Page 1 of 3 123 LastLast
Results 1 to 12 of 25

Thread: وسیلہ کے متعلق شبہات اور اس کا ازالہ مکمل ت

  1. #1
    Nasir rana1's Avatar
    Nasir rana1 is offline Advance Member
    Last Online
    20th December 2020 @ 03:28 AM
    Join Date
    22 May 2010
    Location
    Cape Town
    Gender
    Male
    Posts
    2,724
    Threads
    225
    Credits
    62
    Thanked
    482

    Post وسیلہ کے متعلق شبہات اور اس کا ازالہ مکمل ت



    وسیلہ
    التوسل ۔ لغۃً التقرب : وسیلہ کا لغوی معنی ہے قرب حاصل کرنا اور شرعًا جس چیز کے ذریعہ مطلوب کا قرب حاصل کیاجائے وسیلہ واسطہ اور سبب ہوتا ہے جو مراد تک پہنچا دے امام ابن اثیر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
    الواسل الراغب والوسیلۃ القربۃ والواسطۃ وما یتوصل بہ إلی الشیئِ ویتقرب بہ ۔ (النہایۃ لابن الاثیر ج ۵/۱۸۵)
    کہ وسیلہ قرب اور واسطہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ کسی چیز تک پہنچا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ قرب حاصل کیا جاتا ہے۔
    القاموس المحیط میں ہے :
    وسل إلی اﷲ توسیلاً عمل عملاً تقرب بہ الیہ (القاموس المحیط ج۴/۶۱۲ ۔ مادۃ وسل)
    ایسا کام کرنا جس کے ذریعہ مقصود کا قرب حاصل کیا جائے ۔

    قرآن کریم میں وسیلہ کا معنی( جو ہم نے وسیلہ کا لغوی معنی کیا ہے ) یہی معنی ہے جس کی سلف صالحین نے قرآن کریم میں وارد ہونے والے وسیلہ کی تفسیر کی ہے اور یہ اعمال صالحہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے معنی سے نہیں نکلے گا ۔
    قرآن کریم میں وسیلہ کا ذکر دو آیتوں میں آیا ہے ۔
    یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اﷲَ وَابْتَغُوْا إِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ (سورۃ المائدۃ آیت ۳۵)
    اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کی طرف نزدیکی کی جستجو کرتے رہو اور اس کی راہ میں جہاد کیا کرو تا کہ تمہارا بھلا ہو ۔

    اُوْلٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ إِلیٰ رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا (سورۃ الإسراء آیت ۵۷)
    جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کی نزدیکی کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ نزدیک ہو جائے وہ خود اس کی رحمت کی امید واری میں لگے رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوفزدہ ہیں بات بھی یہی ہے کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے ۔

    امام المفسرین حافظ ابن جریر رحمہ اللہ پہلی آیت کی تفسیر (اِتَّقُوا اﷲَ) میں فرماتے ہیں ۔
    اﷲ تبارک وتعالیٰ نے جو تم کو حکم دیا اور جس سے منع کیا ہے اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کے ذریعے اس کو قبول کر لو ۔ اور (وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ )کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے والے اعمال سے اس کا قرب حاصل کرو ۔
    حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وسیلہ کا معنی قرب نقل کیا ہے اور اسی طرح انہوں نے قتادۃ ‘ مجاہد ‘ عبداللہ بن کثیر ‘ سدی ‘ ابن زید رحمہم اللہ اور کئی دوسرے مفسرین سے یہی معنی نقل کیا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ اس معنی میں ائمہ مفسرین کا کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

    وسیلہ وہ ہے جس کے ذریعہ مقصد اور مراد کو پہنچا جائے ۔دوسری آیت کے شان نزول کی مناسبت (جو وسیلہ کے معنی کو واضح کرتی ہے) کو جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے جن تو مسلمان ہو گئے تھے اور ان لوگوں نے جنوں کے پہلے والے دین کو پکڑ لیا ۔ (بخاری کتاب التفسیر ج۸/۳۹۷)

    حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ جنوں کی عبادت کرتے رہے اور جن اس پر خوش نہیں تھے اس لئے وہ تو مسلمان ہو چکے تھے اور جن اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے تھے ۔ (فتح ا لباری ج۸/۳۹۷)

    اس آیت کی تفسیر میں یہی قول معتبر ہے جیسا کہ امام بخاریؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؒ سے نقل کر کے اس پرصراحت کی ہے ۔

    قرآن کریم کی آیت وسیلہ کو تقرب إلی اللہ کے معنی میں لینے پر صریح ہے اسی لئے تو یَبْتَغُوْنَ فرمایا یعنی جولوگ اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں ۔

    ان دونوں آیتوں میں وسیلہ کے معنی میں یہی تفسیرہم نے سلف صالحین سے نقل کی ہے اس پر لغت بھی اس کی تائید کرتی ہے ۔

    جن لوگوں نے ان دونوں آیتوں سے انبیاء علیہم السلام اور صالحین رحمہم اللہ کی ذات سے وسیلہ کے جواز پر استدلال کیا ہے تو ان کا یہ استدلال باطل ہے اور قرآن کریم کے اندر تحریف ہے اور لفظ کو اپنے ظاہری معنی سے پھیرنا ہے اور نص کو وہاں پر محول کرنا جس کا احتمال نہیں ہے ۔

    سلف صالحین اور ائمہ مفسرین رحمہم اللہ جن کے اقوال کو معتبر سمجھا جاتا ہے میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے جبکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وسیلہ وہ نیک عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اس نیک عمل کا شریعت کی رو سے معلوم ہونا ضروری ہے ۔

    کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان اعمال کا اختیار ہمیں نہیں دیا اور نہ ہی ان کی حد بندی کرناہماری عقلوں کے سپردکی ہے کیونکہ عقلیں مختلف اور جدا جدا ہوتی ہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان اعمال میں اپنی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے اور ہمیں چاہئیے کہ ہم اس معاملہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد اور اس کی تعلیم کی پیروی کریں اس لئے کہ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس کو کون سا عمل خوش کرتا ہے لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے وسائل کو پہچان لیں اور ہم اس مسئلہ میں قرآن و سنت کی طرف رجوع کریں ۔

    ہم نے پہلے ا س بات کی وضاحت کی ہے کہ عمل اس وقت تک قبول نہیں ہوتا جب تک خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور سنت کے مطابق نہ ہو ۔

    اس قاعدہ کی نباء پر وسیلہ کی دو قسمیں ہیں ۔

    1.شرعی وسیلہ
    بدعت وسیلہ.2

    Plz Resize ur Signature (MAX Size is 30 KB )

  2. #2
    zohaib14 is offline Junior Member
    Last Online
    6th August 2011 @ 05:31 AM
    Join Date
    20 Jun 2011
    Age
    39
    Gender
    Male
    Posts
    18
    Threads
    2
    Credits
    467
    Thanked
    4

    Default

    waseela jaiz ya najaiz???

  3. #3
    Nasir rana1's Avatar
    Nasir rana1 is offline Advance Member
    Last Online
    20th December 2020 @ 03:28 AM
    Join Date
    22 May 2010
    Location
    Cape Town
    Gender
    Male
    Posts
    2,724
    Threads
    225
    Credits
    62
    Thanked
    482

    Default

    شرعی وسیلہ :
    کتاب و سنت کی طرف رجوع کر کے ہم مشروع وسیلہ کو تین قسموں میں منحصر پاتے ہیں ۔
    (۱) اللہ تبارکوتعالیٰ کے اسماء اور صفات کے ذریعہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرنا ۔
    (۲) نیک اعمال کے ذریعہ اس کی طرف وسیلہ تلاش کرنا ۔
    (۳) نیک اور زندہ آدمی کی دعا سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرنا ۔
    ان شاء اللہ تعالیٰ ہم ان تینوں قسموں کو دلائل کے ساتھ بیان اور واضح کریں گے ۔

    (۱) اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کے ذریعہ اس کی طرف وسیلہ تلاش کرنا :

    وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی دعاء میں یوں کہے ۔
    اللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِاَنَّکَ اَنْتَ اﷲُ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ الْعَزِیْزُالْحُکِیْمُ اَنْ تُعَافِیَنِیْ ۔

    یا یوں کہے :
    اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِیْ وَسِعَتْ کُلّ َ شَیْئٍ اَنْ تَرْحَمَنِیْ ۔
    یا اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ سے دعاء اس کے اسماء حسنیٰ اور صفات علیا کے ذریعہ مانگ لے ۔

    وسیلہ کی اس قسم پرقرآن و حدیث کی نصوص دلالت کرتی ہیں ۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :
    وَﷲِ الاَسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا وَذَرُوْا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اَسْمَائِہٖ
    (سورۃ الأعراف آیت ۱۸)
    اور اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھ نام ہیں تم ان سے اللہ تعالیٰ سے دعاء کرو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ۔

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
    اَللّٰہُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبِ وَقُدْرَتِکَ عَلیٰ الْخَلْقِ اَحْیِنِیْ مَا عَلِمْتَ الْحَیَاۃَ خَیْرًا لِیْ وَتَوَفَّنِیْ اِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاۃَ خَیْرًا لِیْ (بخاری ج۱۰/۱۲۷ ومسلم ج۴/۲۰۶۴)

    اے اللہ میں تیرے علم غیب اور تیری مخلوق پر قدرت کے واسطہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ تیرے علم کے مطابق میرے لئے زندگی بہتر ہو اور مجھے اس وقت موت دے جب تیرے علم کے مطابق موت میرے لئے بہتر ہو ۔

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء استخارہ میں فرمایا :
    اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَ اَسْتَقْدِرُ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعِظِیْمِ (بخاری باب التہجد ج۳/۲۸ والدعوات ج ۱۱/۱۸۳ )

    اے اللہ ! بے شک میں آپ سے آپکے علم کے واسطے سے خیر طلب کرتا ہوں اور آپکی قدرت کے واسطہ سے ہمت طلب کرتا ہوں اور آپ سے آپکے فضل عظیم کا سوال کرتا ہوں ۔

    یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ (ترمذی ج۱۰/۲۶۷ والحاکم ج۱/۵۰۹ وھو حدیث حسن)

    اے ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والے ! آپ کی رحمت کے واسطے سے میں فریاد کرتا ہوں ۔(اور یہ حدیث حسن ہے )

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پریشانی کی دعاء میں فرمایا :
    اَسْئَلُکَ اَللّٰھُمَّ بِکُلِ اِسْمٍ ھَوْلَکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ اَوْ اَنْزَلْتَہُ فِیْ کِتَابِکَ اَوْ عَلَمَّتَہُ اَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ اَوِاسْتَأتَرْتَ بِہٖ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدِکَ (مسند احمد ج ۱/۳۹۱)

    اے اللہ میں تجھ سے تیرے ہر اس نام (کے واسطہ) سے سوال کرتا ہوں جو تو نے خود رکھا ہے یا اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے یا تو نے خود اپنے ہاں مخفی رکھاہے ۔

    اسی طرح کی اور بھی دعائیں کثرت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں :

    ۲ : نیک اعمال سے اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرنا

    جب نیک اعمال میں ان کی شروط کا لحاظ رکھا جائے : دعا مانگنے والا یوں کہے
    اَللّٰھُمَّ بِإِیْمَانِیْ بِکَ وَ مُحَبَّتِیْ لَکَ وَاتِّبَاعِیْ لِرَسُوْلِکَ اِغْفِرْلِیْ

    یا اسی طرح اور دعا مانگے ان دعاؤوں سے جو مشروع ہیں اس پر قرآن کریم بھی وضاحت اور دلالت کرتا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا :
    رَبَّنَا اِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (سورۃ آل عمران ۱۶)

    اے ہمارے رب ! ہم ایمان لائے سو بخش دے ہم کو ہمارے گناہ اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا ۔
    رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا اَنْزلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ (سورۃ آل عمران آیت ۵۳)

    اے ہمارے رب ! ہم نے یقین کیا ہے اس چیز کا جو تو نے اتاری اور ہم نے رسول کی پیروی کی سو تو لکھ دے ہم کو مانے والوں میں ۔

    رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِ یًایُنَادِیْ ........... (سورہ آلعمران آیت ۱۹۳)

    اے ہمارے رب ! بالیقین ہم نے سنا ایک پکارنے والا پکارتا ہے ایمان لانے کو کہ ایمان لاؤ اپنے رب پر سو ہم ایمان لائے اے ہمارے رب اب ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری برائیاں دور کر دے اور نیک لوگوں کے ساتھ ہم کو موت دے

    حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے سنا کہ وہ ان الفاظ سے دعا مانگ رہا ہے ۔
    اَللّٰھُمُّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِاَنِّیْ اَشْھَدُ اَنَّکَ اَنْتَ اﷲُ الَّذِیْ لا اِلٰہَ إِلاَّ اَنْتَ الاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًا اَحَدٌ (ترمذی کتاب الدعوات ج ۵/۵۱۵ وابن ماجہ کتاب الدعاء ج ۲/۱۲۶۷)

    اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں اس واسطہ سے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے مگر تو اکیلا ہے تو بے نیاز ہے جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا اور اس کا کوئی بھی ہمسر نہیں ہے ۔

    تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے اللہ تبارک و تعالی کے اسم اعظم کے ذریعہ دعا مانگی جس نے اس اسم اعظم کے ذریعہ دعا مانگی تو اللہ تعالی اس کی مراد پوری کرے گا جب اس اسم اعظم کے ذریعہ سے پکارا جائے تو اللہ تبارک و تعالی اس کی پکار کو قبول کرتا ہے ۔

    وسیلہ کی اس قسم پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس میں تین آدمیوں کے واقعہ کا ذکر ہے کہ وہ بارش کی وجہ سے ایک غار میں چلے گئے اور اوپر سے ایک چٹان گری جس نے غار کا منہ بند کر دیا تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم میں ہر ایک اپنے اپنے نیک عمل کے وسیلہ سے اللہ تبارک و تعالی سے دعا کرے تاکہ ہم کو اس (مصیبت ) سے نجات مل جائے ۔ تو ہر ایک نے اپنے نیک عمل کے وسیلہ سے دعا کی تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انکو اس مصیبت سے نجات عطا فرمائی ۔

    یہ قصہ مشہور و معروف ہے اس لئے اس کو مفصل ذکر نہیں کیا ۔ عقل سلیم رکھنے والوں کیلئے اشارہ ہی کافی ہے ۔
    یہ واقعہ نیک عمل ( جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے ہو ) کے وسیلہ کی مشروعیت پر دلالت کرتا ہے ۔

    (۳) نیک اور زندہ آدمی کی دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرنا

    مثلاً کوئی مسلمان کسی مصیبت اور پریشانی میں مبتلاء ہو جائے او راللہ تبارک تعالیٰ کے حق میں اپنی کوتاہی کو بھی جانتا ہے اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف قوی سبب پکڑنے کو پسند کرتا ہے تو وہ کسی نیک ، متقی ، پرہیز گار ، قرآن و سنت کی اتباع کرنے والے کے پاس آتا ہے اور اس سے اپنے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرواتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اسکی پریشانی کو دور کردے تو ایسا کرنا جائز ہے اس کے جواز پر حدیث اور صحابہ کرام ؓ کا عمل بھی دلالت کرتا ہے ۔

    حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی مسجد نبوی میں داخل ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر خطبہ ارشاد فرمارہے تھے تو اس اعرابی نے عرض کی اے اللہ کے رسول مال ہلاک ہو گئے اور راستے منقطع (ختم ) ہو گئے آپ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہم پر بارش برسائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک اٹھائے اور دعا مانگنے لگے ۔

    حضرت انس ؓ فرماتے ہیں (کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو ) میں نے آپکی بغل مبارک کی سفیدی دیکھ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی
    اَللّٰہُمَّ اَغِثْنَا ، اَللّٰہُمَّ اَغِثْنَا ، اَللّٰہُمَّ اَغِثْنَا ۔ اے اللہ ہمیں بارش عطا فرما ، اے اللہ ہمیں بارش عطا فرما ، اے اللہ ہمیں بارش عطا فرما ۔ اور لوگوں نے بھی آپکے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ۔

    حضرت انس ؓ فرماتے ہیں اللہ کی قسم ہم نے آسمان پر کسی قسم کا کوئی بادل نہیں دیکھا ہمارے درمیان او ر سلع نامی پہاڑ کے درمیان کوئی گھر نہیں تھا تو سلع پہاڑ کے پیچھے سے ایک ڈھال کی طرح چھوٹا سا بادل نمودار ہو اجب وہ آسمان کے بیچ میں آیا تو (ہر طرف) پھیل گیا او ر برسنے لگا پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک کو ابھی رکھا نہیںتھا کہ پہاڑوں کی طرح بادل پھیل گئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ممبر سے اترے نہیں تھے کہ میں نے آپکی داڑھی مبارک پر بارش کے قطرے ٹپکتے ہوئے دیکھے پھر ہم نے نماز پڑھی اور مسجد سے نکلے اور پانی میں چلنے لگے حتی کہ ہم اپنے اپنے گھروں کو پہنچ گئے او ربارش دوسرے جمعہ تک مسلسل برستی رہی پھر وہی اعرابی یا کوئی دوسرا آیا اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول آپ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کے بارش کو ہم سے روک لے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اپنے ہاتھ مبارک اٹھائے اور فرمایا :
    اَللّٰہُمَ حَوَالِیْنَا وَ لاَ عَلَیْنَا : اے اللہ بارش کو ہمارے ارد گرد تو برسا لیکن ہم پر نہ برسا ۔

    (آپکی اس دعا کے بعد )بادل چھٹ گئے اور مدینہ منورہ کے ارد گرد برسنے لگے او ربارش کا کوئی بھی قطرہ (اس کے بعد) مدینہ منورہ میںنہیں گرا ۔ (بخاری کتاب الاستسقاء) ۔

    صحابہ کرام ؓ کے عمل سے بھی پتہ چلتا ہے کہ نیک آدمی کی دعا سے وسیلہ پکڑنا جائز ہے اس واقعہ کو حضرت انس ؓ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ جس وقت لوگوں پر بارش بند ہوجاتی تو حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ کی دعا کے وسیلہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ سے بارش طلب کرتے اور کہتے اے اللہ ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے آپکی طرف وسیلہ تلاش کرتے تھے تو ہم پر بارش برساتا تھا او راب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کی دعا سے آپکی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں پس ہم پر بارش برسا۔

    حضرت انس ؓ فرماتے ہیں (کہ جب حضرت عمر ؓ ایسا کرتے تو ) لوگوں پر بارش برستی ۔ (بخاری ج ۲؍ ۴۹۴و فضائل اصحاب النبی ؐ ۱۱ ج ۷؍۷۷)۔

    حضرت عمر ؓ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہوتے تو ہم آپ ؐ کے پاس آکر ان سے دعا کرواتے تھے اور ہم ان کی دعا کے ذریعہ آپ کا قرب حاصل کرتے تھے اور اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف منتقل ہوگئے ہیں اور ان کا اب وہاں سے آکر ہمارے لیے دعا کرنا ممکن نہیں ہے پس ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں او رہم ان سے اپنے لئے دعا کرواتے ہیں ۔

    یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ اپنی دعا میں اَللّٰہُمَّ بِجَاہِ نَبِیِّکَ اَسْقِنَا ۔(کہ اے اللہ اپنے نبی کے مرتبہ اور اعزاز سے ہم پر بارش برسا ) کہتے تھے اور آپ ؐ کی وفات کے بعد اللھم بجاہ العباس اسقنا کہتے تھے ۔ اس لئے کہ یہ دعا بدعت ہے اسکی کتاب و سنت میں کوئی اصل نہیں ہے او رنہ ہی صحابہ کرام ؓ میں سے کسی نے اسی طرح کیا ہے۔

    حضرت عمر ؓ کی طرح حضرت معاویہ ؓ نے بھی حضرت یزید بن اسود ؒ کی دعا کے وسیلہ سے بارش طلب کی تھی ۔ (رواہ حافظ بن عساکر فی تاریخہ بسند صحیح ۔ و حافظ ابن حجر فی الاصابۃ) ۔

    حضرت یزید بن اسود ؒ فاضل تابعین میںسے تھے اگر کسی کی ذات یا جاہ و جلال کا وسیلہ مشروع ہوتا تو حضرت عمر اور حضرت معاویہ ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے عدول کر کے حضرت عباس ؓ اورحضرت یزید بن اسود ؒ کا واسطہ تلاش نہ کرتے ۔

  4. #4
    Nasir rana1's Avatar
    Nasir rana1 is offline Advance Member
    Last Online
    20th December 2020 @ 03:28 AM
    Join Date
    22 May 2010
    Location
    Cape Town
    Gender
    Male
    Posts
    2,724
    Threads
    225
    Credits
    62
    Thanked
    482

    Default ,

    (۲) بدعت وسیلہ :
    ماقبل ہم نے مشروع وسیلہ اور اسکی اقسام اور دلیلیں پہچان لی ہیں اور یہیں سے جانتے ہیں کہ اس کے علاوہ جو وسیلہ ہے جیسے بحق فلاں یا جاہ فلاں بدعت ہے اس وسیلہ پر کتاب و سنت کی کوئی نص دلالت نہیں کرتی ا ورنہ ہی اس قسم کا وسیلہ صحابہ کرام ؓاورتابعین عظام ؒ کی طرف سے منقول ہے لہٰذا اس بدعت وسیلہ کے باطل ہونے پر یہی کافی ہے اسی وجہ سے اکثر ائمہ محققین ؒنے اسکا انکار کیا ہے جس کسی بدعتی مولوی نے ا سکی اجازت دی ہے تو اس کے قول کا ادنیٰ سا بھی اعتبار نہیں ہے کیونکہ اس کا قول قرآن و حدیث کی صریح نصوص سے ٹکراتا ہے اور قرآن و حدیث دین میں بدعتیں ایجاد کرنے سے منع کرتے ہیں ۔
    وسیلہ کے بارے میں شبہات او ران کا رد

    ذات ، جاہ اور مرتبہ کے وسیلہ کے جواز کے قائلین جن دلیلوں سے استدلال کرتے ہیں تو یہ ادلہ دو حال سے خالی نہیں ہیں
    (۱)یا تو یہ دلیلیں صحیح ہونگی تو انہوں نے ان میں تحریف کی ہوگی اورظاہری معنی کو انہوں نے سمجھا نہیں ہوگا اورلفظ کو اپنے ظاہری معنی سے پھیر دیا ہو گا ۔
    ( ۲) یا یہ دلیلیں بالکل باطل اور موضوع ہونگی جن پر اعتماد نہیں کیا جاتا ۔ ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ان دونوں امروںپر مختصر سی روشنی ڈالیں گے ۔
    امر اول :

    وہ نصوص ہیں جن کو انہوں نے وہاں محمول کیا ہے جہاں انکو محمول نہیں کیا جاتا ذات کے ذریعہ وسیلہ کے قائل دو حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں اور اپنا یہ خیال فاسد کرتے ہیں کہ یہ دونوں حدیثیں انکے باطل مذھب کی تائید کرتی ہیں ۔
    حدیث اول :

    امام بخاری ؒ نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ جب لوگوں سے بارش رک جاتی تو حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ کے وسیلہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ سے بارش طلب کرتے اور کہتے اے اللہ بے شک ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آپکی طرف وسیلہ تلاش کرتے تھے تو ہم پر بارش برساتا تھا اوراب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے ذریعہ آپکی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں پس ہم پر بارش برسا ۔
    حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں پر بارش برسائی جاتی ۔ اس حدیث سے جاہل یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت عباس ؓ کی ذات اور انکی جاہ (جو انکا اللہ تعالیٰ کے ہاں مرتبہ تھا ) سے وسیلہ تلاش کیا نہ کہ انکی دعا سے ۔
    حضرت عمر ؓ کا وسیلہ صرف یہی تھا کہ انہوں نے دعا کروائی اور عباسؓنے اپنی دعا میں کہا کہ اے اللہ میری وجہ سے ان پر بارش برسا اور صحابہ کرام ؓ نے اس کو اسی پر برقرار رکھا ۔ یہ لوگ اپنے اس دعوی کو اپنے فاسد خیال سے ثابت کرتے ہیں ۔ ان کا یہ استدلال پانچ وجہوں سے باطل اور مردود ہے ۔

    (۱) اگر کسی کی ذات اورجاہ سے وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جو تمام مخلوقات سے افضل اوراعلیٰ ہیں ) کی ذات سے وسیلہ کو چھوڑ کر حضرت عباسؓ (جو فضیلت میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی گنا کم ہیں ) کی ذات سے وسیلہ تلاش نہ کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ انکو معلوم تھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا وسیلہ انکی زندگی میںتھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا مانگتے تو اللہ تعالیٰ انکی دعا کو قبول کرتا تھا جیساکہ اعرابی کے واقعہ میںما قبل گزر چکا ہے ۔

    (۲) انسان طبعاً جس وقت اسکو سخت حاجت پیش آتی ہے کسی بڑے وسیلہ (جو اسکو مقصود تک پہنچا دے ) کو تلاش کرتا ہے
    اگر ذات کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ انکی موت کے بعد کیسے چھوڑتے ؟ حالانکہ وہ خشک سالی اور قحط کی حالت میں تھے یہاں تک کہ اس سال کا نام قحط اور خشک سالی کا سال رکھا گیا ۔

    (۳) حدیث کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت عباسؓ کی دعا کے وسیلہ سے کئی مرتبہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے بارش طلب کی کیونکہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب بھی لوگوں سے بارش رک جاتی تو حضرت عمر ؓ حضرت عباس ؓ کی دعا کے وسیلہ سے بارش طلب کرتے تھے ۔

    اگر یہ بات حاصل ہو جائے کہ حضرت عمر ؓ نے زیادہ فضیلت والی ذات کے ہوتے ہوئے کم فضیلت والے کی طرف رجوع کیا ہے (جیسا کہ مخالفین کا خیال ہے ) تویہ بات صرف ایک ہی دفعہ حاصل ہوتی دوسری دفعہ توایسا نہ ہوتا بلکہ دوسری یا تیسری دفعہ تو زیادہ فضیلت رکھنے والی ذات کا وسیلہ ڈھونڈتے ۔

    (۴) قرآن و سنت کی مخالفت کرنیوالے ہمارے ساتھ اتنی بات میں تو متفق ہیں کہ حضرت عمرؓ کے اس قول (کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا ) اور اسی طرح (کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمٍ نَبِیِّنَا ) میں مضاف مقدر ہے مخالفین بِجَاہِ نَبِیِّنَا اور بِجَاہِ عَمِ نَبِیِّنَا مضاف مقدر نکالتے ہیں اور ہم بِدُعَائِ نَبِیِّنَا اور بِدُعَائِ عَمِّ نَبِیِّنَا مضاف مقدر نکالتے ہیں ۔

    مضاف مقدر کی تعیین میں مرجع سنت ،او رواقعہ سیاق و ما قبل ہے ۔ اب ہم غور و فکر اور تدبر کرتے ہیں کہ یہاں پر مضاف جاہ (ذات) ہے یا دعاء ہے ۔

    آپ ہمارے ساتھ آئیں ۔ حضرت عمر ؓ اور صحابہ کرام ؓ اپنے اپنے گھروں میں نہیں بیٹھے اور گھروں میں بیٹھ کر انہوں نے یوں کہا ہو کہ ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے ذریعہ آپکی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں ۔ بلکہ صحابہ کرام ؓ عید گاہ کی طرف تشریف لائے اور اپنے ساتھ حضرت عباس ؓ کو لائے اور ان سے اپنے لئے دعا کروائی اب اس سے واضح اور روشن ہو گیا کہ یہاں مقام (دعا کا مقام ہے ) اگر مقام ذات اور جاہ کے وسیلہ کا مقام ہوتا تو صحابہ کرام ؓ کے یہ زیادہ لائق ہوتا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میںبیٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اورجاہ سے وسیلہ پکڑتے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اورجاہ اپنے رفیق اعلیٰ کیطرف منتقل ہونے سے متغیر نہیں ہوئی ۔لیکن حضرت عمرؓ اور انکے ساتھ صحابہ کرام ؓ جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں ہوچکے ہیںجو اس حالت سے مختلف ہے جس پر وہ اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف منتقل ہونے سے پہلے تھے ۔

    اس لئے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام ؓمیں موجود ہوتے تو صحابہ کرام ؓ آپ ؐ کی خدمت اقدس میں تشریف لاتے اور آپؐ سے دعا کرواتے تھے ۔
    اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے بعد برزخی زندگی میں ہیں جس کی کیفیت ماسوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور برزخی زندگی دنیا کی زندگی اورحوال سے بالکل مختلف ہے ۔

    (۵) اسی طرح کا عمل بعض دوسرے صحابہ کرام ؓ کی طرف سے بھی ثابت شدہ ہے جیسا کہ حضرت معاویہؓ نے حضرت یزید بن اسود ؓ کی دعا کے وسیلہ سے بارش طلب کی ۔

    او ر اسی طرح کا عمل حضرت ضحاک بن قیس ؓ نے بھی حضرت یزید بن اسود ؒ کے ساتھ کیا تھا ۔

    یہ سب ادلہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صحابہ کرام ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ آپکی وفات کے بعد تلاش نہیں کیا بلکہ وہ تو نیک ، صالح ، زندہ اور دعاء پر قادر شخص کو تلاش کرتے تھے اور اس سے اپنے لئے دعاء کرواتے تھے ۔

    اگر ذات اور جاہ کا وسیلہ مشروع اور جائز ہوتاتو صحابہ کرام ؓاس کیطرف سب سے آگے بڑھتے اس لئے کہ وہ تو ہر چھوٹی و بڑی نیکی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے میں حریص ہوتے تھے ۔ اگر یہ بات وارد اور طے شدہ ہوتی تو وہ اس کو ہماری طرف منتقل کر دیتے ۔
    حدیث ثانی :

    جس کو امام احمد ، امام ترمذی اور ابن ماجہ ؒ نے حضرت عثمان بن حنیف ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک نابینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ا ور عرض کی اے اللہ کے رسول آ پ اللہ تعالی سے دعاء کریں کہ وہ مجھے عافیت عطا فرمائے ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر آپ چاہیں تو میں آ پ کے لئے دعاء کرتا ہوں اور اگر آپ چاہیں تو تم صبر کرو اور یہ صبر کرنا آپ کے لئے بہتر ہے تو اس نابینا نے عرض کی کہ آپ میرے لئے دعاء فرمادیں تو آپ نے اسے حکم دیا کہ تم اچھی طرح وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھو اور یہ دعاء مانگو :

    اَللّٰھُمَّ اِنیِّ اَسْئَلُکَ وَ اَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّی تَوَجَّہْتُ بِکَ اِلیٰ رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ہٰذِہِ فَتُقْضٰی لِیْ اَللّٰہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ وَ شَفِّعْنِیْ فِیْہٖ ۔

    اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور میں آپکی طرف آپکے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمت والے نبی (کی دعائ) کے واسطہ سے متوجہ ہوتا ہوںاے اللہ کے

    رسول میں آپ کی دعاء کے واسطہ سے اپنے رب کی طرف اپنی اس حاجت میں متوجہ ہوا ہوںپس میرے لئے میری حاجت کو پورا کیا جائے اے اللہ میرے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفارش قبول فرما اور میری اس کے بارے میں شفارش قبول فرما۔

    حضرت عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ اس نابینا نے اسی طرح کیا تو وہ تندرست ہو گیا۔ (ترمذی ، مسند احمد )

    ذات اور جاہ کے ذریعہ وسیلہ کا جواز تلاش کرنے والے یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ حدیث انکے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ صالحین کی ذات اورجاہ کے ذریعہ وسیلہ کے جواز پر دلیل ہے چنانچہ نابینا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ تلاش کیا تو اسکی آنکھیں صحیح اور تندرسست ہو گئیں اوروہ دیکھنے کے قابل ہو گیا ۔
    در حقیقت ان کا یہ استدلال باطل ہے بلکہ یہ حدیث تو مشروع وسیلہ کی قسموں میں سے تیسری قسم ہے اور وہ نیک اور زندہ آدمی کی دعاء کا وسیلہ ہے ۔

    اور عین ممکن ہے کہ ان کا یہ استدلال اسی حدیث کی رو سے ٹوٹ جائے اور بفضلہ تعالیٰ ٹوٹ رہا ہے توجہ کیجئے ۔

    (۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںنابینا اپنے لئے دعاء کروانے کی غرض سے حاضر ہوا تھا اور یہ اسکے ا س قول اُدْعُ اﷲَ اَنْ یُعَافِیـَنِیْ (یعنی میرے لئے اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعاء کریں ) سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء کے ذریعہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کیا تھا کیونکہ وہ نابینا جانتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے بخلاف دوسرے آدمی کی دعاء کے ۔

    اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور جاہ کا وسیلہ جائز ہوتا تو وہ نابینا اپنے گھر بیٹھ کر وسیلہ تلاش کرتا لیکن وہ آپؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ سے دعاء کا مطالبہ کیا ۔

    (۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دعاء کا وعدہ کیا اور ساتھ ساتھ اسکو نصیحت بھی کی جو اس کیلئے بہتر اور افضل تھی اور وہ نصیحت یہ تھی ۔
    اِنْ شِئْتَ دَعَوتُ وَ اِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَہُوَ خَیْرٌ لَکَ ۔

    اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے لئے دعاکرتا ہوں اور اگر آپ چاہیں تو صبر کریں اور یہ آپ کے لئے بہتر ہے ۔

  5. #5
    zohaib14 is offline Junior Member
    Last Online
    6th August 2011 @ 05:31 AM
    Join Date
    20 Jun 2011
    Age
    39
    Gender
    Male
    Posts
    18
    Threads
    2
    Credits
    467
    Thanked
    4

    Default

    bilkul sahi kaha aap ne, lekin kuch log to kehte hai ke waseela shirk hai. direct mango, direct mango bus yehi rat lagate hai

  6. #6
    Nasir rana1's Avatar
    Nasir rana1 is offline Advance Member
    Last Online
    20th December 2020 @ 03:28 AM
    Join Date
    22 May 2010
    Location
    Cape Town
    Gender
    Male
    Posts
    2,724
    Threads
    225
    Credits
    62
    Thanked
    482

    Default


    (۳) نابینا نے دعا پر اصرار کیا اوریہ اس کے اس قول اُدْعُہٗ (یعنی آپؐ دعا کردیں ) سے پتہ چلتا ہے یہ اس بات کا تقاضاکرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے دعا کی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ وعدہ وفا تھے اس لئے کہ آپؐ نے اس سے دعاء کا وعدہ کیا تھا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔

    (۴) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی بہترین طریقہ کی طرف راہنمائی کی اور وہ نیک عمل اور دعا کو جمع کرنا ہے چنانچہ آپ ؐ نے اسے حکم دیا کہ وہ وضوء کرے اور نمازپڑھے پھر دعا مانگے ۔

    (۵) اس دعا میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سکھائی اَللّٰہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ کے الفاظ ہیں یعنی وہ یہ کہے کہ اللہ میرے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفارش قبول فرما :
    اب اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اورجاہ کے وسیلہ پر محمول کرنا محال ہے ۔
    اس لئے کہ دعا کا معنی یہ ہے کہ اے اللہ آپکا میری آنکھوں کو شفاء دینے میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو قبول فرما ۔ اور شفاعت لغت میں دعا کو کہتے ہیں :

    (۶) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا کو سکھایا کہ وہ وَ شَفِّعْنِیْ فِیْہٖ کہے یعنی میری دعا کو اس نابینا کے بارے میں قبول فرما کہ اس کی آنکھیں تندرست ہو جائیں ۔

    اس جملہ کے علاوہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس سے کوئی دوسرا اور جملہ (معنی ) سمجھا جائے ۔ لہٰذا ہم مخالفین کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس جملہ ( معنی ) سے منہ موڑتے ہیںاور اس کو اپنی کتابوں میںنہیں لاتے اسلئے کہ انکو معلوم ہے کہ یہ جملہ ان کے فاسد قول کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے ۔

    (۷) اس حدیث کو علماء کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اورآپکی مقبول دعاؤںمیںشمار کیا ہے اوراللہ تباک و تعالیٰ نے آپکی دعاکی برکت سے مختلف بیماریوں سے نجات کو ظاہر کیا ۔ اس نابینا کی آنکھوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے تندرست کیا ۔ اسی لئے تو مصنفین ؒ نے اس حدیث کو دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے جیسا کہ امام بیہقی ؒ وغیرہ نے ۔

    یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ نابینا کی شفاء میں راز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہی ہے اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اگر بالفرضِ محال راز اکیلے نابینا کی دعا میں ہوتا نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں تو پھر ہر ایک نابینا خالص اللہ تبارک و تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعا کرتا تو اسے شفاء ہو جانی چاہئے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ پتہ نہیں کہ روزانہ کتنے نابینے اپنے اپنے لئے دعا کرتے ہوں گے اور وہ سب اسی حالت میں ہوں بلکہ ان میں سے کسی ایک کو شفاء ہونی چاہئے ۔

    نابینا کی حدیث سے مخالفین کے استدلال کے ٹوٹنے کے درمیان ہمارے لئے واضح اور روشن ہو گیا ہے کہ حدیث کے شروع سے لیکر آخر تک دعا اورعمل صالح کا مقام (ذکر ) ہے جس کے ذریعہ دعا کرنے والا کھڑا ہوتا ہے چہ جائیکہ وہ دعا نبوت کے معجزات میں سے ہو جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے :

  7. #7
    Nasir rana1's Avatar
    Nasir rana1 is offline Advance Member
    Last Online
    20th December 2020 @ 03:28 AM
    Join Date
    22 May 2010
    Location
    Cape Town
    Gender
    Male
    Posts
    2,724
    Threads
    225
    Credits
    62
    Thanked
    482

    Default


    دوسرا شبہ

    وہ ضعیف اور موضوع حدیثیں ہیںجن کے ذریعہ مخالفین نے ذات کے وسیلہ کے جواز پر استدلال کیا ہے ۔
    ان احادیث کے رد ہونے میںان کا ضعیف اور موضوع ہونا ہی کافی ہے ۔ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ان کے ضعف کی علت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہیں :

    (۱) حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث ہے ۔
    اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ السَّائِلِیْنَ عَلَیْکَ ۔(مسند احمد )

    اے اللہ میں سائلین کے آپ پر حق کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ۔

    یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس حدیث کو عطیہ عوفی نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے اور عطیہ عوفی ضعیف راوی ہے ۔ جیسا کہ امام نووی ؒ نے الاذکار میں اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے القاعدۃ الجلیلہ میں ، اور علامہ ذھبیؒ نے میزان الاعتدال میں بلکہ علامہ ذھبی ؒ نے الضعفاء ج ۱ ، ص ۸۸ میں کہا ہے کہ عطیہ عوفی کے ضعیف ہونے پر علماء نے اجماع کیا ہے ۔ اور علامہ ھیثمی ؒ نے مجمع الزوائد کی کئی جگہوں میں اس کو ضعیف کہا ہے ۔

    (۲) وہ حدیث ہے جس کی امام حاکم ؒ نے حضرت عمر بن خطابؓ سے مرفاعاً تخریج کی ہے ۔
    لما اقترف آدم الخطیئۃ قال یا رب أسئلک بحق محمد لما غفرت لی فقال یا آدم و کیف عرفت محمداً و لم اخلقہ قال یا رب لما خلقتنی بیدک ونفخت فی من روحک رفعت رأسی فرأیت علی قوائم العرش مکتوباً لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ فعلمت أنک لم تضف إلی اسمک الا احب الخلق إلیک فقال غفرت لک ولولا محمد ما خلقتک (مستدرک حاکم )


    جب حضرت آدم ؑ نے غلطی کا اعتراف کیا تو عرض کی اے میرے رب میں آپ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے بخش دیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم آپ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح پہچانا حالانکہ میں نے اسکو پید ابھی نہیں کیا تو حضرت آدم ؑ نے عرض کی اے میرے رب جب آپ نے مجھے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور آپ نے مجھ میں اپنی روح پھونکی تو جب میں نے اپنا سر اٹھایا تو میں نے آپکے عرش کے پائیوں پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا تو میں نے جان لیا کہ آپ نے اپنے نام کی طرف اسی کو منسوب کیا ہے جو تمام مخلوق میں آپکو محبوب ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ میں نے آپکو بخش دیا اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں آپکو پید ا نہ کرتا ۔

    یہ حدیث موضوع ہے جیساکہ امام ذھبی ؒ نے کہا ہے چنانچہ انہوں نے امام حاکم ؒ کا تعاقب کیا ہے ، امام ذھبیؒ نے فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث موضوع ہے اس میںعبدالرحمن ضعیف راوی ہے اور عبداللہ بن اسلم الفھری کو میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے جیسا کہ اس حدیث میں عبداللہ بن مسلم بن رشید ہے حافظ ابن حجر ؒ نے اس پر جرح کی ہے ابن حبان فرماتے ہیں کہ اس پر حدیثوں کے گھڑنے کی تہمت لگی ہوئی ہے: لیث اور مالکؒ پر حدیثیں گھڑتا تھا ۔
    ابن لھیعہ کے بارے میں ہے کہ اس کی حدیث کو لکھنا جائز نہیں ہے ۔

    (۳) توسلوا بجاھی فان جاھی عنداللہ عظیم (القاعدۃ الجلیلۃ ص ۱۳۰ م، ۱۵۰ ، والتوسل ص ۱۱۴)

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میری ذات اور جاہ کا وسیلہ تلاش کیا کرو بے شک اللہ تعالیٰ کے ہاں میری ذات اور جاہ بہت بڑی ہے ۔

    یہ حدیث بھی موضوع ہے بلکہ اس کی اصل حدیث کی کسی بھی کتا ب سے نہیں ملتی ۔ بلکہ یہ حدیث بدعتیوں اور قبر پرستوں کی بعض کتابوں میں پائی جاتی ہے ۔

    اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور جاہ بہت بڑی ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مخلوق سے افضل او راعلیٰ ہیں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    انا سید ولد آدم ولا فخر ( المناقب سنن ترمذی :وابن ماجہ مسند احمد )

    میں حضرت آدم ؑ کی اولاد کا سردار ہوں اس میں فخر کی کوئی بات نہیں ہے ۔
    اس کے باوجود ہمارے لئے اس قسم کا وسیلہ جائز نہیں ہے ۔چونکہ اس حدیث کا بطلان واضح ہو چکا ہے یہاں پر دوسری اور بھی موضوع او رضعیف روایات ہیں جن کو قبر پرست اپنے باطل اور جھوٹے مذھب کی تائید کیلئے لائے ہیں ہم ان میں طویل بحث کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کیونکہ یہ تمام احادیث نفس اسی معنی کے ارد گرد گھومتی ہیں جس کو میں نے پہلی والی احادیث میں ذکر کیا ہے ۔ اب ثابت اور واضح ہو چکا ہے کہ ذات اور جاہ کے وسیلہ کے بارے میں کوئی ایک بھی قابل اعتماد حدیث نہیں ہے ۔

  8. #8
    zubairrox is offline Senior Member+
    Last Online
    3rd May 2012 @ 12:32 PM
    Join Date
    02 Dec 2010
    Age
    35
    Gender
    Male
    Posts
    106
    Threads
    3
    Credits
    0
    Thanked
    16

    Default

    Quote Nasir rana1 said: View Post
    [FONT="Garamond"][COLOR="Purple"][SIZE="5"][font="jameel noori nastaleeq "][right]
    (۳) نابینا نے دعا پر اصرار کیا اوریہ اس کے اس قول اُدْعُہٗ (یعنی آپؐ دعا کردیں ) سے پتہ چلتا ہے یہ اس بات کا تقاضاکرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے دعا کی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ وعدہ وفا تھے اس لئے کہ آپؐ نے اس سے دعاء کا وعدہ کیا تھا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔

    (۴) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی بہترین طریقہ کی طرف راہنمائی کی اور وہ نیک عمل اور دعا کو جمع کرنا ہے چنانچہ آپ ؐ نے اسے حکم دیا کہ وہ وضوء کرے اور نمازپڑھے پھر دعا مانگے ۔

    (۵) اس دعا میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سکھائی اَللّٰہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ کے الفاظ ہیں یعنی وہ یہ کہے کہ اللہ میرے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفارش قبول فرما :
    اب اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اورجاہ کے وسیلہ پر محمول کرنا محال ہے ۔
    اس لئے کہ دعا کا معنی یہ ہے کہ اے اللہ آپکا میری آنکھوں کو شفاء دینے میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو قبول فرما ۔ اور شفاعت لغت میں دعا کو کہتے ہیں :
    kya baat hai hadees me waseele ka saaf saaf likha hai to usko apne hi andaaz se hata kar byaan kardiya. zabardast, koi hawala do warna tum jhoote ho sab se bare.

    yar zaeef ki rat to baad me lagana pehle ye batao ke zaeef ka matlab aur is ka hukm. aur mene jo bukhari shareef ki hadees post ki thi unka kya hua. us me bhi maza nahi aya. ya dil nahi man raha ho ga kyu ke tumhare aqeede ke khilaaf hai is liye nahi mante.hahah

    chale kher hai waseela
    shirk
    se
    jaiz
    ho gaya, khud hi saboot diye hai, ab nahi kahe ge ke direct mango, kya Allah direct nahi sunta. ab waseela jaiz hai chahe Amaal ho, banda ho, zinda ho, ya Mazar me ho, sab ka jaiz man liya.

  9. #9
    azkraja is offline Senior Member+
    Last Online
    11th December 2018 @ 01:44 PM
    Join Date
    16 Mar 2010
    Gender
    Male
    Posts
    427
    Threads
    4
    Credits
    12
    Thanked
    42

    Default

    "Ah Allah hum teri hi ibadat kartay hain aur tujh hi say madad talab kartay hain". Is ki tafseer dil ki ankhain khool kar parh lain, Allah hum sab ko hidayat day aur seeday rastay par chalaiy. is kay bawjood agar koi shaitani rah ya deen main bidhat nikaly tu hazoor ka furman yad rakhay, kay wo apna thikana jahanam bana lay.

  10. #10
    Nasir rana1's Avatar
    Nasir rana1 is offline Advance Member
    Last Online
    20th December 2020 @ 03:28 AM
    Join Date
    22 May 2010
    Location
    Cape Town
    Gender
    Male
    Posts
    2,724
    Threads
    225
    Credits
    62
    Thanked
    482

    Default

    Quote azkraja said: View Post
    "Ah Allah hum teri hi ibadat kartay hain aur tujh hi say madad talab kartay hain". Is ki tafseer dil ki ankhain khool kar parh lain, Allah hum sab ko hidayat day aur seeday rastay par chalaiy. is kay bawjood agar koi shaitani rah ya deen main bidhat nikaly tu hazoor ka furman yad rakhay, kay wo apna thikana jahanam bana lay.

    bhai waqai ALLAH humein sidhay rastay per chalaye,,
    aur ALLAH ke deen per chalne ke taufeeq de,,ameeen
    aur hidayat ALLAH ke hath mein hai
    woh jisay chahe daita hai
    jisay na chahe nahi daita


  11. #11
    *Xpert~Baba*'s Avatar
    *Xpert~Baba* is offline SHD38SK
    Last Online
    11th January 2018 @ 08:47 PM
    Join Date
    01 May 2010
    Location
    GHAR
    Gender
    Male
    Posts
    12,921
    Threads
    907
    Credits
    983
    Thanked
    2337

    Default

    Quote zubairrox said: View Post
    kya baat hai hadees me waseele ka saaf saaf likha hai to usko apne hi andaaz se hata kar byaan kardiya. Zabardast, koi hawala do warna tum jhoote ho sab se bare.

    Yar zaeef ki rat to baad me lagana pehle ye batao ke zaeef ka matlab aur is ka hukm. Aur mene jo bukhari shareef ki hadees post ki thi unka kya hua. Us me bhi maza nahi aya. Ya dil nahi man raha ho ga kyu ke tumhare aqeede ke khilaaf hai is liye nahi mante.hahah

    chale kher hai waseela
    shirk
    se
    jaiz
    ho gaya, khud hi saboot diye hai, ab nahi kahe ge ke direct mango, kya allah direct nahi sunta. Ab waseela jaiz hai chahe amaal ho, banda ho, zinda ho, ya mazar me ho, sab ka jaiz man liya.
    tum khoob janty ho k wasela hota kia hay .....aur aj k dour men ban kia giya hay
    bhai aik sawal ka jawab dety hen to dosra pochty ho dosary ka jawab dety hen to dobara pehla sawal poch lety ho
    zara pori debate ko yaad rakha karo
    aik he sawal ka kachomar na nikalo.....ghuma phira ker tum bt waheen lay aty ho k men na manoo...........
    Jo bukhari shareef men ap waseely ka hawala day rahy hen hum wohi to apko samjha rahy hen k bhai wasela aik proper aur limited process ka naam hota hay andhi taqlled ka naam nhe hota k sheriat ko maskh ker k rakh do...........ap usi hadees ko pora ka pora aaj ki sab se buri bidaat per impliment kerNY PER TULLY HUE HO..............BEHES JIS BAAT PER HO RAHI HAY US TOPIC KO YAAD RAKHA KREN

  12. #12
    naveed hafiz is offline Senior Member+
    Last Online
    24th August 2011 @ 04:48 PM
    Join Date
    10 Jun 2011
    Age
    40
    Gender
    Male
    Posts
    79
    Threads
    0
    Credits
    740
    Thanked
    8

    Default

    subhan Allah subhan Allah
    bohot hi zabardast janab
    Allah apko jazaye khair de Aameen

Page 1 of 3 123 LastLast

Similar Threads

  1. Replies: 2
    Last Post: 5th November 2016, 11:36 PM
  2. Replies: 7
    Last Post: 5th May 2011, 04:20 PM
  3. Replies: 7
    Last Post: 7th February 2010, 01:48 AM
  4. Replies: 3
    Last Post: 31st December 2009, 11:05 PM
  5. Replies: 0
    Last Post: 13th September 2009, 09:11 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •