن ان اداروں کے پاس بھی میرے بارے میں بنیادی معلومات موجود ہیں کیونکہ یہ معلومات مجھے اس وقت دینا پڑی تھیں جب میں نے ان ویب سائٹس پر ’سائن اِن‘ کیا تھا۔

اور یہی وہ بات ہے جو صارفین کی پرائیویسی کے ماہرین یعنی کسی صارف کی ذاتی معلومات اکھٹی کرنے والی ویب سائٹس کے بارے میں اقدامات کا سوچنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ لوگ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ذاتی معلومات محفوظ رہیں اور یہ کسی دوسرے کی دسترس میں نہ جائیں۔

ویب سائٹس کے پاس کسی صارف کے رویے کا جائزہ لینے کے لیے سب سے آسان نسخہ کُکیز (cookies) ہیں۔ کُکیز ان چھوٹی چھوٹی فائیلوں کو کہتے ہیں جو آپ کے انٹرنیٹ پر جانے کی صورت میں آپ کے کمپیوٹر میں محفوظ ہوجاتی ہیں۔

گوگل کو معلوم ہے کہ پچھلے ہفتے میں ایک حجام کی دکان کا پتہ بھی ڈھونڈ رہا تھا

کسی بھی کمپیوٹر میں موجود ہر کُکی کے اندر ایک خفیہ نمبر (یا مخفف) بھی ہوتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے کسی ویب سائٹس پر جانے کے لیے وہ کمپیوٹر بھی استعمال کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یاہُو اور گُوگل جیسی کمپنیاں یہ معلومات جمع کیوں کرتی ہیں؟

اس کا سادہ ترین جواب تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ کمپنیاں ایسا ہماری سہولت کے لیے کرتی ہیں۔ یعنی ہم جب بھی انٹرنیٹ استعمال کریں ہمیں غیر ضروری دقت نہ ہو۔ مثلاً کُکیز میں ہماری ترجیحات (پpreferrences) بھی سٹور ہوتی ہیں، جیسے ہم کس زبان میں انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کُکیز ویب سائٹ کو یہ بھی بتاتی ہیں کہ اُس ویب سائٹ سے پہلے ہم کس سائٹ پر تھے اور یہ بھی کہ ہم اس کے بعد کس سائٹ پر جائیں گے۔

اگرچہ آپ براؤزر پر کُکیز کو بند یا آف بھی کر سکتے ہیں لیکن اس سے نقصان یہ ہوگا کہ کئی ویب سائٹس یا تو ٹھیک سے کام نہیں کریں گی اور یا کام کرنا بالکل بند کر دیں گی۔

صارف کا رویہ جاننے کے لیے یاہُو، گوگل اور مائیکروسوفٹ اپنی سائٹس پر کُکیز کے علاوہ ننھی سی الیکٹرانک تصاویر یا امیج بھی استعمال کرتے ہیں جنہیں ویب بیکنز (web beacons) کہتے ہیں۔

یہ کپمنیاں ان چھوٹی چھوٹی تصاویر سے پیسے بناتی ہیں کیونکہ دراصل یہ اُن اشیاء کے اشتہارات ہوتے ہے جو ویب سائٹ کسی مخصوص صارف کے رویے اور شوق کو پیش نظر رکھ کر تجویز کرتی ہے۔

یاہُو کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ صارف کی مرضی کے بغیر ذاتی معلومات کسی کو نہیں دیتے

کاروباری اور اشتہاری کمپنیاں ویب سائٹس پر اشتہار دینا بہت پسند کرتی ہیں کیونکہ جب کوئی صارف ویب سائٹ پر ان کے اشتہار پر کِلک کرتا ہے تو وہ براہ راست اس کمپنی تک پہنچ جاتا ہے۔

اس کا مطلب شاید یہ ہوا کہ ہماری ذاتی معلومات سرچ انجن یا ویب سائٹیس کے علاوہ مختلف کاروباری اور اشتہاری کمپنیوں تک بھی پہنچ جاتی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا یہ معلومات کسی تیسری پارٹی تک بھی پہنچ جاتی ہیں؟

گُوگل کی عالمی پرائیویسی کونسل کے رکن پیٹر فلیچر کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا۔ ’ گُوگل کے کسی بھی صارف کے بارے میں معلومات کسی تیسرے ادارے یا پارٹی کو نہیں دی جاتیں، حتیٰ کہ اشتہاری کمنپیوں کو بھی نہیں۔ ہم صارف کا ذاتی نمبر، اس کا آئی پی ایڈریس اور اکاؤنٹ کی تفصیلات کسی دوسرے فریق کو نہیں دیتے۔‘

یاہُو اور ایم ایس این کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ صارف کی مرضی کے بغیر اس کی ذاتی معلومات کسی کو بھی نہیں دیتے۔

ان کپمنیوں کے بقول ہوتا یہ کہ وہ صارف کی ترجیحات کی روشنی میں اس کا ایک پروفائل بناتی ہیں اور اشتہاری اور کاروباری کمپنیاں اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے صارف کی ذاتی تفصیلات کی بجائے اس کا پروفائل استعمال کرتی ہیں۔ یاہُو اپنے اکاؤنٹ ہولڈر کی ذاتی معلومات کا صرف وہ حصہ استعمال کرتا ہے جس سے اس صارف کی شناخت خفیہ رہتی ہیں لیکن اس کے شوق اور ذاتی ترجیحات اشتہاری کمپنیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔

آپ کی شرائط پر
ہوگا یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ کہنے کا حق ہوگا کہ وہ انٹرنیٹ کو کن شرائط پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی ذاتی معلومات دینا چاہتے ہیں یا یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو ایک مخصوص خفیہ پروفائل کے حوالے سے ویب سائٹ پر جانا جائے

پیٹر فلیچر

یاہو کے برعکس گُوگل اس وقت تک کسی صارف کی ویب ہسٹری استعمال نہیں کرتا جب تک کہ اس میں صارف کی رضامندی شامل نہ ہو۔ اسی طرح گُوگل صرف اسی صورت میں صارف کے بارے میں معلومات محفوظ کرتا ہے جب وہ اس کی اجازت لے چکا ہوتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی صارف کی ذاتی معلومات کا کسی کمپنی تک اس صورت میں پہنچنا کہ اس کمپنی کو صارف کا نام پتہ وغیرہ نہ معلوم ہو سکے، کوئی فکر مندی کی بات ہے یا نہیں؟

مسٹر فلیچر کا کہنا ہے کہ اس چیز سے بچنا مشکل ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے بارے میں معلومات انٹرنیٹ کی دنیا میں جمع نہ ہوں لیکن ان کے خیال میں اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے آپ کی پرائیویسی کو کوئی خطرہ ہے۔

ان کا کہنا ہے ’ ہوگا یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ سرچ انجن آپ کو زیادہ سے زیادہ انتخاب کی سہولتیں دینے لگیں گے۔ یہ میرا محض خیال ہے لیکن مجھے امید ہے کہ لوگوں کو یہ کہنے کا حق ہوگا کہ وہ انٹرنیٹ کو کن شرائط پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی ذاتی معلومات دینا چاہتے ہیں یا یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو ایک مخصوص خفیہ پروفائل کے حوالے سے ویب سائٹ پر جانا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا ’ ہم ایک ایسی نسل ہیں جو کہ تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ بحثیت فرد اور ایک معاشرے کی حیثیت سے ہمیں سیکھنا ہوگا کہ ہم کس طرح کی شناخت چاہتے ہیں۔ ہم ویب سائٹ پر گمنام رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں یا ایک دوسرے نام کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔

فلیچر کے بقول انٹرنیٹ ٹیکنالوجی بنانے والی کمپنیاں ایسی چیزیں بناتی رہیں گی جو آپ کو مختلف سہولتیں مہیا کریں اور اگلے پانچ برسوں میں یہ چیز ہماری زندگی کا حصہ بن جائے گی کہ ہم کسی سرچ انجن پر اپنی کیا شناخت رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘