اسلام علیکم
"میں گنہگار ہوں لوگ مجھے کافر بنانا چاہتے ہیں "
انسان خطا کا پتلا ہے کوتاہی کا ہونا اس سے ممکن ہے اسکے کمزور ہونے کے ناطے اور اسکے خلاف ہمہ وقت شیطان کے گھات لگائے رکھنے کی وجہ سے غلطی کا سرزد ہونا اس سے بعید نہیں انسان جلدی شیطان کے بہکاوے میں آجاتاہے وہ انسان کو سبز باغ دکھاتا ہے اسکو لمبی امیدیں دلاتا ہے اسے اپنے بارے میں سچا خیرخواہ ہونے کا جھانسہ دلاتا ہے انسان جلدی اسکے ہتھکنڈے میں آجاتا ہے جس طرح انسانیت کا والد آدم علیہ السلام اسے اپنا خیرخواہ سمجھ بیٹھا تھا ۔
شیطان کے دام میں جکڑے انسان کو آزاد کرانا ہماری ذمہ داری ہے کسی طریقے اسے غلطی کا احساس دلانا اور پھر اس سے باز رہنے کے حوالے سے اسے سمجھنا ہمارے اوپر اسکا حق ہے
ہمیں جرم سے نفرت ہونی چاہیئے اسکا قلع قمع کرنے کی تگ ودو کریں نہ کہ مجرم سے اظہار نفرت کریں جرم کی وجہ سے ہمارہ سلوک اس سے بدل جائے اسے انسان تصور کرنا گورا نہ کریں اس سے گناہ اور جرم ختم نہیں ہوگا بلکہ بڑھے گا وہ انسان جسے ہم نے ایک غلطی کی بنیاد پر انسانیت کی لسٹ سے خارج کردیا اسے معاشرے میں ذلیل و حقیر بنادیا تو وہ مزید متنفر ہوکر گناہوں کی وادی میں اتر جائے گا ایسے لوگوں سے راشتے ناطے جوڑ لے گا جو گناہوں کی بستی میں رہتے ہیں جنہیں معاشرے نے ایک غلطی کی وجہ سے نام گرامی مجرم بنادیا جن کا اوڑھنا بچھونا گناہ بن چکا
اس تمام میں ہمارہ قصور ہے ہمیں ہماری عبادت نے دھوکے میں ڈالدیا ہم اپنی مختصر عبادت کو جنت کی ٹکٹ سمجھ بیٹھے دوسرے کی غلطی کو جھنم میں جانے کا باعث سمجھ کر اس سے تمام ترتعلقات ختم کربیٹھے بلکہ اپنے رویہ سے اس یہ اطلاع بھی دے چکے کہ ہمارہ ٹھکانہ جنت اور تیرہ جرم ناقابل معافی ہونے کی سے تیری آخرت تباہ بن چکی ہے لحاظہ اب جو کچھ کرنا ہے ابھی کرلے آگلہ دور ہمارہ ہے ہماری اس خصلت نے اسے مزید مجرم بنا دیا اب وہ اپنے بارے ذھن بنا چکا کہ میرے جرم ناقابل معافی ہیں میرہ دوبارہ انسان بننا ممکن نہیں لحاظہ جب یہ صورت حال ہے تو پھر کیوں نہ اس راستہ پر مزید قدم اٹھالیئے جائیں
خدارہ سوچیں معاشرے کی اصلاح کی فکر کریں مجرموں اور گناہگاروں کے کانوں تک یہ احادیث پہنچائیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " لو لم تذنبوا ولجاء بقوم یذنبون ثم یستغفرون اللہ فیغفرلھم " اوکما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم
کہ اگر تم نے گناہ کرنا چھوڑ دیئے تو اللہ رب العالمین ایسی قوم لائے گا جو گناہ کریں گے اور پھر رب العالمین کے در پر معافی کے لیئے جائیں گے وہ انہیں معاف کردے گا
لحاظہ انسان ہونے کے ناطے اگر غلطی ہوگئی ہے تو اسکا ازالہ توبہ (معافی ) ہے جو وہ کرلی جائے
اللہ رب العالمین توشرک کو بھی معاف کردیتا ہے شرط یہ ہے کہ اسکی طرف رجوع کیا جائے معافی طلب کی جائے یہ وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا
" ان الاسلام یھدم ماکان قبلہ "
کہ اسلام پہلے تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے
لازما انکے اندر رب العالمین کے ساتھ شرک بھی ہوتا ہے
ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی عبادت کو دیکھ کر مغرور ہوئے بغیر دوسروں کے گناہوں کو دیکھ کر اپنے بارے میں فخر کیئے بغیر مجرموں (گناہگاروں )کو یہ بتادیں کہ آپ کی توبہ کا دروزہ خلا ہے انسان ہونے کہ ناطے غلطی کا سرزد ہونا محال نہیں آپ پریشان نہ ہوں آپ رجوع الی اللہ کرلیں یہ گناہ نیکی میں بھی تبدیل ہوسکتاہے
ایسی غلط سلوک نے ایک گناہگار سے یہ تک کہلوادیا تھا کہ" میں گنہگار ہوں یہ لوگ مجھ کافر بنانا چاہتے ہیں "
ایسی کئی مثالیں تلاش کرنے سے مل سکتی ہیں
جیسے حدیث میں آتا ہے ایک شخص کو جب گناہ کی حد لگی تو کہنے والوں نے کہا کہ اس نے آپ نے کو ذلیل ورسوا کردیا
محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " لاتعینوا علیہ الشیطان "
کہ اسے ابھی شیطان نے مختلف خیالات کے ذریعے گھیر رکھا ہے تم اس شیطان کی اسکے بارے میں مدد نا کرو
غلطی ہونے کے بعد خطا کرنے والے کو ٹوکنا برا بھلا کہنا اس کے سگین نتائج سامنے آسکتے ہیں
تو آئیے معاشرہ کے خطاکاروں گناہوں کی دلدل میں پھنسے لوگوں سے احساسی محرومی ختم کریں انہیں دوبارہ سے ایک اچھا انسان بنائیں ایک غلطی کی وجہ سے اس سے تمام تعلقات کو ختم نہ کردیں بلکہ اسکے پاس جائیں خود بخود اسکی طرف سے عذر بنائیں اور یہ کہیں کہ انسان خطا کا پتلا ہے انسان کمزور ہے غلطی کا سرزد ہونا بڑی بات نہیں اس سے آپ دلبرداشتہ ناہوں اللہ کہ حضور اس خطا کی معافی کے لیئے ہاتھ پھیلائیں وہ غفور رحیم ذات ہے اس نے بڑے بڑے مجرم ایک لمحہ کے اندر بخش دیئے اسکے سامنے تیری اس غلطی کی کیا حیثیت ہے
اسکے بہتر نتائج ہمارے سامنے آئیں گے اللہ رب العالمین توفیق دیں، آمین
بشکریہ تحریر عبدالرحمان اثری حیدرآباد سندہ
Bookmarks