جنوں اور انسانوں کے پیدا کرنے کی حکمت
امت مسلمہ کے لوگو ! جان لو کہ اللہ تبارک و تعالی نے ہر چیز کو کسی حکمت کی بنا پر پیدا کیا ہے جس کو وہی جانتا ہے اور اس کا ارادہ کرتا ہے ۔ مسلمان سے تو یقین کرنے اور اسے مان لینے کا مطالبہ کیا جائے گا ۔ اب برابر ہے کہ انسان اس حکمت کو جانے یا نہ جانے اگر اس نے اس حکمت کو جان لیا تو یہ نورٌ علی نور ہے اور اگر اس نے اس کی نہیں جانا تو اس پر لازم ہے کہ وہ مطیع اور فرمانبردار بن جائے اس لئے کہ عقل بشری ہر حکمت کے جاننے سے عاجز ہے ۔
صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین ان اوامر پر عمل کرتے اور نواہی سے بچتے تھے جن کا ذکر قرآن کریم اور احادیث نبوی میں آتا ہے نہ کہ وہ اس حکمت کے متعلق سوال کرتے ۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے زیادہ کوئی چیز دلالت نہیں کرتی جس وقت وہ حجر اسودکے پاس آئے اوراسے بوسہ دینے لگے توانہوں نے فرمایا :
انی اعلم أنک حجر لا تضر ولا تنفع ولولا أنی رأیت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یقبلک ما قبلتک (بخاری و مسلم ۲/۱۸۰) مسلم (۳/۶۷)
بے شک میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے نقصان دیتا ہے نہ نفع ۔ اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں تیرا بوسہ نہ لیتا
اللہ تبارک و تعالی نے جنوں اور انسانوں کو بہت بڑی حکمت کے تحت پیدا کیا ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ اکیلے اللہ تبارک و تعالی کی عبادت کرنا ا س کے سوا اوروں کی عبادت سے بچنا جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ والاِنْسَ الاَّ لِیَعْبُدُوْنَ (سورۃ الذاریات آیت ۵۶)
میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں ۔
اور اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا :
وَمَا اُمِرُوْا اِلاَّ لِیَعْبُدُ اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ وَیُقِیْمُوْا الصَّلوٰۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ وَذَالِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ (سورۃ البینۃ آیت ۵)
انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص رکھیں (ابراھیم حنیف کے دین پر) نماز کو قائم رکھیں ، زکاۃ دیتے رہیں ۔ یہی دین درست اور مضبوط ہے ۔
اس توحید والے مسئلہ کے متعلق قرآن کریم کی بہت سی آیات وارد ہیں جن کا اس مقام میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ مذکورہ بالا آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اکیلے اللہ تعالی کی ہی عبادت کرنا واجب ہے جو شخص اکیلے اللہ تعالی کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اوروں کو بھی اس کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے تو وہ مشرک اور کافر ہے ، دائرہ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور اگر وہ کوئی بھی عمل کرے تو وہ عنداللہ قابل قبول نہیں ہے بلکہ وہ عمل اس کے منہ پر دے مارا جائے گا اس لئے کہ اس نے توحید کی شرط کو ثابت نہیں کیا ۔
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا ْ
وَقَدِمْنَا إِلیٰ مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعلْنَاہٗ ھَبَآئً مَنْثُورًا (سورۃ الفرقان آیت نمبر ۲۳)
انہوں نے جو اعمال کئے تھے ہم نے ان کی طرف متوجہ ہو کر انہیں اڑے ہوئے ذروں کی طرح کر دیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث قدسی میں فرمایا :
من عمل عملاً اشرک فیہ معی غیری ترکتہ و شرکہ (رواہ مسلم کتاب الزھد ۴۶ ج ۴ ص ۲۸۹)
جس نے کوئی عمل کیا اور اس عمل میں میرے ساتھ اس نے کسی دوسرے کو شریک کیا تو میں اس عمل کو اور اس کے شرک کو چھوڑ دوں گا ۔
اللہ ہم سب کلمہ پڑھنے والوں کو کفر اور شرک سے بچاکر رکھے آمین
Bookmarks