ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله محمد وآله وصحبه وبعد :
سب تعریفات اس اللہ وحدہ لاشریک کے لائق ہیں ، اوراللہ تعالی کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اورصحابہ کرام پر اس کی رحمتیں ہوں ۔
اما بعد :
جب قربانی ایک ایسی عبادت ہے اوردین اسلام کے عظیم شعائر میں سے شعارہے جس میں ہم اللہ تعالی کی توحید اوراپنے اوپر اللہ تعالی کی نعمتوں اوراپنے باپ ابراھیم علیہ السلام کی اپنے رب کی اطاعت فرمانبرداری کی یاد دھانی کرتے ہیں ، اوراس میں بہت ہی زيادہ خیروبرکت ہے ، توپھر مسلمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس معاملے کا اہتمام کرتے اوراس کی شان وشوکت کی تعظیم کرے ، اسی چيز کومدنظر رکھتے ہوئے ذيل میں ہم اس عظيم اسلامی شعائر کے بارہ میں مختصر سا نوٹ ذکر کرتے ہیں :
قربانی : یا اضحیۃ : عید الاضحی کی نماز کے بعد سے ایام تشریق کے آخری دن تک ( تیرہ ذی الحجہ کی شام تک ) چوپائیوں ( اونٹ ، گائے ، بھیڑ ، بکری ) میں سے کوئي ایک اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے – اس علاقہ جہاں پرقربانی کرنے والا رہائش پذیر ہو - قربانی کی نیت سے جانورذبح کرنے کو اضحیۃ یا قربانی کہا جاتا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{تواللہ تعالی کے لیے نماز ادا کر اورقربانی کر} سورۃ الکوثر
اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{آپ کہہ دیجئے یقینا میری نماز اورمیری قربانی اورمیری زندگی اورمیرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے اس کا کوئي شریک نہیں ، اورمجھے اسی کا حکم دیا گيا ہے }الانعام ( 162 ) ۔
اس آیت میں نسکی کا معنی میری قربانی ہے ۔
اورایک مقام پر اللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
{اورہم نے ہر امت کے لیے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ تعالی کا نام لیں جو اللہ تعالی نے انہیں دے رکھے ہیں ، سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والے کوخوشخبری سنادیجئے} الحج ( 34 ) ۔
اکثر اہل علم کے مطابق قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے ( اوربعض علماء کرام نے اسے واجب قرار دیا ہے اس کی تفصیل آگے بیان کی جارہی ہے ) اوراصل میں تویہ قربانی زندہ شخص اوراس کے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کے وقت کے اندر مطلوب ہے ، اورقربانی کرنے والے کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ زندہ یا فوت شدگان میں سے جسے چاہے اس کے ثواب میں شریک کرلے ۔
اوررہامسئلہ فوت شدگان کی جانب سے قربانی کرنے کا تواس میں یہ ہے کہ اگر فوت ہونے والے شخص نے قربانی کرنے کی وصیت کی ہو تواس کےایک تہائي مال سے قربانی کرنی واجب ہوگي یا پھر اگر اس نے اپنی وقف کردہ چيز میں قربانی بھی رکھی ہوتوپھر بھی اس وقف سے قربانی کرنا واجب ہوگي ۔
لیکن اگر فوت ہونےوالے شخص نے نہ تووصیت ہی کی اورنہ ہی وقف میں قربانی کرنے کا کہا ہو اورانسان فوت شدگان کی جانب سے قربانی کرنا چاہے تویہ بہتر ہے اوراسے میت کی جانب سے صدقہ شمار کیا جائے گا ، لیکن سنت یہ ہے کہ انسان اپنے اہل وعیال میں سے زندہ اورفوت شدگان کواپنی قربانی میں شامل کرے اورذبح کرتے ہوئے کہے کہ اے اللہ یہ میری اورمیرے گھر والوں کی جانب سے ہے ، اور ہر میت کی جانب سے علیحدہ علیحدہ قربانی کرنے کی کوئي ضرورت نہيں ۔
اورعلماء کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ قربانی کا جانور ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرنا جانور کی قیمت صدقہ کرنے سے بہتر اورافضل ہے ، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قربانی ذبح فرمائي اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم افضل اوراولی وبہتر کام ہی سرانجام دیتے تھے ، امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد رحمہم اللہ کا مسلک یہی ہے ۔
قربانی کی فضیلت اورکونسی قربانی افضل ہے :
ایک شخص اوراس کے گھر والوں کی طرف سے ایک بکرا یا چھترا کفائت کرجاتا ہے اس کی دلیل ابوایوب رضی اللہ تعالی عنہ کی مندرجہ ذيل حدیث ہے :
وہ بیان کرتے ہیں کہ : ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک شخص اپنی اورگھروالوں کی جانب سے ایک بکری ذبح کرتا اوراسے وہ خود بھی کھاتے اوردوسروں کو بھی کھلاتے تھے ) اسے ابن ماجہ اورامام ترمذی رحمہما اللہ نے روایت کیا اورصحیح کہا ہے ۔
جن جانوروں کی قربانی کا ذکر نص میں ملتا ہے ان میں اونٹ ، گائے ، بھيڑ بکری شامل ہیں ، اورعلماء کرام کا کہنا ہے کہ سب سے افضل قربانی اونٹ کی ہے ، اس کے بعد گائے ، اوراس کے بعد بکری کی ، اوراس کے بعد اونٹ یا گائے کی قربانی میں حصہ ڈالنا ، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جمعہ کے بارہ میں مندرجہ ذيل فرمان ہے :
( جوکوئي اول وقت میں جائے گویا کہ اس نے اونٹ کی قربانی کی )
امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ تعالی نے بھی یہی کہا ہے ، تواس طرح بکرا ودنبہ ، مینڈھے کی قربانی اونٹ یا گائے میں حصہ ڈالنے سے افضل ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : مینڈھے کی قربانی افضل ہے اوراس کےبعد گائے اوراس کے بعد اونٹ کی قربانی افضل ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دومینڈھے ذبح کیے تھے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم افضل کام ہی کرتے تھے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی خير خواہی کرتے ہوئے اولی اختیار کرتے تھے اورامت کومشقت میں ڈالنا پسند نہیں فرماتے تھے ۔ شیخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالی کے فتوی سے لیا گيا ۔
گائے اوراونٹ کے سات حصے ہوتے ہیں لھذا مندرجہ ذیل حدیث کی بنا پراس میں سات اشخاص شریک ہو سکتے ہیں:
جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ہم نے حدیبیہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات آدمیوں کی جانب سے اونٹ اورسات ہی کی جانب سے گائے ذبح کی تھی ۔
اورایک روایت کے الفاظ ہیں : ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹ اورگائے میں سات سات افراد شریک ہوجائيں ۔
اورایک روایت کے الفاظ ہیں : توگائے سات اشخاص کی جانب سے ذبح کی جاتی تھی اورہم اس میں شریک ہوتے ۔ صحیح مسلم ۔
قربانی کا حکم :
قربانی دین اسلام کا ایک شعار اورعلامت ہے ، جواہر الاکلیل شرح مختصر خلیل میں مذکور ہے کہ :
جب کسی علاقے کے باشندے قربانی کرنا چھوڑ دیں تواس بنا پران سے لڑائی جائے گي کیونکہ یہ دین اسلام کا ایک شعار اورعلامت ہے ۔
دیکھیں : رسائل فقھیۃ للشیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی صفحہ نمبر ( 46 ) ۔
علماء کرام اس کے حکم کے بارہ میں دوقسموں میں تقسیم ہوتے ہیں :
ا – علماء کرام کا ایک گروہ تواسے واجب قرار دیتا ہے ان میں امام اوزاعی ، للیث ، امام ابو حنیفہ ، اورامام احمد کی ایک روایت شامل ہيں ، اورشیخ ا لاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کا بھی ایک قول یا ظاہر مذھب یہی ہے ۔
اس قول کے قائلین کے دلائل مندرجہ ذيل ہیں :
1- اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{پس تواپنے رب کے لیے نماز ادا کر اورقربانی کر} سورۃ الکوثر
اوریہ فعل امر ہے اورامر وجوب کا متقاضی ہے ۔
2- صحیحین وغیرہ میں جندب رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس نے بھی نماز عید کی ادائيگی سے قبل قربانی کرلی اسے چاہیے کہ وہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اورجس نے ذبح نہيں کی وہ اللہ تعالی کا نام لے کر ذبح کرے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3621 ) ۔
3- ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جواستطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے نزدیک نہ آئے ) مسند احمد ، سنن ابن ماجہ ، امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے اورفتح الباری میں ہے کہ اس کے رجال ثقات ہیں ۔
ب - علماء کرام کا دوسرا گروہ کہتاہے کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے ، امام شافعی کا مسلک یہی ہے ،اور امام مالک ، اور امام احمد سے مشہورہے ، لیکن اس قول کے بہت سے قائلین کا کہنا ہے کہ طاقت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والے کےلیے ایسا کرنا مکروہ ہے ۔
Bookmarks