وِتر
آپﷺ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعت وتر ثابت ہیں۔
سیدنا ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
«الوتر حق على کل مسلم، فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل، ومن حب أن یوتر بثلاث فلیفعل، ومن أحب أن یوتر بواحدة فلیفعل»(سنن ابوداود:١٤٢٢)
’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے۔ چنانچہ جو پانچ وتر ادا کرنا پسند کرے وہ پانچ پڑھ لے اور جو تین وتر پڑھنا پسند کرے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک رکعت وتر پڑھنا پسند کرے تو وہ ایک پڑھ لے۔‘‘
سیدہ اُمّ سلمہؓ فرماتی ہیں:
کان رسول اﷲ یوتر بسبع أو بخمس… الخ (سنن ابن ماجہ:١١٩٢)
’’ رسول اللہﷺسات یا پانچ وتر پڑھا کرتے تھے۔‘‘
وِتر پڑھنے کا طریقہ
1۔تین وتر پڑھنے کے لئے دو نفل پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے۔ سیدہ عائشہ ؓسے روایت ہے:
کان یوتر برکعة وکان یتکلم بین الرکعتین والرکعة
’’آپؐ ایک رکعت وتر پڑھتے جبکہ دو رکعت اور ایک کے درمیان کلام کرتے۔‘‘
مزیدسیدنا ابن عمر کے متعلق ہے کہ
صلىٰ رکعتین ثم سلم ثم قال: أدخلوا إليّ ناقتي فلانة ثم قام فأوتر برکعة (مصنف ابن ابی شیبہ:٦٨٠٦)
’’اُنہوں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیر دیا۔پھر کہا کہ فلاں کی اونٹنی کو میرے پاس لے آؤ پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت وتر ادا کیا۔‘‘
2۔پانچ وتر کا طریقہ یہ ہے کہ صرف آخری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیرا جائے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
کان رسول اﷲ ﷺ یصلي من اللیل ثلاث عشرة رکعة، یوتر من ذلک بخمس، لا یجلس فی شيء إلا في آخرها (صحیح مسلم:٧٣٧)
’’رسول اللہ رات کو تیرہ رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ ان میں سے پانچ وتر ادا کرتے اور ان میں آخری رکعت ہی پر بیٹھتے تھے۔‘‘
3۔سات وتر کے لئے ساتویں پر سلام پھیرنا:
سیدہ عائشہؓ سے ہی مروی ہے کہ سیدہ اُمّ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ
کان رسول اﷲ ﷺ یوتر بسبع وبخمس لا یفصل بینهن بتسلیم ولا کلام (سنن ابن ماجہ :١١٩٢)
’’نبی ﷺسات یا پانچ وتر پڑھتے ان میں سلام اور کلام کے ساتھ فاصلہ نہ کرتے۔‘‘
4۔نو وتر کے لئے آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھا جائے اور نویں رکعت پر سلام پھیرا جائے۔ سیدہ عائشہؓ نبیﷺ کے وتر کے بارے میں فرماتی ہیں:
ویصلي تسع رکعات لا یجلس فیها إلا في الثامنة … ثم یقوم فیصلي التاسعة (صحیح مسلم:٧٤٦)
’’آپﷺ نو رکعت پڑھتے اور آٹھویں رکعت پر تشہد بیٹھتے …پھر کھڑے ہوکر نویں رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے۔‘‘
قنوتِ وتر:
آخری رکعت میں رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھنا راجح ہے۔(رکوع کے بعد قنوتِ وتر سے متعلقہ حدیث جو کہ السنن الکبری للبیہقی:3؍38، 39 اور مستدرک حاکم:3؍172 میں ہے ۔اس کی سند پر محدثین نے کلام کیا ہے۔البتہ قنوتِ نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے رکوع کے بعد قنوتِ وتر پڑھنا جائز ہے ۔جیسا کہ قنوتِ وتر میں قنوتِ نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔)
سیدنا اُبی بن کعبؓ سے روایت ہے:
أن رسول اﷲ کان یوتر فیقنت قبل الرکوع (سنن ابن ماجہ:١١٨٢)
’’بے شک رسول اللہﷺ وتر پڑھتے تو رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔‘‘
وتر کی دعا
«اَللّٰهُمَّ اهْدِنِيْ فِیْمَنْ هَدَیْتَ وَعَافِنِيْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِكْ لي فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنِيْ شَرَّ مَاقَضَیْتَ فَإنَّكَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْك إنَّه لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ» (سنن ترمذی:٤٦٤،بیہقی :٢٠٩٢)
’’اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں کے ساتھ جنہیں تو نے ہدایت دی،مجھے عافیت دے ان لوگوں کے ساتھ جنہیں تو نے عافیت دی، مجھ کو دوست بنا ان لوگوں کے ساتھ جنہیں تو نے دوست بنایا۔ جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے اس چیز کے شر سے بچا جو تو نے مقدر کردی ہے، اس لئے کہ تو حکم کرتا ہے، تجھ پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا ۔جس کو تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پاسکتا۔ اے ہمارے ربّ! تو برکت والا ہے، بلند و بالا ہے۔‘‘
نمازِ جمعہ کی رکعات
نوافل:
نمازِ جمعہ سے پہلے دو رکعت نوافل ادا کیے جاتے ہیں،جیسا کہ ارشادِ نبویﷺہے:
«إذا جاء أحدکم یوم الجمعة والإمام یخطب فلیرکع رکعتین» (سنن ابوداؤد:٩٨٨)
’’جب تم میں کوئی جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں ادا کرے‘‘
یہ جمعہ کے کوئی مخصوص نوافل نہیں ہیں بلکہ آپﷺکے دو سرے عام حکم :
«إذا دخل أحدکم في المسجد لا یجلس حتی یصلى رکعتین» (صحیح بخاری:١١٦٣)
’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو دو رکعت نماز پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔‘‘
کے مطابق یہ تحیۃ المسجد کے نوافل ہیں۔
نوٹ:
جمعہ کے فرائض سے پہلے نوافل کی تعداد محدود نہیں ہے۔اِستطاعت کے مطابق جتنے کوئی پڑھ سکے،پڑھ سکتاہے، جس کی دلیل آپ ﷺکا فرمان:
«من اغتسل ثم أتىٰ الجمعة فصلى ما قدر له»(صحیح مسلم:٨٥٧)
’’جو شخص غسل کرے پھر وہ جمعہ کے لیے آئے تو جتنی اس کے مقدر میں نماز ہو ادا کرے…‘‘ ہے۔ اس سے ثابت ہوا جمعہ سے پہلے نوافل کی مقدار متعین نہیں جتنی توفیق ہو پڑھ سکتا ہے۔
اسی طرح جمعہ کے بعد آپﷺ سے زیادہ سے زیادہ ٦ رکعات نوافل ثابت ہیں۔جس سے متعلق اَحادیث درج ذیل ہیں:
1۔ابن عمر کے بارے میں وارد ہے کہ
إذا کان بمکة فصلى الجمعة تقدم فصلى رکعتین،ثم تقدم فصلى أربعًا، وإذا کان بالمدینة صلى الجمعة، ثم رجع إلىٰ بیته فصلى الرکعتین، ولم یصلي في المسجد فقیل له فقال: کان رسول اﷲ ﷺ یفعل ذلك (سنن ابوداؤد:١١٣٠)
’’جب وہ مکہ میں ہوتے تو جمعہ پڑھ کی دو رکعت ادا کرتے۔ پھر چار رکعات ادا کرتے اور جب مدینہ میں ہوتے تو جمعہ پڑھتے اور گھر جاکر دو رکعت پڑھتے،مسجد میں کچھ نہ پڑھتے۔اُن سے پوچھا گیا تو فرمایا : رسول اللہ ﷺاسی طرح کیا کرتے تھے۔‘‘
2۔آپﷺنے فرمایا:
«إذا صلى أحدکم الجمعة فلیصل بعدها أربع رکعات» (صحیح مسلم:٨٨١)
’’جب تم میں سے کوئی نمازِ جمعہ ادا کرے تو اس کے بعد چار رکعات اَدا کرے۔‘‘
دوسری حدیث کے تحت سہیل کہتے ہیں کہ
’’اگر جلدی ہو تو دو رکعت مسجد میں اور دو گھر میں پڑھ لے۔‘‘
3۔عبد اللہ بن عمر ؓفرماتے ہیں:
کان رسول اﷲ کان یصلى بعد الجمعة رکعتین في بیته (سنن نسائی:١٤٢٩)
’’بے شک رسول ﷺ جمعہ کے بعد اپنے گھر میں دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔‘‘
نوٹ:
مندرجہ بالااحادیث سے جمعہ کے بعد کے نوافل کی درج ذیل صورتیں سامنے آئیں:
1۔6رکعات نوافل مسجد میں ادا کر لیے جائیں۔
2۔4رکعت میں مسجد میں ادا کر لیے جائیں۔
3۔دو رکعت مسجد میں اور دو رکعت گھر میں پڑھ لی جائیں۔
4۔دو رکعت گھر میں ادا کر لی جائیں اور مسجد میں کچھ نہ پڑھا جائے۔
فرائض:
جمعہ کے فرائض دو رکعت ہیں۔آپﷺ نےفرمایا:
«من أدرك من الجمعة رکعة فلیصلي إلیها أخری» (سنن ابن ماجہ:١١٢١)
’’جو شخص جمعہ سے ایک رکعت پالے تو اسکے ساتھ دوسری آخری رکعت ملا لے۔‘‘
اس حدیث سے ثابت ہو ا کہ نمازِ جمعہ کے فرائض صرف دو رکعات ہیں۔ جو اس دن ظہر کی نماز کے متبادل ہوجائیں گے اور ظہر کی نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے
Bookmarks