غزل
چاہتوں کا گلاب ہو جاؤ
رشکِ عہدِ شباب ہو جاؤ
مجھ کو تعبیر کی نہیں خواہش
میری آنکھوں کا خواب ہو جاؤ
تم کو دریا اگر نہیں بننا
راستے کا سراب ہو جاؤ
میں مسافر ہوں راہِ الفت کا
تم مرے ہمرکاب ہو جاؤ
میں محبت کے لفظ لکھتا ہوں
تم وفا کا نصاب ہو جاؤ
پیار کی شبنمی ہوا ہوں میں
کھل کے تم بھی گلاب ہو جاؤ
میں سراپا سوال ہوں جاناں
تم مجسم جواب ہو جاؤ
پیاس بجھتی نہیں مری سو تم
میری خاطر سحاب ہو جاؤ
میری نظروں کا امتحاں ہو جائے
تم اگر بے نقاب ہو جاؤ
کام آ جائے میری ناکامی
تم اگر کامیاب ہو جاؤ
روشنی کی مجھے ضرورت ہے
تم فصیح آفتاب ہو جاؤ
Bookmarks