اسلام علیکم
تمام صحابہ کرام پیارے نبی ﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ نبی اکرم ﷺ وعظ فرما رہے تھے جس سے دل نرم ہوگئے اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس مجلس میں حضرت حنظلہ (رض) بھی تھے۔
وہ کہتے ہیں “میں آپ ﷺ کی مجلس سے اُٹھ کر گھر آیا۔ بیوی بچے پاس آگئے اور کچھ دنیا کا تذکرہ شروع ہوا، بچوں اور بیوی کے ساتھ ہنسنا بولنا اور مذاق شروع ہو گیا اور وہ حالت جاتی رہی جو آپ ﷺ کی مجلس میں*تھی۔ اچانک خیال آیا کہ میں*پہلے کس حال میں*تھا۔ اب کیا ہوگیا؟ میں نے اپنے دل میں*کہا، حنظلہ! تُو منافق ہو گیا ہے، کہ ظاہر میں جو کیفیت آپ ﷺ کی مجلس میں*تھی، اب گھر آکے وہ نہ رہی۔ اس پر دکھ اور پریشانی کے ساتھ یہ کہتا ہوا گھر سے نکلا کہ حنظلہ تو منافق ہو گیا۔
سامنے سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) تشریف لا رہے تھے۔ میں*نے ان سے عرض کیا “حنظلہ تو منافق ہوگیا“ وہ یہ سن کر فرمانے لگے “سبحان اللہ! یہ کیا کہہ رہے ہو؟“ میں نے صورتحال بیان کی۔ جب انہوں نے پوری بات سن لی تو بولے “یہ مسئلہ تو مجھے بھی درپیش ہے۔“
اس لئے دونوں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جا کر حضرت حنظلہ (رض) نے عرض کیا “ یارسول اللہ! ﷺ جب ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ جنت و دوزخ کا تذکرہ فرماتے ہیں تب تو ہم ایسے ہو جاتے ہیں* کہ گویا وہ ہمارے سامنے ہیں لیکن گھر جا کر بیوی بچوں*میں پڑ کر بھول جاتے ہیں۔“
آپ ﷺ نے فرمایا “اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تمھارا ہر وقت وہی حال رہے جیسا کہ میرے سامنے ہوتا ہے تو فرشتے تم سے بستروں اور راستوں میں مصافحہ کرنے لگیں۔“
(صحیح مسلم) ۔
Bookmarks