اسلام علیکم

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ:

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابو عبدالرحمن ہے ان کا نسب ہذیل بن مدرکہ بن الیاس کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ان کی والدہ کا نام ام عبد بنت عبد و د بن سواء ہذیل ہے۔یہ مشرف باسلام ہوئیں اور ہجرت کی سعادت حاصل کی ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ قدیم الاسلام تھے یہ اس وقت اسلام لائے جب سعید بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہمشرف باسلام ہوئے تھے۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہتاہنوز اسلام نہ لائے تھے ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود فرمایا کرتے تھے۔
’’میں چھٹا مسلمان تھا ،ہمارے سوا روئے زمین پر اور کوئی مسلمان نہ تھا‘‘۔
آپ نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ ہجرت فرمائی ۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں غزوات بدر واحد،خندق،بیعت الرضوان اور دیگر لڑائیوں میں شرکت کی ۔وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے جس نے غزوئہ بدر میں ابو جہل پر حملہ کر کہ اس کا سر کاٹ لیا تھا۔آپ نے غزوئہ یر موک میں بھی شرکت کی سعادت حاصل کی ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتوں کی حفاظت کا شرف ان کے حصے میں آیا تھا ۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتے پہناتے ،جب بیٹھ جاتے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتوں کو بغل میں دبائے رکھتے ۔یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں بڑی کثرت سے آیا جایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتے تھے .
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہفرماتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی یمن سے آئے اور کچھ عرصہ قیام کیا ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی والدہ اس کثرت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں جایا کرتے تھے کہ ہم ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں شمار کرنے لگے۔
(بخاری ومسلم)
اسلام میں سبقت کرنے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کو جو دل بستگی تھی اس کی بنا پر ان کا شمار کبار اور فضلاء فقہاء صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ہوتا تھا ۔قرآن کریم اور حدیث وفتوٰی میں یہ دوسرے صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پر فائق تھے ۔حتیٰ کہ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ماہع علوم قرآنیہ ہونے کی شہادت دی ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن کریم چار صحابہ سیکھو، یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ،سالم مولیٰ ابی حذیفہ اور معاذ بن جبل اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے۔(بخاری ومسلم)
نعمت خداوندی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے خود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
’’اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کتاب اللہ کی کوئی سورت ایسی نہیں جس کے بارے میں مجھے معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں اتری اور کس ضمن میں اتری ،اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی مجھ سے بڑھ کر قرآن کا کوئی عالم موجود ہے اور اونٹ وہاں تک پہنچا سکتا تو میں سوار ہو کر اس کی خدمت میں حاضر ہوتا۔(صحیح مسلم)

کبار صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے علم وفضل کا اعتراف کرتے تھے ۔چنانچہ حضرت عمر نے اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھا:
میں نے عمار کو تمہارا امیر اور عبداللہ بن مسعود کو معلم اور وزیر بنا کر بھیجا ہے ۔یہ دونوں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چیدہ اصحاب اور اہل بدر میں سے ہیں ۔ان کی پیروی کیجیئے۔عبداللہ کو تمہاری طرف بھیج کر میں نے تمہیں اپنی ذات پر ترجیح دی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت وفضیلت کے اثبات میں حضرت عمر سے بڑھ کر اور کس کی شہادت ہو سکتی ہے۔خصوصاًآپ کا یہ قول کہ ’’تم کو اپنی ذات پر ترجیح دی‘‘قابل غور ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہوہ شخص ہیں جب کے قلب وزبان پر اللہ نے حق کو جاری کردیا تھا۔وہ جب کسی رائے کا اظہار کرتے تو اس کی تائید میں قرآنی آیا ت نازل ہوجاتیں۔صاحب فضیلت کا قدر شناس وہی ہوسکتا ہے جو خود بھی فضیلت کا حامل ہو جب ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہنے وفات پائی تو حضرت ابو درداء نے کہا:
’’ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہنے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جو ان جیسا ہو۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے شمار لوگوں نے حدیثیں روایت کیں ،صحابہ میں سے مندجہ ذیل کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ابو موسیٰ اشعری،عمران بن حصین،ابن عباس،ابن عمر ،جابر ،انس،ابن زبیر ،ابو سعید خدری،ابو ہریرہ، ابو رافع،رضوان اللہ علیہم اجمعین۔تابعین میں سے علقمہ،ابو وائل ،اسود،مسروق،عبیدہ،قیس بن ابی حازم،رحمہم اللہ علیہم اور دیگر اکابر نے استفادہ کیا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آٹھ سو اڑتالیس احادیث منقول ہیں ۔بخاری ومسلم نے چونسٹھ احادیث بالاتفاق روایت کیں ہیں۔بخاری اکیس احادیث کے روایت کرنے میں منفرد ہیں اور مسلم نے پینتیس احادیث روایت کیں ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن صفات سے متصف تھے مثلاًقدامت اسلام اور طویل صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضہ یہ تھا کہ وہ مذکورہ صدر احادیث سے زیادہ احادیث روایت کرتے ۔انہوں نے تمام عصر نبوت کو بچشم خود دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے بھو پور استفادہ کیا۔وہ حدیثیں یاد کرنے کے حریص بھی تھے اس کے ساتھ ساتھ ا ن کا حافظہ بھی بہت قوی تھا۔دنیوی سازوساما ن سے انہیں چنداں دلچسپی نہ تھی۔مگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ بہت کم عرصہ تک زندہ رہے اور جس طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حدیثوں کی اشاعت کے لئے طویل مدت ملی تھی ان کو نہ مل سکی ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۲۳ھ میں ایک قول کے مطابق کوفہ اور دوسرے قول کے مطابق مدینہ میں بعمر ساٹھ سال سے کچھ زائد وفات پائی۔