شامی صدر کے اصلاحات کے اعلان کے باوجود احتجاج جاری
شام کے مختلف شہروں میں حکومت کے خلاف مظاہرے
جمعہ 20 ربيع الثاني 1432هـ - 25 مارچ 2011م

دمشق۔العربیہ۔نیٹ،ایجنسیاں
شام کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور انہوں نے حکومت کے لاٹھی بردار حامیوں اور سکیورٹی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں کے باوجود جلوسوں میں شرکت کی ہے۔

شامی شہریوں نے جنوبی شہر درعا میں گذشتہ ایک ہفتے سے حکومت مخالف مظاہرے کرنے والے افراد کے حق میں جلوس نکالے ہیں۔غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مظاہروں کے دوران شام کے مختلف علاقوں میں تیس افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

مظاہرین ملک میں سیاسی آزادیوں اور بدعنوانیوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔انہوں نے صدر بشارالاسد کے خاندان پر بدعنوانیوں کا الزامات عاید کیے ہیں۔جمعہ کو جنوبی شہر درعا سے شروع ہونے والے مظاہرے دارالحکومت دمشق تک بھی پھیل گئے اور حکومت کی جانب سے ملک میں 1963ء سے نافذ ایمرجنسی قانون کے خاتمے سمیت مختلف اصلاحات کے اعلان کے بعد بھی شہریوں نے احتجاجی جلسے جلوس منعقد کیے ہیں۔

دمشق سے جنوب میں واقع علاقے ضاحل میں نماز جمعہ کے بعد کم سے کم تین سوافراد نے مارچ کیا۔وہ نعرے بازی کررہے تھے کہ ضاحل اور درعا کو رسوا نہیں کیا جاسکتا۔ساحلی شہر بنیاس میں تین ہزار افراد نے حکومت کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی۔

شامی سکیورٹی فورسز نے دمشق میں درعا کے مکینوں کے حق میں احتجاج کرنے والے افراد کے جلوس پر دھاوا بول دیا اور بیسیوں مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کی نا انصافیوں اور جبر وتشدد کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

انہوں نے درعا میں سکیورٹی فورسز کے نرغے میں آئے شامی شہریوں کے حق میں نعرے بازی کی اور کہا کہ ''ہم اہل درعا کے لیے اپنا خون اور روح قربان کردیں گے''۔درعا میں ہزاروں افراد نے آج جمعہ کو بھی اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کیا ہے۔انہوں نے ری پبلک گارڈ کے سربراہ اور شامی صدر بشار الاسد کے بھائی مہرالاسد کی مذمت میں نعرے بازی کی۔

درعا میں شامی شہری گذشتہ سات روز سے قدیمی جامع مسجد العمری کے قریب جمع ہوکر حکومت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اور سرکاری سکیورٹی فورسزنے ان کا محاصرہ کررکھا ہے۔درایں اثناء حمہ شہر میں بھی ہزاروں افراد نے حکومت کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔اس شہر میں 1982ء میں شامی سکیورٹی فورسز نے ایک کریک ڈاٶن کارروائی کے دوران ہزاروں افراد کو ہلاک کردیا تھا۔

''انقلاب شام 2011ء''نامی فیس بُک کے ایک گروپ نے آج نمازجمعہ کے بعد مساجد سے ''یوم توقیر'' کے موقع پرریلیاں نکالنے کی اپیل کی تھی۔اس گروپ کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان کہا گیا ہے کہ ''ہم آزادی کے
لیے پُرامن مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھیں گے''۔

;
;
دو سو ساٹھ (260)سیاسی قیدیوں کی ایک تہائی مدت پوری ہونے کے بعد رہائی
شامی صدراسد کو بحران کا سامنا،سرکاری عمارتیں نذر آتش

ہفتہ 21 ربيع الثاني 1432هـ - 26 مارچ 2011م
دمشق۔العربیہ۔نیٹ،ایجنسیاں
شام کے صدر بشارالاسد کو اپنے گیارہ سالہ دورحکمرانی میں پہلی مرتبہ شدید بحران کا سامنا ہے۔ان کے ماتحت ایک شہراس وقت حکومت مخالف مظاہرین کے قبضے میں ہے جبکہ پُرتشدد احتجاج کی لہر متعدد شہروں اورقصبوں تک پھیل چکی ہے۔

جنوبی شہر درعا میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران حکومت مخالف احتجاج کے دوران متعدد افراد مارے گئے ہیں اور ان میں سے ایک کی ہفتے کے روز نمازجنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔انہوں نے حکمران بعث پارٹی کے دفاتر اور ایک پولیس اسٹیشن کو نذرآتش کردیا۔

درعا میں گذشتہ روز مظاہرین نے شام کے مرحوم صدر حافظ الاسد کے ایک مجسمے کو بھی اکھاڑ پھینکا تھا اور یہ منظر 2003ء میں عراق کے سابق صدر صدام حسین کے بغداد میں نصب مجسمے کی عراقیوں کے ہاتھوں تباہی سے مشابہ نظر آیا۔ مظاہرین نے ایک ہی تحریر والا پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا کہ وہ حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق درعا کے قریب واقع قصبے طفاس میں بھی گذشتہ روز درعا میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے ایک شہری کمال بردان کے جنازے میں شریک افراد نے بعث پارٹی کی عمارت اور ایک پولیس اسٹیشن کو نذرآتش کردیا۔

دارالحکومت دمشق اور شمالی شہر حمہ میں بھی حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔حمہ شہر میں بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کے دورحکومت میں 1982ء میں شامی سکیورٹی فورسز نے ایک کریک ڈاٶن کارروائی کے دوران ہزاروں افراد کو ہلاک کردیا تھا اور اخوان المسلمون کی مبینہ مسلح بغاوت کو کچلنے کے لیے شہر کے قدیمی علاقے میں موجود عمارتوں کو زمین بوس کردیا تھا۔

اس دوران انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک وکیل نے بتایا ہے کہ شامی حکومت نے دوسوساٹھ قیدیوں کو ان کی قید کی ایک تہائی مدت پوری ہونے کے بعد جیلوں سے رہا کردیا ہے۔ان میں زیادہ تر اسلام پسند شامل ہیں۔

جنوبی شہر درعا میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کےدرمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جن میں متعدد افراد ہلاک اوربیسیوں زخمی ہو گئے ہیں۔بعض اطلاعات کے مطابق کم سے کم ایک سو افراد مارے گئے۔جمعہ کو بیس زیادہ افراد کی ہلاکتوں کی اطلاع منظر عام پر آئی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گذشتہ ایک ہفتے کے دوران درعا میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے افراد کی تعداد پچپن بتائی ہے۔درعا میں ہفتے کے روز دکانیں دوبارہ کھل گئی ہیں لیکن سکیورٹی فورسز کے اہلکار نظر نہیں آئے۔

شام میں سکیورٹی فورسز کا سخت کنٹرول ہے اور اس عرب ملک میں چند ماہ قبل تک اس طرح کے حکومت مخالف مظاہروں کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا لیکن تیونس،مصر،لیبیا اوریمن کے بعد اب شام میں بھی حکومت مخالف تحریک زورپکڑتی جارہی ہے۔شام میں مظاہرے اسکول کے دس پندرہ بچوں کی گرفتاری کے بعد شروع ہوئے تھے۔ان بچوں نے دوسرے عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے جمہوریت نوازوں سے متاثر ہوکر جمہوریت کے حق میں نعرے لکھے تھے اور پولیس انہیں اسی جرم میں پکڑ کر لے گئی تھی۔

اردن کی سرحد کے نزدیک واقع شہر درعا میں مظاہرین کے خلاف پُرتشدد کریک ڈاون کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے گذشتہ روز ایک بیان میں کہا کہ شامی سکیورٹی فورسز مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کا سلسلہ فوری طور پر بند کردیں۔

گذشتہ روزشام کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے تھے اور انہوں نے حکومت کے لاٹھی بردار حامیوں اور سکیورٹی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں کے باوجود جلوسوں میں شرکت کی ۔ مظاہرین ملک میں سیاسی آزادیوں اور بدعنوانیوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔انہوں نے صدر بشارالاسد کے خاندان پر بدعنوانیوں کے الزامات عاید کیے ہیں۔