مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں توکل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہو گی وہ امر دینی اطاعت اللہ اور اتباع نبویﷺ کی وجہ سے ہو گی یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں کنبے قبیلےاور برادریاں صرف پہچان کے لئے ہیں تاکہ جتھا بندی اور ہمدردی قائم رہے۔ فلاں بن فلاں قبیلے والا کہا جاسکے اور اس طرح ایک دوسرے کی پہچان آسان ہو جائے ورنہ بشریت کے اعتبار سے سب قومیں یکساں ہیں صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو لوگوں نے کہا ہم یہ عام بات نہیں پوچھتے فرمایا پھر سب سے زیادہ بزرگ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو خود نبی تھے نبی ذادے تھے دادا بھی نبی تھے پردادا تو خلیل اللہ تھے انہوں نے کہاہم یہ بھی نہیں پوچھتے ۔ فرمایا پھر عرب کے بارے میں پوچھتے ہو ؟ سنو ! ان کے جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں ممتاز تھے وہی اب اسلام میں بھی پسندیدہ ہیں جب کہ وہ علم دین کی سمجھ حاصل کرلیں صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے مسند احمد میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا خیال رکھ کہ تو کسی سرخ وسیاہ پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا ہاں تقویٰ میں بڑھ جا تو فضیلت ہے ۔ طبرانی میں ہے مسلمان سب آپس میں بھائی بھائی ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ ۔ مسند بزار میں ہے تم سب اولاد آدم ہو اور خود حضرت آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں لوگو اپنے باپ دادوں کے نام پر فخر کرنے سے باز آؤ ورنہ اللہ تعالٰی کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادی ہلکے ہو جاؤ گے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر طواف کیا اور ارکان کو آپ اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے ۔ پھر چونکہ مسجد میں اس کے بٹھانے کو جگہ نہ ملی تو لوگوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ اتارا اور انٹنی بطن مسیل میں لے جا کر بٹھایا ۔ اس کے بعد آپﷺ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر لوگوں کو خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالٰی کی حمدو ثنا بیان کر کے فرمایا لوگو اللہ تعالٰی نے تم سے جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے باپ دادوں پر فخر کرنے کی رسم اب دور کر دی ہے پس انسان دو ہی قسم کے ہیں یا تو نیک پرہیزگار جو اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہیں یا بدکار غیر متقی جو اللہ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہیں پھر آپﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ پھر فرمایا میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے اپنے لئے اور تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ تمہارے نسب نامے دراصل کوئی کام دینے والے نہیں تم سب بالکل برابر کے حضرت آدم علیہ السلام کے لڑکے ہو کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہاں فضیلت دین و تقویٰ سے ہے انسان کو یہی برُائی کافی ہے کہ وہ بدگو ، بخیل ، اور فحش کلام ہو۔ ابن جریر کی اس روایت میں ہے کہ اللہ تعالٰی تمہارے حسب نسب کو قیامت کے دن نہ پوچھے گا تم سب میں سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی علیہ السلام منبر پر تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ مہمان نواز سب سے زیادہ پرہیزگار سب سے زیادہ اچھی بات کا حکم دینے والا سب سے زیادہ برُی بات سے روکنے والا سب سے زیادہ صلح رحمی کرنے والا ہے ۔
ایک اور حدیث مبارک میں ہے کہ
حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم ایک جنگ میں تھے اور سفیان نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ ہم ایک لشکر میں تھے تو مہاجرین میں سے ایک نے ایک انصاری کو مارا انصاری نے پکار کر کہا کہ اے جماعت انصار! اور مہاجرنے پکار کر کہا کہ اے جماعت مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا
یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو مارا آپ ﷺنے فرمایا جاہلیت کی اس پکار کو چھوڑو یہ برُا کلمہ ہے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:جاہلیت کی طرح گفتگو کرنے کی ممانعت
اس آیت اور احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو قوم پرستی کی کوئی حقیقت نہیں رہتی سوائے جاہلیت کے اور معلوم نہیں یہ قوم پرست رہنماء کس کے کہنے پر اُمت کو باہم متحارب کرنے کی ناپاک جسارت کررہے ہیں، یہ اس دنیا میں تو شاید کچھ ذاتی فوائد حاصل کرلیں مگر ان ظالموں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا کیونکہ ایک انسان کی زندگی بچانا گویا پوری انسانیت کو بچانا ہے اور ایک انسان کو بلاوجہ قتل کرنا گویا پوری انسانیت کا قتل کرنا ہے اور امت میں فتنہ پیدا کرناقتل سے بھی بدتر ہے اور قوم پرستی کی دعوت جاہلیت کی دعوت ہے یہ اتنی برُی دعوت ہے کہ جس کو سُن کر نبی علیہ السلام کو غصہ آیا اور اس طرح قوم پرستی کی آواز لگانے سے منع فرمایا اور ساتھ ہی اس کو جاہلیت کی پکار کے ساتھ تشبہ دی۔
آج افسوس کے ساتھ کہنہ پڑتا ہے کہ مسلمانوں کو پہلے تو دین کے نام پر فرقوں میں تقسیم کی گیا تھا کہ تم حنبلی ہو، تم مالکی ہو، تم شافعی ہو، تم حنفی ہو، تم جعفری ہو، تم سلفی ہو، اور یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ ہر امام کو ماننے والوں میں آگے کئی کئی جماعتیں اور گروہ وجود میں لائے گے کہ ہر کسی کا اپنا امیر و امام مقرر کیا گیا اور اپنا ایک علیحدہ سسٹم چلایا گیا۔ اور پھر خلافت کے نظام کو بذریعہ جنگ ختم کرکے ملکوں میں تقسیم کردیا گیا تھا کہ تم انڈین ہو، تم پاکستانی ہو، تم عراقی ہو، تم سعودی ہو، تم فلسطینی ہو، تم ایرانی ہو، تم افغانی ہو، یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ اب صوبوں کے نام پر بھی تقسیم کی جارہی ہے کہ تم سندھی ہو، تم پنجابی ہو، تم بلوچی ہو،تم پختون ہو، اور اب اس بھی آگے کی جاہلیت میں مسلمانوں کو لے جایا جا رہا ہے کہ زبان اور قبیلہ کے نام پر بھی امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ اتنے زیادہ ان کفار نے جال بھن دیے ہیں کہ ان کو کاٹنا مشکل سے مشکل تر ہوتاجارہا ہے اور مسلمانوں میں علم کی کمی کی وجہ سے اس عصبیت کو بہت چرچہ مل رہا ہے اور لوگ ان قوم پرست رہنماؤں کی باتوں میں پھنس رہے ہیں۔
Bookmarks