انٹرنیٹ پر چیٹ، ای میل، آن لائن فورمز، بلاگز وغیرہ جیسے بے تعّصبانہ مواصلاتی ذرائع کی موجودگی، سائبر سپیس کا معاشرے میں رائج سماجی اور تہذیبی امتیازی اقدار سے بالا تر ایک ایسی ورچول دنیا کا تصور پیش کرتی ہیں جہاں جنسی مساوات کی گنجائش روایتی دنیا سے زیادہ ہے۔ لیکن کیا پاکستان میں انٹرنیٹ سے منسلک فوائد اور سہولتوں سے مرد اور عورتیں یکساں مستفید ہو رہے ہیں یا پھر انٹرنیٹ سے وابستہ جنسی مساوات کا تصور فرضی ہے ؟
اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے میں نے مختلف طبقوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والی خواتین سے رجوع کیا اور ان کے انٹرنیٹ کے استعمال کا رجحان جاننے کی کوشش کی۔
حفصہ عادل کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے متعلق ایک ماہانہ جریدے میں صحافیانہ خدمات بھی انجام دیتی ہیں۔ سپورٹس خصوصاً کرکٹ اور فٹبال کا شوق جنون کی حد تک ہے، اس لیے دفتری اوقات میں بھی وقتاً فوقتاً دیگر سپورٹس ویب سائٹس دیکھنا حفصہ کے لیے لازمی ہے۔
ای میل، چیٹ، بلاگ پڑھنے اور گانے ڈاؤن لوڈ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی، تفریحی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے لیے انٹرنیٹ کی اہمیت کو وہ یوں تسلیم کرتی ہیں ’ کوئی بھی فیچر یا آرٹیکل لکھنے سے پہلے میں اس موضوع کے بارے میں انٹرنیٹ پر چھان بین کرنے کو ترجیح دیتی ہوں ـ اسی طرح پڑھائی کے سلسلے میں پہلے لائبریری جا کر کتابیں چھاننی پڑتی تھیں، لیکن اب انٹرنیٹ پر ہی زیادہ تر تدریسی مواد مل جاتا ہے جس سے کافی آسانی ہوگئی ہے اور وقت کی بھی بچت ہو تی ہے۔
اس نظریہ کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے کراچی کی نائب ناظمہ نسرین جلیل سے ان کے انٹرنیٹ کے استعمال کے بارے میں جاننا چاہا تو انہوں نے انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ گو وہ کمپیوٹر کو استعمال کرنا تو جانتی ہیں اور اپنے پاس ایک لیپ ٹاپ بھی رکھتی ہیں، تاہم کام اور دیگر مصر وفیات کے وجہ سے انٹرنیٹ پر وقت نہیں گزارتی‘۔
یہاں تک کہ اپنا ای میل ایڈرس ہونے کے باوجود وہ کسی اور سے ای میلز چیک کرواتی ہیں۔
اس کے بر عکس رملہ ذیشان ایک خاتون خانہ ہیں۔ شادی کے بعد کراچی سے جا کر جدہ میں رہائش پذیر ہیں۔ جلد شادی ہو جانے کی وجہ سے رملہ اپنی بی اے کی تعلیم تو مکمل نہیں کر پائیں مگر انٹرنیٹ سے صحت اور غزا کے متعلق معلومات اکٹھی کر نے کی وجہ سے وہ اپنے خاندان میں ’عالم الغذا‘ کی پہچان رکھتی ہیں۔
رملہ کا کہنا تھا ’سعودی عرب میں چونکہ انٹرنیٹ کنکشن کافی مہنگا ہے اس لیے میں روز ایک گھنٹہ سے زیادہ انٹرنیٹ پر وقت نہیں گزار پاتی ہوں اور میری کوشش ہو تی ہے کہ اس ایک گھنٹہ میں زیادہ سے زیادہ ویب پیجز کمپیوٹر پر محفوظ کر لوں اور پھر آف لائن ہو نے کے بعد آرام سےان کا مطالعہ کرتی ہوں۔
سعودی عرب میں مہنگا انٹرنیٹ
سعودی عرب میں انٹرنیٹ کنکشن کافی مہنگا ہے اس لیے میں روز ایک گھنٹہ سے زیادہ انٹرنیٹ پر وقت نہیں گزار پاتی ہوں اور میری کوشش ہو تی ہے کہ اس ایک گھنٹہ میں زیادہ سے زیادہ ویب پیجز کمپیوٹر پر محفوظ کر لوں
رملہ
صحت، ورزش، کھانے پکانے اور غذا کی ویب سائٹس کے علاوہ میں اردو شاعری اور دینی ویب سائٹس بھی دیکھتی ہوں اور وائس چیٹ کے ذریعے کراچی میں بھائیوں سے بھی رابطہ رہتا ہے۔ مجھے انٹرنیٹ پر خبروں کے علاوہ باقی سب چیزیں پڑھنے کا شوق ہے۔ شادی سے پہلے میں نے کمپیوٹر کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔ تب تو کمپیوٹر مانیٹر اور اصل کمپیوٹر کے درمیان فرق بھی معلوم نہیں تھا پر اب تو یہ حال ہے کہ انٹرنیٹ کے بغیر اکیلا پن لگتا ہے‘۔
کچھ اس ہی قسم کے خیالات فرح محمود کے بھی ہیں جوایک انجنیئر ہیں اور پشاور کی نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز میں تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ فرح کے خیال میں جو تعلیمی یا پیشہ ورانہ کامیابیاں انہوں نے اب تک حاصل کیں ہیں انٹرنیٹ کی غیر موجودگی میں اس مقام تک پہنچنے کے لیے شاید ان کو دگنی جستجو اور وقت درکار ہوتا۔
انٹرنیٹ سے فرح کا تعارف سات سال پہلے ہوا تھا جب وہ کالج میں پڑھ رہی تھیں۔ فرح نے بتایا ’ابتدا میں انٹرنیٹ کی اصل طاقت اور اہمیت سے آشنائی نہ تھی اور میری آن لائن مصر وفیات ای میل اور کمپیوٹر گیمز کے کریکز اور گرُ کی تلاش تک محدود تھیں۔ دفتر میں تو اب میں روزانہ اوسطاً چھ گھنٹہ آن لائن ہو تی ہی ہوں پر گھر پر بھی ایک دو گھنٹہ انٹرنیٹ پر گزرجاتے ہیں۔ فی الحال میری آن لائن سرگرمیاں، ای میل، ٹیکسٹ اور وائس چیٹ سمیت تدریس اور دیگر ریسرچ پیپرز کے حوالے سے مواد تلاش کرنے اور آن لائن ٹیوٹوریلز اور ویبینارز کی شکل میں اتالیقی مواد تک رسائی پر مبنی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ میں انجینئرنگ اور آئی ٹی کے متعلق چند بین الاقوامی تنظیموں کی ممبر بھی ہوں۔ آن لائن گروپس کی صورت میں ان تنظیموں کے بقیہ ممبران سے رابطہ اور تبادلہ خیال بھی ہو تا ہے اور جب میں اپنے کمپیوٹر پر موجود گانوں اور موسیقی سے اکتا جاتی ہوں تو انٹرنیٹ پر ریڈیو سن لیتی ہوں‘۔
پاکستانی خواتین میں انٹرنیٹ کا شعور اور استعمال کے بارے میں فرح نے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے کہا ’میرے خیال میں بڑی عمر کی خواتین اور خاتون خانہ عموماً کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استمعال کرنے سے کتراتی ہیں، جس کی وجہ تکنیکی سوجھ بوجھ کی کمی ہو سکتی سے یا پھر وہ شوق کی کمی کے بنا پر گھریلو مصروفیات میں سے وقت نکال نہیں پاتیں ہیں۔ بعض اوقات ان کی انٹرنیٹ کا بنیادی استعمال سکھانے والے کسی شخص تک رسائی بھی نہیں ہوتی۔ مگر جب ان ہی خواتین کو اپنے پیشہ یا کام کی وجہ سے انٹرنیٹ استعمال کرنا پڑ تا تو وہ اپنی ہچکچاہٹ پر قابو پا لیتی ہیں‘۔
نادیہ حسین ایک ماڈل ہونے کے ساتھ ساتھ دو بچوں کی ماں بھی ہیں۔ اپنے بیٹے کے لیے سکول کا انتخاب کس طرح کیا جائے آجکل انٹرنیٹ پر نادیہ کی سب سے اہم سرگرمی ہے۔ بیٹی کی ولادت سے قبل، نام کا انتخاب کرنے کے لیے بھی نادیہ نے سائبر سپیس کا ہی رخ کرنا پسند کیا۔ نادیہ کے خیال میں ’انٹرنیٹ کی وجہ سے ہر قسم کی معلومات تک رسائی نہایت آسان ہوگئی ہے اور ماڈلنگ جیسے پیشے میں آن لائن پورٹ فولیو بین الاقو امی ماڈلنگ کے مواقع یا پیشکش حاصل کرنے میں مدد گار ہوسکتا ہے‘۔
ماضی سے تعلق
’نو سال قبل بطور طالبہ جب میں نے انٹرنیٹ کا استعمال شروع کیا تھا تب میں اس کے ذریعہ پڑھائی میں معاونت لینے سے گریز کرتی تھی پر اب انٹرنیٹ کی بدولت اپنے ماضی سے اس وقت دوبارہ متعارف ہوئی جب میں نے پرانے دوستوں کے نام انٹرنیٹ پر تلاش کیے
صدف
اپنے مقصد کے لیے انٹرنیٹ کا موزوں استعمال کرنے کی ایک اور مثال کراچی میں انگریزی تدریس سے وابستہ صدف ہلائی بھی ہیں۔ ان کے انٹرنیٹ مشاغل میں بلاگنگ، آن لائن سکریبل کھیلنا سے لے کر تدریس اور دیگر رسائل کے لیے فیچر لکھنے کے لیے مواد تلاش کرنا شامل رہے ہیں۔ صدف کے مطابق ’نو سال قبل بطور طالبہ جب میں نے انٹرنیٹ کا استعمال شروع کیا تھا تب میں اس کے ذریعہ پڑھائی میں معاونت لینے سے گریز کرتی تھی پر اب انٹرنیٹ کی بدولت اپنے ماضی سے اس وقت دوبارہ متعارف ہوئی جب میں نے پرانے دوستوں کے نام انٹرنیٹ پر تلاش کیے اور ان سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئی،۔
نہ صرف یہ بلکہ اپنے نانا کی علالت کے دوران صدف نے اپنی والدہ کو انٹرنیٹ پر ان کی بیماری کے بارے میں معلومات تلاش کرنا بھی سکھایا جس کے بعد بقول صدف ان کی امّی گوگل کی ’سب سے بڑی مداح‘ ہوگئی ہیں۔
یہ تو تھیں کچھ تعلیم یافتہ، شہری خواتین کا انٹرنیٹ کی جانب رجحان اور استعمال کی چند چیدہ مثالیں، مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں آبادی کا ستر فیصد حصّہ دیہی علاقوں میں موجود ہے وہاں عورتیں تو کیا بیشتر مرد بھی آن لائن دنیا کی ’شہریت‘ لینے کی فکر سے آزاد، انٹرنیٹ کی افادیت اور رعنائیوں سے بے خبر اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی کشمکش میں لگے ہوۓ ہیں۔
اس صورتحال میں انٹرنیٹ سے آشنا ان چند خوش قسمت لوگوں میں شامل ہونے پر خوش ہونا مقصود ہے یا پھر ملک کی آبادی کے ایک وسیع حصّہ کا دور جدید کی ایک اہم ایجاد یعنی انٹرنیٹ سے محرومی پر ملال کرنا بجا ہے ؟ آپ کا کیا خیال ہے ؟
Bookmarks