جب مُجھے ہُوش آیا تو سب سے پہلے میں نے جس چیز کو مِحسوس کیا وہ میرے بدن میں اُٹھتی ہُوئی دَرد کی لہریں تھی پورے جسم میں اتنی شدید ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں ۔مانو جیسے کسی نے مجھے بُری طرح دھنک کر رکھ دِیا ہُو۔ لیکن یہ اِحساس بھی ذیادہ دیر قائم نہ رِہ سکا پھر مجھے اِحساس ہُوا کہ میرے بدن پر ایک بھی کپڑا موجود نہیں ہے ۔ ایک ہلکی سی شرم کی لہر میرے حَواس پر غالب ہُوئی لیکن جونہی میں نے اپنے اِرد گِرد کے ماحُول پر نِگاہ کی تو میں نے جانا کہ میں جس مقام پر موجود ہُوں ۔ وہاں کسی کے بھی جِسم پر پیراہن نام کی کوئی شئے موجود نہیں ہے۔
ہر طرف انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے لوگ کے جتھے کے جتھے یہاں سے وہاں پریشانی کی حالت میں دوڑ رہے تھے عجیب نفسا نفسی کا عالم تھا ۔ کانوں میں لوگوں کے سسکنے، بلکنے ، کی آوازیں اس کثرت سے آرہی تھیں ۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے لاکھوں مکھیاں ایک ساتھ بھنبھنا رہی ہُوں۔ یہ ماحُول دیکھ کر مجھے اِحساس ہُونے لگا کہ کوئی خاص واقعہ پیش آگیا ہے جسکی وجہ سے لوگ یوں سرگرداں نظر آرہے ہیں کہ اِنہیں یہ بھی اِحساس نہیں ہوپارہا کہ وہ بِنا لباس کے یوں بے پرواہ گھوم رہے ہیں اگرچہ یہ برہنگی بھی عجیب تھی کہ لوگ برہنہ بھی تھے لیکن ایک دھند نے ہر انسان کو اپنی لپیٹ میں لے رَکھا تھا جسکی وجہ سے وہ برہنہ ہونے باوجود بھی برہنہ نظر نہیں آرہا تھا۔
خیر میں نے ہِمت کی اور میں اُٹھنے میں کوشش کرنے لگا۔ موقع کی نزاکت نے ویسے بھی میری تکلیف کو بُہت کم کردِیا تھا جب میں زمیں سے اُٹھ کر کھڑا ہُوا تو مجھے معلوم ہُوا کہ میں ایک سپاٹ میدان میں کھڑا ہوں جہاں کروڑوں لوگوں کا مجمع موجود ہے۔ جہاں نِگاہ اُٹھاتا انجان ہراساں لوگوں کے چھٹ کہ چھٹ موجود نظر آرہے تھے پھر مُجھے محسوس ہُوا کہ اس میدان میں بلا کی تیز گرمی ہے جسکی وجہ سے زمین کسی جلتی ہُوئی دَھات کی طرح معلوم ہُورہی تھی۔ اور جب میں نے آسمان کی جانب نِگاہ اُٹھائی تو مجھے آسمان نام کی کوئی شئے نظر نہ آئی اب مُجھے حالات کی سنگینی کا مزید اِحساس ہُونے لگا تھا۔
میں نے ایک خوفزدہ نوجوان کو بھاگتے دِیکھا اس کا چہرہ مُجھے کُچھ جانا پہچانا مِحسوس ہورہا تھا لیکن وہ پہچانا نہیں جارہا تھا ۔۔میں نےبھی بے اِختیار اُس نوجوان کے ساتھ بھاگنا شروع کردِیا اور دوڑتے دوڑتے اُس نوجوان سے معلوم کیا۔ بھائی یہ کونسی جگہہ ہے؟
اُس نے صرف ایک لمحے کیلئے میری جانب دِیکھا اور کہنے لگا کیا تُمہیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ ہم میدانِ حشر میں موجود ہیں اور آج جزا اور سزا کا دِن ہے کسی کو انعام کی خِلعتوں سے نوازا جارہا ہے اور کسی کو جہنم کا ایندھن بنایا جارہا ہے۔ یہاں آج کوئی کسی کا نہیں ہے میرا حِساب ہوچُکا ہے اور میرا حِساب پیش ہوچکا ہے لیکن میرے گُناہوں کے پلڑے میں صرف 10گُناہ میری نیکیوں سے ذیادہ ہیں میں نے کُچھ مُہلت طلب کی ہے تاکہ اپنی ماں سے11 نیکیاں حاصل کرسکوں مجھے اُمید تھی کہ اس مُصیبت کی گھڑی میں میری ماں ہی مجھے اپنی نیکیاں دے سکتی ہے لیکن میرا حِساب دیکھنے کے بعد میری ماں نجانے کہاں چلی گئی ہے وہ شائد مُجھ سے چھپتی پھر رہی ہے تاکہ اُسے اپنی نیکیاں مُجھے نہ دینی پڑجائیں۔ اتنا کہنے کے بعد وہ لوگوں کے ہجوم میں ماں۔ ماں چِلاتا ہُوا گُم ہوگیا۔
اب مُجھے اِحساس ہوچُکا تھا کہ میں میدان حشر میں آ پُہنچا ہُوں اور آج مجھے بھی اپنے کئے ہوئےہر اچھے بُرے عمل کا حِساب دینا ہُوگا پھر میں نے سُنا کوئی صدا لگانے والا صدا لگا رَہا تھا کہ عبداللہ بن صاعقہ کو پیش کیا جائے اور پھر چند ہیبتناک فرشتے ایک کمزور سے آدمی کو گھسیٹ کر لیجاتے ہُوئے نظر آئے وہ آدمی شائد میزان پر جانے سے گھبرا رَہا تھا لیکن اُس شخص کی فِرشتوں کے آگے ایک نہیں چل پارہی تھی بہرحال وہ شخص جب میرے سامنے سے لیجایا جانے لگا تُو میرے کانوں نے اُسکی صدا سُنی مجھے چھوڑ دو میرے پلہ کونسی نیکیاں ہیں جو میرا حِساب چاہتے ہُو ۔
لیکن فرشتوں نے اُسکی ایک نہ سُنی اور اُسے میزان پر لے گئے میں سوچنے لگا نیکیاں تو میرے پلے بھی کُچھ نہیں تو کیا اگر میرے پاس نیکیاں نہ نکلیں تو کیا مجھے بھی جہنم کا ایندھن بنادِیا جائے گا جہنم کا خیال آتے ہی مُجھے سورج کی تپش مزید جھلسانے لگی میرے جسم سے پسینہ بِہنے لگا اور جب میں نے زمین کو دیکھا تُو زمیں پر میرا پسینہ بِہہ رَہا تھا لیکن کیا یہ میرے اکیلے جسم سے اِتنا پسینہ نِکل سکتا ہے کہ زمین پہ بِہنے لگ جائے تب مُجھے معلوم ہُوا کہ صرف میرے ہی جسم سے پسینہ نہیں نکل رہا تھا بلکہ ہر انسان کے جسم سے پسینہ بہہ رَہا تھا اور اب یہ پسینہ تیز بارش کے بعد زمیں پر بِہنے والے پانی کی طرح نظر آرہا تھا اور اِسکی سطح لحظہ با لحظہ بُلند ہورہی تھی تبھی کمرہ میزان سے عبداللہ برآمد ہُوا لیکن یہ کیا وہی عبداللہ جو ابھی کُچھ لمحے پہلے فرشوں سے میزان پر نہ لیجائے جانے کی درخواست کررہا تھا اب اُس کے چہرے کی خُوشی اُسکےچہرہ کو گُلنار کئے دے رہی تھی۔
میں نے اُسکی خُوشی کا سبب معلوم کیا تو وہ کہنے لگا میں دُنیا میں بُہت غریب تھا میرے پاس کبھی اتنے پیسے جمع نہیں ہوسکے کہ میں زکواۃ ادا کر پاتا لیکن میں ہمیشہ یہ نیت کیا کرتا تھا ۔ کہ اگر میرے ہاتھوں میں خزانے کی کُنجیاں آجائیں تو سارا خزانہ مسکینوں میں تقسیم کردوں۔ بس آج مجھے معلوم ہوا ہے کہ میری نیتوں کوقبول کرتے ہوئے اس عمل کے برابر نیکیوں کو میرے نامہ اعمال میں جمع کردیا گیا تھا اور یُوں میں آج اس مشکل گھڑی میں سرخُرو ہوگیا ہوں۔
میرا دِل مجھے مشورہ دے رَہا تھا کہ کہیں چُھپ جاؤں لیکن دماغ سمجھا رہا تھا کہ ایسا ممکن نہیں ہے لہذا کُچھ دیر دِل اور دماغ کی جنگ جاری رہی اور دماغ دِل پر غالب آگیا اور میں یہ جان گیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے لِہذا میں لوگوں کو میزان پر آتا جاتا دیکھنے لگا ۔ میں نے ایک انسان کو بڑی بے پرواہی سے اپنے حساب کتاب کے لئے میزان پر جاتے دیکھا اُسکی نخوت سے مجھے احساس ہونے لگا کہ وہ کوئی نہایت پرہیزگار عابد ہے جسکے پاس نیکیوں کے خزانے موجودہیں۔
لیکن جب وہ میزان سے فارغ ہُوا تو اُسکے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں میرے استفسار پر مُجھے بتایا گیا کہ یوں تو اسکے پاس واقعی نیکیوں کے خزانے موجود تھے لیکن اس نے اللہ کریم کی چادر میں خیانت کی کی تھی جسکے سبب اسے اپنے جرموں کی پاداش میں جہنم لیجایا جارہا ہے یہ نیک انسان لوگوں کو خُود سے حقیر سمجھا کرتا تھا اور تکبر کا شکار تھا۔ اِس پارسا کے حشر نے مجھے وقتی طور پر ہراساں کردیا لیکن پھر میں دوسرے لوگوں کے حساب کتاب کو دیکھنے میں مصروف ہوگیا ہر سزایافتہ مجرم کو دیکھنے کے بعد میرا حُوصلہ ٹوٹنے لگتا لیکن جب میں کسی پر انعامُ اکرام کی بارش دیکھتا تو مجھے بھی اُمید اپنے حِصار میں جکڑ لیتی یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک صدا بُلند ہوئی عشرت اقبال کو حساب کیلئے میزان پر پیش کیا جائے۔
یہ صدا سُننے کے بعد میرے ہُوش اُڑنے لگے یہ کیا میرے حِساب کا وقت بھی آپُہنچا ابھی کُچھ لمحے پہلے تک دوسروں کے حساب میں گُم تھا اور یہ سُوچا بھی نہیں تھا کہ مجھے اسقدر جلد بُلا لیا جائے گا دِل میں ہزار اندیشے تھے کہ نجانے میرے ساتھ کیا مُعاملہ پیش آنے والا ہے کیا مجھے چھوڑ دِیا جائے گا یا جہنم کی عمیق گہری وادیوں میں دھکیل دیا جائے گا میری نِگاہیں میرے اپنوں کو تلاش کرنے لگیں مجھے اپنے اِرد گرد بُہت سے شناسا چہرے نظر آئے لیکن یہ کیا تمام چہرے سپاٹ تھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے میری سزا و جزا کے مُتعلق وہ جاننا ضرور چاہتے تھے مگر اُنہیں اس بات کی پرواہ ہرگز نہیں تھی کہ کامیابی میرا مُقدر بنتی ہے یا ناکامی میرے حِصے میں آتی ہے۔
مجھے میزان پر لے جایا جارہا تھا ہر ایک انسان یوں تُو نفسا نفسی کا شکار تھا کئی ایک مُجرم سزا کا پروانہ پا چُکے تھے اور کئی لوگ کامیابی کی نوید سُن چُکے تھے لیکن جب مُجھے میزان پر لیجایا جانے لگا تو میں نے دیکھا کئی ایک لوگ جو مُجھے دُنیا میں جانتے تھے میرے اعمال نامہ کو جاننے میں دِلچسپی رکھتے تھے شائد وہ جاننا چاہتے تھے کہ دیکھیں اس شخص کیساتھ کیا مُعاملہ ہوتا ہے اور بظاہر نیک نظر آنے والا انسان دُنیا میں کسقدر کامیاب رہا ۔ اور کیا یہ کامیاب بھی ہُوگا یا اسکے حِصہ میں بھی ناکامی اور وحشتیں لکھی ہیں۔
Bookmarks