سیالکوٹ میں ہونے والے دو بھائیوں کے قتل کے بیہمانہ قتل کی مناسبت سے جوہر عباس صاحب نے یہ نظم لکھی ہے۔ قتل کی یہ واردات انسانیت کے منہ پر تمانچہ ہے. ظلم کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دے۔ اور مرنے والوں کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور دونوں بھائیوں کو جنت میں جگہ دے۔ آمین۔
لال یہ کس کا لہو میں لال ہو کر مر گیا
کون پھر س بے بسی کی بھینٹ چڑھ کر مر گیا
کاش اے دنیا تری چشم تماشا پھوٹ جائے
سامنے مرتے برادر کے برادر مر گیا
کیا بتائیں ہم تجھے اے حافظ قرآن کی ماں
کس شقی کے ظلم سے تیر گل تر مر گیا
واسطہ انسانیت کا ہے تجھے اے اولاد شمر
بخش دے میت کو،چھوڑ،بس کر، مر گیا
دل جسے کہتے تھے ہم لگتا ہے یہ شاید کہ وہ
حضرت انسان کے سینے کے اندر مر گیا
کیوں نہیں پھٹتی زمیں انسانیت کے بین سے
جانے یہ سیلاب کا پانی کہاں پر مر گیا
کاش یہ فقرہ فقط ہذیان کی اواز ہو
مقصد علامہ اقبال یکسر مر گیا
جوہر عباس
Bookmarks