Results 1 to 12 of 22

Thread: wo hum men say nahi,وہ ہم میں سے نہیں

Threaded View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    asimmithu's Avatar
    asimmithu is offline Senior Member+
    Last Online
    3rd September 2021 @ 07:32 PM
    Join Date
    07 Mar 2010
    Location
    Gujrat
    Posts
    91
    Threads
    18
    Credits
    89
    Thanked
    24

    Post wo hum men say nahi,وہ ہم میں سے نہیں

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    آج میں آپ سب ساتھیوں کے لیئے وہ احادیث پیش کرنے جا رہا ہوں جن میں نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ایسا ایسا کام کرنے والے ہم میں سے نہیں ہیں، اس فقرے کی مراد مختلف علماء اور محدثین نے مختلف پیش کی ہے بعض نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہم اہل بیت میں سے نہیں ہیں، بعض نے کہا اس سے مراد مسلمانوں میں سے نہیں ہے، بعض نے کہا کہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے اور بعض نے کہا کہ وہ ہماری جماعت میں سے نہیں ہے، اب ان مفاہیم میں سے کوئی بھی فہم لیا جائے تو بھی بہت خطرناک معاملہ بنتا ہے اس لیئے بھائیو اور بہنو اپنی اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کہ ان سبھی برُے کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی ہمارے اعمال میں موجود نہیں رہنا چاہیئے کہ کہیں اس ارشادِ نبویﷺ کی زَد میں ہماری ذات نہ آ جائے کہ
    وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

    ویسے جہاں تک میں اس کو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر موقعہ پر اس کا معنی اور مفہوم بدل جاتا ہے یعنی جہاں معاملہ سنگین ہو وہاں اس کا معنی بھی سنگین ہوگا یعنی وہ ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہے اور جہاں معاملہ ہلکی نوعیت کا ہوگا وہاں معنی بھی ہلکا ہوگا یعنی وہ ہماری سنت پر نہیں ہے، باقی صحیح معنی اور مفہوم اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
    حدیث:۔
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر سے یا غلام کو اس کے آقا سے برگشتہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

    سنن ابوداؤد:جلد دوم:باب:طلاق کا بیان :عورت کو مرد کے خلاف برگشتہ کرنا
    تشریح:۔
    یہ ایک ایسا مرض ہے جس کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوسکتا تھا اسی لیئے نبیﷺ نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا کہ کوئی بھی اگر کسی عورت کو اس کے شوہر سے بدظن کرئے وہ ہم میں سے نہیں ہے، ایسا فرما کر نبیﷺ نے اپنی اُمت کو اس گٹیا فعل سے روکا ہے اب جو کوئی بھی نبیﷺ سے سچی محبت کرتا ہوگا وہ کبھی بھی ایسا عمل نہیں کرئے گا کیونکہ اس کی وعید بہت سخت ہے اور دوسرا آقا کو غلام سے بدظن کرنے والے کے متعلق ہے،الحمدللہ کہ اسلام کی برکت سے آج غلام اور آقا کا نظام ختم ہوچکا ہے، اسلام نے ایسے اچھے اچھے اصول وضع کیئے تھے کہ جن کی وجہ سے غلاموں کی نسل ختم ہوتے ہوتے ایک مہذب شہری کی حیثیت میں بدل گئی ہے مثلاً ان اصولوں میں سے کچھ یہ ہیں۔
    پہلا اصول:۔

    حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا جو ::ذی رحم::محرم رشتہ دار کا مالک ہو جائے تو وہ رشتہ دار آزاد ہے۔
    سنن ابن ماجہ:جلد دوم:باب:غلام آزاد کرنے کا بیان۔ :جومحرم رشتہ دار کا مالک ہوجائے تو وہ (رشتہ دار) آزاد ہے۔
    مثلاً باپ نے اپنے اس بیٹے کو خریدا جو کسی دوسرے شخص کی غلامی میں تھا یا بیٹے نے اپنے غلام باپ کو خریدا یا بھائی نے غلام خریدا تو محض خرید لینے کی وجہ سے وہ غلام آزاد ہو جائے گا ۔
    " ذی رحم " اس قرابت دار کو کہتے ہیں جو ولادت کی قرابت رکھے جس کا تعلق رحم سے ہوتا ہے ذی رحم میں بیٹا ، باپ ، بھائی چچا ، بھتیجا اور اسی قسم کے دوسرے قرابت دار شامل ہیں " اور محرم " اس قرابت دار کو کہتے ہیں جس سے نکاح جائز نہ ہو ۔
    دوسرا اصول:۔حضرت شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مرہ سے درخواست کی کہ بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے مجھے اللہ کے رسولﷺ کی کوئی بات سنائیے۔ فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے مسلمان غلام کو آزاد کیا تو وہ غلام اس کے دوزخ سے چھٹکارے کا باعث ہوگا اس کی ہر ہڈی کے بدلہ میں (دوزخ کی آزادی کے لیے) کافی ہے اور جو دو مسلمان لونڈیوں کو آزاد کرے تو وہ دونوں باندیاں دوزخ سے اس کی خلاصی کا باعث ہوں گی ان میں سے ہر ایک کی دوہڈیوں کے بدلہ میں اس کی ایک ہڈی کافی ہوگی۔
    سنن ابن ماجہ:جلد دوم:باب: غلام آزاد کرنے کا بیان۔ :غلام کو آزاد کرنا
    اس فرمانِ عالی شان میں لوگوں کے لیئے آخرت کی بھلائی حاصل کرنے کی ترغیب ہے اور ایک مسلم کے لیئے سب سے پہلی ترجع آخرت ہی ہوتی ہے اس لیئے اس اصول کی وجہ سے بھی بہت سے غلام آزادی کی نعمت حاصل کر گے۔
    تیسرا اصول:۔

    حضرت عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب کسی شخص کی لونڈی اس کے ( نطفہ ) سے بچہ جنے تو وہ لونڈی اس شخص کے مرنے کے پیچھے ۔ یا یہ فرمایا کہ اس شخص کے مرنے کے بعد آزاد ہو جائے گی ۔ " ( دارمی )
    مشکوۃ شریف:جلد سوم:باب:نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان :ام ولد ، اپنے آقا کی وفات کے بعد آزاد ہو جاتی ہے
    یہ ایک ایسا سنہری اصول ہے کہ جس کی وجہ سے ہزاروں باندیاں آزادی حاصل کر گئیں اور آہستہ آہستہ انہی اصولوں کی بدولت غلامی والا سسٹم ختم ہوگیا ہے۔الحمدللہ
    کیونکہ ہمارا اصل موضوع یہ نہیں ہے اس لیئے صرف تین اصول ہی پیش کر رہا ہوں ورنہ اور بھی بہت سے اصول بیان کیئے گیے ہیں جن پر عمل کرنے کی وجہ سے لاکھوں غلام لوگوں کی نسل آج باعزت زندگی بسر کر رہی ہے اور یہ سب اسلام کے بہترین نظام کی ایک چھوٹی سی جلک ہے۔

    Last edited by asimmithu; 6th June 2011 at 10:02 PM.

Similar Threads

  1. Replies: 4
    Last Post: 20th September 2021, 01:14 AM
  2. Replies: 10
    Last Post: 20th February 2012, 01:42 AM
  3. Replies: 12
    Last Post: 24th December 2011, 10:57 PM
  4. Replies: 12
    Last Post: 29th November 2010, 10:54 AM
  5. Replies: 7
    Last Post: 15th October 2009, 06:02 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •