عرب "گنوار اور صحرائی درندے" ہیں، اسرائیل لائق احترام ہے: ایرانی عہدیدار
اوسلو ۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ ایرانی محکمہ خارجہ کے دو اعلیٰ عہدیداروں نے عربوں کے بارے میں نہایت نامناسب ریمارکس دیتے ہوئے انہیں "بد تہذیب"، گنوار اور جنگلی درندے جیسے القابات دیے ہیں، جبکہ عربوں کے مقابلے میں اسرائیل کو ایرانیوں کے لیے قابل احترام قراردیا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے دو عہدیداروں محمد رضائی اور مہدی صفری کے یہ ریمارکس ناروے کے ایک اخبار "ڈاگ بلاگ" میں شائع ہوئے ہیں اورانہیں ایک ڈینش میگزین"ویک اینڈ" نے بھی نقل کرکے شائع کیا ہے۔
ایرانی محکمہ خارجہ کے عہدیدارو ں نے اہل عرب اور ایرانیوں کے درمیان کسی قسم کے تہذیبی و ثقافتی تعلق کی نفی کی اور کہا کہ ایرانیوں کا عربوں سے کوئی تہذیبی رشتہ نہیں۔عرب ایک بدو اور جاہل قوم ہیں۔یہ لوگ تہذیب سے ہمیشہ نا آشنا رہے ہیں۔عربوں کی تہذیب قطر اور بحرین جیسے ممالک کے تیل کے ارگرد گھومتی ہے جس پر یہ لوگ فخر کرتے ہیں۔
ایران اور عرب دنیا کے گرد پھیلے سمندر کے خلیج فارس کے ثبوت میں انہوں نے چھ ہزار نقشے پیش کیے۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان قربت کا انکشاف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران کے لیے اسرائیل ایک قابل احترام ریاست ہے، ہماری ہمدردیاں عربوں کے مقابلے میں اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ایران کے اسرائیل دشمن پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کاکہنا تھا کہ تہران تل ابیب کی مخالفت اس لیے کرتا ہے تاکہ عالم اسلام کی ہمدردیاں حاصل رہیں ورنہ ایران کا عرب ملکوں سے کوئی علاقہ نہیں۔
فارسی اور عربی زبانوں کے باہمی تعلق سے متعلق سوال پر ایرانی محکمہ خارجہ کے عہدیداروں نے کہا کہ فارسی زبان کا عربی سے دور دور تک کا بھی تعلق نہیں۔ فارسی یورپی اور آریائی زبانوں کی اولاد ہے اور یہ ہندی ، جرمن اور دیگر زبانوں سے مل کر بنی ہے۔
ایرانی شہر انبہار کا حوالہ دیتے ہوئے مہدی صفری نے کہا کہ ایران کا یہ تہذیبی شہر آریائی اقوام کی یاد تازہ کرتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ایران اصلا یورپ کی قدیم آریائی تہذیب کی باقیات ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایرانیوں کے اپنےآریائی ہونے پر فخرکا ایک ثبوت سابق جرمن ڈکٹیٹر اڈوولف ہٹلر کی کتاب"میری جدوجہد" کی ایران میں مقبولیت سےہوتا ہے۔اس کتاب میں ہٹلر بھی آریائی نسل کی اولاد ہونے پر خود پر بر ملا فخر کرتا ہے اور ایرانی بھی اس پر اسی لیے فخر کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ یورپی ممالک ناروے، سویڈن اور ڈنمارک بھی خود کو آریائی نسل کے باشندے قراردیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے خلاف جرمن ہٹلر کی مدد کی تھی۔
اخبار "ویک اینڈ" لکھتا ہے کہ ایرانی محکمہ خارجہ کے عہدیداروں کے متنازعہ بیانات کا اصل مقصد ایران اور عرب ممالک کے درمیان تہذیبی فرق بیان کرنا نہیں بلکہ وہ اقتصادی پابندیوں کے باعث ایران کی موجودہ تنہائی کو دور کرتے ہوئے یورپین کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ ایرانی عہدیداروں نے ا پنے صدر محمود احمدی نژاد کی پالیسی کی خود ہی نفی کی ہے۔ ایرانی حکام کے بہ قول وہ اسرائیل کا احترام کرتے ہیں البتہ عرب ممالک کی حماس اور حزب اللہ جیسی مذہبی و مزاحمتی جماعتوں کی حمایت صرف عالم اسلام کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ ورنہ ایرانی صدر کے اسرائیل کو تباہ کرنے کی دھمکیوں کے پس پردہ کوئی خاص محرک نہیں۔
ایرانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سنہ 1979ء کے اما م خمینی کے برپا کردہ انقلاب کے بعد اسرائیل کی مخالفت ایرانیوں کی مجبوری بن چکی ہے۔، کیونکہ ما بعد انقلاب ایران خود کوعالم اسلام کا لیڈر خیال کرتا ہے۔ ایک لیڈر کو اپنی قوم کی حمایت درکار ہوتی ہے اور ایران عرب ممالک اور مسلم دنیا کی حمایت کے حصول کے لیے اسرائیل کی تباہی کے نعرے بلند کرتا ہے۔
مہدی صفری جو ایران کے نائب وزیرخارجہ کے منصب پر فائز ہیں کہتے ہیں کہ "مغرب کو اسرائیل اور بعض دیگر ملکوں کے اس پروپیگنڈے کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے کہ ایران کا جوہری پروگرام مغرب یا اسرائیل کے لیے خطرہ ہے"۔
ایرانی عہدیداروں نے ایران اور عرب ممالک کے ارد گرد پھیلے سمندر کے خلیج فارس ہونے کے چھ ہزار پرانے نقشے بھی پیش کیے اور ثابت کیا یہ تمام قدیم و جدید نقشے خلیج کے "خلیج فارس" ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں نہ کہ خلیج عرب ثابت کرتے ہیں۔ ان چھ ہزار نقشوں میں خلیج فارس ہی نام ملتا ہے اور خلیج عرب کسی جگہ موجود نہیں۔
Bookmarks