Page 1 of 2 12 LastLast
Results 1 to 12 of 22

Thread: شب معراج مبارک

  1. #1
    ITDUNYA78 is offline Member
    Last Online
    14th January 2024 @ 12:27 PM
    Join Date
    16 Jun 2011
    Location
    Man lives on hopes.
    Gender
    Male
    Posts
    404
    Threads
    52
    Thanked
    26

    Default شب معراج مبارک

    اسلام و علیکم
    تمام لوگوں کو شب معراج کی مبارکباد قبول ہو،
    اللہ کریم اس رات کی برکات و رحمتیں
    تمام دنا پر نازل فرمایں۔۔۔۔۔آمین

    کون ہے جو تقدیر سے پوچھے کہ کیوں مر جاتے ہیں ایسے لوگ
    جنکی باتیں ، جنکی یاد یں بن جاتی ہیں دل کا روگ


    ----------------------------------------------

    سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴿017:001﴾

    ‏‏ پاک ہے وہ اللہ تعالٰی جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالٰی خوب سننے دیکھنے والا ہے
    ---------------------------------

    Attached Images Attached Images       

  2. #2
    *Xpert~Baba*'s Avatar
    *Xpert~Baba* is offline SHD38SK
    Last Online
    11th January 2018 @ 08:47 PM
    Join Date
    01 May 2010
    Location
    GHAR
    Gender
    Male
    Posts
    12,921
    Threads
    907
    Credits
    983
    Thanked
    2337

    Default

    Ap sab ko bhe
    jazkallah
    subhanallah
    alhamdulillah

  3. #3
    amjadattari's Avatar
    amjadattari is offline Advance Member
    Last Online
    24th March 2020 @ 02:25 PM
    Join Date
    23 Jul 2009
    Location
    pakistan
    Posts
    6,522
    Threads
    1227
    Credits
    1,302
    Thanked
    1248

    Default

    اللھم صلی علی محمد

  4. #4
    imdadkhan is offline Senior Member+
    Last Online
    25th January 2013 @ 03:40 PM
    Join Date
    16 Feb 2010
    Location
    dubai
    Age
    34
    Posts
    1,855
    Threads
    4
    Credits
    0
    Thanked
    90

    Default

    JazakAllah

  5. #5
    M-Qasim's Avatar
    M-Qasim is offline Advance Member+
    Last Online
    7th September 2022 @ 07:41 PM
    Join Date
    22 Mar 2009
    Gender
    Male
    Posts
    33,351
    Threads
    915
    Credits
    1,718
    Thanked
    3391

    Default

    Aap Ko Bhi
    Aur Sab Muslims Ko Mubarak Ho

  6. #6
    naveed hafiz is offline Senior Member+
    Last Online
    24th August 2011 @ 04:48 PM
    Join Date
    10 Jun 2011
    Age
    40
    Gender
    Male
    Posts
    79
    Threads
    0
    Credits
    740
    Thanked
    8

    Default

    aaj hi k raat meraj ki raat hai
    iski koi daleel bhi hai ?

  7. #7
    ITDUNYA78 is offline Member
    Last Online
    14th January 2024 @ 12:27 PM
    Join Date
    16 Jun 2011
    Location
    Man lives on hopes.
    Gender
    Male
    Posts
    404
    Threads
    52
    Credits
    0
    Thanked
    26

    Default daleel

    naveed bhae ap k naam k saath jo lafz hafiz hai iss mani daleel hai
    daleel ka hazana apke ander hai phire b poochtay ho

    naveed hafiz
    Member

    aaj hi k raat meraj ki raat hai
    iski koi daleel bhi hai ?


    http://www.itdunya.com/t262896/

    پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاںتوں نام رکھ لیا قاضی
    ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ غازی
    مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی
    او بھلیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی

    زندگی کو ضرورت میں رکھو۔خواہشات کی طرف نہ لے جاو!!ضرورت فقیروں کی بھی پوری ہوتی ہے، اور خواہشیں بادشاہوں کی بھی باقی رہ جاتی ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ
    اس فارم مٰیں منا ہے اسللام
    Attached Images Attached Images  

  8. #8
    Reehab is offline Senior Member
    Last Online
    12th November 2018 @ 06:28 PM
    Join Date
    29 May 2009
    Location
    Dammam
    Gender
    Male
    Posts
    2,448
    Threads
    40
    Credits
    1,150
    Thanked
    449

    Default

    الإسراء والمعراج


    قرآن مجید میں اسراء کا ذکر واضح طورپر (سورة الإسراء ) میں ہوا ہے ، اورمعراج کا ذکر ( سورة النجم ) کی پہلی آیت سے لے کر اٹهارویں تک ہوا ہے


    الإسراء : سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ سورة الإسراء آية ۱)
    پاک ہے وہ اللہ تعالى جواپنے بندے کو رات ہي ميں مسجد حرام سے مسجد اقصى تک لے گيا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے ، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں ، يقينا اللہ تعالى ہی خوب سننے والا اور ديکھنے والا ہے.

    یہ پوری سورت مبارکہ آگے پیچهے تسبیح وتحمید سے بهرپور ہے ، شاید اس میں اشاره ہے کہ آپ کو ایک ایسے جہان ومکان کی طرف منتقل کیا جائے گا جو پورا تسبیح سے بهرپور ہے ، سورة الإسراء سے پہلی سورت سورة النحل ہے جس کی ابتداء تسبیح کے ساتهہ ہے ( أَتَى أَمْرُ اللّهِ فَلاَ تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ) اورسورة الإسراء کے بعد سورة الكهف ہے جس کی ابتداء تحمید کے ساتهہ ہے ( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجَا ) اورسورة الإسراء کی آیات تسبيح وتحميد سے بهرپور ہیں ابتداء تسبیح کے ساتهہ اور اختتام تحمید کے ساتهہ ہے ( وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَم يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلَّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا ) اور پهر سورة النحل کا اختتام معیت کے ساتهہ ہے ( إِنَّ اللّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَواْ وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ ) اور معیت کی اعلی ترین قسم معراج ہے


    آیت مبارکہ ( سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ) کی مختصر تشریح


    سبحان : یہ لفظ لغت کے اعتبار سے إسم مصدر ہے یا عَلم ہے تسبيح پر ، اورقرآن مجید میں تسبیح کا ذکر کئ سورتوں میں ہوا ہے ، صيغه فعل ماضي کے ساتهہ جیسے (سبّح لله ) فعل مضارع کے ساتهہ جیسے (يُسبح لله) فعل أمرکے ساتهہ جیسے (فسبّح باسم ربك) فعل متعدی کے ساتهہ جیسے (سبّح اسم ربك الأعلى) (وتسبّحوه بكرة وأصيلا) (فسبّح باسم ربك) اور لفظ تسبیح اورتسبیح اسم کے ساتهہ جیسے (سبّح اسم ربك) ونسبّح له ونسبّح بحمده (فسبّح بحمد ربك واستغفره) الخ . لفظ سبحان سے سورت کی ابتداء سے ہوئی ہے جس میں اشاره ہے کہ سورت تسبیح سے بهرپور ہے جیسے ( سبحانه وتعالى عمّا يقولون علواً كبيرا ) ( تسبح له السماوات السبع والأرض ) وإن من شيء إلا يسبح بحمده ) الخ اور سورت کی ابتداء میں مطلق یعنی عام تسبیح کا ذکر کیا : قال تعالى ( سبحان الذي أسرى ) اس میں اشاره ہے کہ مُسَبَحِين یعنی تسبیح بیان کرنے والوں کی پیدائش سے پہلے بهی تسبيح مُطلق صرف الله تعالی کے لیئے ہے ، لہذا تسبیح کو مطلق یعنی عام ذکر کرنا اس سورت کے زیاده مناسب ہے

    بعبده : یہاں برسوله اور بمحمد نہیں فرمایا بلکہ بعبده فرمایا ، اس میں اشاره ہے کہ بنده چاہے کتنی بڑی عظمت وکمال کے انتہاء کو پہنچ جائے لیکن پهر بهی الله تعالی کی بندگی سے خارج نہیں ہوسکتا ، لہذا کسی کے لیئے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی بهی مقرب بنده کے لیئے وه مقام تجویز کرے جو اس کے شایان شان نہیں ہے جیسے نصاری نے عیسی علیه السلام کے ساتهہ کیا ہے ، لہذا قرآن مجید نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیئے عبد کا لفظ اختیار کیا ہے تاکہ آپ کے بلند درجہ وعظمت وکمال کی وجہ سے آپ کے لیئے مقام عبوديت کے علاوه کوئی اور مقام تجویز نہ کیا جائے ، کیونکہ مقام عبوديت ہی مخلوق کے لیئے سب سے أعلى وأرفع مقام ہے ، اور الله تعالی نے اپنے دیگر مقرب بندوں کے لیئے یہی مقام یعنی مقام عبوديت ہی تجویز کیا ہے ، لہذا حضرت نوح علیہ السلام کے بارے فرمایا ( إنه كان عبداً شكورا ) اور حضرت أيوب علیہ السلام کے بارے فرمایا ( نعم العبد إنه أوّاب ) اور آپ صلی الله علیه وسلم کے بارے فرمایا ( وإنه لمّا قام عبد الله يدعوه). اور حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے فرمایا ( إنی عبدالله ) وغیرذالک ، لہذا (بعبده) کا کلمہ اختیار کرنے میں زیاده تشریف وبزرگی ہے اور(بعبده) میں باء کی إضافت بهی تشريف کے لیئے ہے جو رعايت وحفاظت پر دلالت کرتی ہے جیسے قوله تعالى (فأوحى إلى عبده

    ليلاً : كلمہ ( أسرى ) کا معنی بهی ليلاً ہے یعنی رات کو ، کیونکہ اسراء رات میں ہی ہوتا ہے لیکن اس کے بعد ليلاً (ظرف مركّب) ذکر کرکے یہ بتا دیا کہ یہ طویل رحلت وسفر بيت الحرام سے مسجد الأقصى کی طرف اور پهر وہاں سے آسمانوں کی طرف رات کے ایک جزء اور حصہ میں ہوا ہے اور یہاں كلمه ( ليلاً ) ذکر کیا (الليل) نہیں فرمایا کیونکہ (الليل) کا کلمہ پوری رات پر دلالت کرتا ہے ، اور اسراء رات کے ایک جزء اور حصہ میں ہوا ہے پوری رات میں نہیں ہوا . سبحان الله


    من المسجد الحرام : علماء کرام فرماتے ہیں کہ اسراء مسجد الحرام سے نہیں بلکہ حضرت أم هانئ رضی الله عنها کے گهر سے شروع ہوتا ہے لہذا اس سے معلوم ہوا کہ مکہ سب کا سب حرم ہے . والله اعلم

    باركنا حوله : یہاں الله تعالی نے برکت کو اپنی طرف منسوب کیا جو کہ تعظیم پر دلالت ہے ، یعنی (نون) باركنا میں عظمت کے لیئے ہے ، یہاں ( بُورك حَوله ) نہیں فرمایا اور( باركناه ) بهی نہیں فرمایا بلکہ ( باركنا حوله ) فرمایا ، کیونکہ اگر (باركناه) فرماتے تو پهر برکت صرف مسجد اقصی تک محدود ہوتی ، لیکن ( باركنا حوله ) فرمایا کیونکہ اس صورت میں برکت مسجد اقصی تک محدود نہیں بلکہ اس کے ارد گرد کو بهی شامل ہے اور یہ مسجد کی تعظیم کے لیئے ہے ، اسی طرح ( باركنا ما حوله ) بهی نہیں فرمایا کیونکہ اس صورت میں اشیاء مراد ہوتیں اگر اشیاء زیاده ہوتیں تو برکت زیاده ہوتی اور اگر اگر اشیاء ختم ہوتیں تو برکت بهی ختم ہوتی ، لیکن یہاں برکت کو مطلق وعام فرمایا جو کہ معنوي ومادي وروحاني سب اشیاء کو شامل ہے اور یہ برکت کسی ایک چیزکے ساتهہ خاص نہیں


    لنريه من آياتنا : الله سبحانه وتعالی نے ابتدأ بالغائب یعنی (سبحان الذي أسرى) سے ابتداء کی ، اب یہاں سے متکلم کے اسلوب کی طرف إلتفات ہے تاکہ یہ معلوم ہو کہ مُتكلم وه الله تعالى ہی ہے کوئی شخص نہیں ہے ، مطلب اس کا یہ ہے کہ تاکہ ہم آپ کو اپنی بعض نشانیاں دکهائیں ، یہاں الله تعالی نے ( لِيَرَى یا لِيُرى ) نہیں فرمایا بلکہ ( لِنُريَه ) فرمایا یعنی الله تعالی نے فعل کی نسبت اپنی طرف کی ہے اور یہ آپ صلی الله علیہ وسلم إكرام وتشريف کے لیئے ہے


    إنه هو السميع البصير : یہاں افراد و وحدانيت کی طرف رجوع ہے ، قرآن كريم میں ضمير تعظيم ضمير وحدت سے پہلے یا بعد میں آتی ہے ، تاکہ سامع پر کوئی التباس نہ ہو اور الله تعالی کے ساتهہ کسی کو شریک نہ کر دے ، اور اس انداز کی مثالیں قرآن مجید میں کثیر ہیں ، جیسے سورة الكوثر ( إنا أعطيناك الكوثر* فصلّ لربك وانحر ) یہاں (إنا) تعظیم کے لیئے ہے اور (كاف) وحدانيت کا فائده دیتی ہے کیونکہ وه رب تعالی وحده لا شريك ہے ، لہذا اس میں دلالت ہے کہ درحقیقت الله سبحانه وتعالی ہی ان صفات کے ساتهہ مُتفرّد ہے اوران صفات کو صرف الله تعالی کے ساتهہ خاص کرنے کے لیئے (هو) ضمیر کو استعمال کیا گیا ، اسی طرح اس آیت میں الله تعالی کی قدرت کاملہ کا إثبات وذکر ہے اورآپ صلی الله علیہ وسلم کو جو اسراء کرایا گیا اس میں آپ کو کچهہ عظیم نشانیاں دکهائی اورسنائی گئیں جواس سے پہلے آپ نے نہ دیکهی اور نہ سنی تهیں ، لہذا آیت کے سیاق کے مناسب ہوا کہ وه عظیم نشانیاں جوآپ کو اپنے رب نے دکهائی اورسنائی ہیں وه رب بهی السميعُ البصير ہے

    فائده = قرآن مجید میں كلمہ ( سميع اور السميع ) چهیالیس ( 46 ) مرتبہ وارد ہوئے ہیں اوراسی طرح کلمہ ( بصير اور البصير ) چهیالیس ( 46 ) مرتبہ وارد ہوئے ہیں
    اسراء ومعراج کی تاریخ


    الإسراء : کا معنی ہے السير في الأرض ليلا، یعنی رات کو زمین میں سفرکرنا ، اور مقصود اس سے نبی صلى الله عليه وسلم کا مسجد الحرام سے مسجد الأقصى کی طرف سفرکرنا ہے
    المعراج : کا معنی ہے ارتفاع و صعود و ارتقاء وبلندی عالم ارض سے عالم سماء کی طرف ، اور مقصود اس سے رسول الله صلى الله عليه وسلم کا مسجد الأقصى سے سماوات العُلى کی طرف سفر ہے

  9. #9
    Reehab is offline Senior Member
    Last Online
    12th November 2018 @ 06:28 PM
    Join Date
    29 May 2009
    Location
    Dammam
    Gender
    Male
    Posts
    2,448
    Threads
    40
    Credits
    1,150
    Thanked
    449

    Default

    اسراء ومعراج کی تاریخ وزمانہ کون سا ہے ؟


    اس بارے میں اختلاف ہے اورمختلف اقوال ہیں لیکن دو بنیادی اقوال درج ذیل ہیں
    1 = اسراء ومعراج بعثت سے پہلے واقع ہوئے ہیں
    2 = اسراء ومعراج بعثت کے بعد واقع ہوئے ہیں
    بعثت سے پہلے اسراء ومعراج کے قائلین کی دلیل صحيح البخاري میں حضرت شريك ابن عبد الله کی روایت ہے أن الليلة التي أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم فيها : كانت قبل أن يوحى إليه
    اور بعثت کے بعد اسراء ومعراج کے قائلین کی دلیل وه ہے جو احادیث میں حضرت جبريل عليه السلام سے آسمان کے نگران کا سؤال کرنا وارد ہوا ہے جس میں بعثت کا ذکر ہے ، اور راجح قول یہی ہے کہ اسراء ومعراج بعثت کے بعد واقع ہوئے ہیں
    اورشريك ابن عبد الله کی روایت میں جو ذکر ہوا ہے تو علماء نے اس کو أوهام میں شمار کیا ہے بعثت سے پہلے اسراء ومعراج کا انکار کیا ہے
    وقال النووي : وقد جاء في رواية شريك في هذا الحديث في الكتاب أوهام أنكرها عليه العلماء
    شرح النووي على مسلم 2 / 209 ) وقال الخطابي: ليس في الكتاب – يعني في صحيح البخاري – حديث أشنع ظاهرا ولا أشنع مذاقا من هذا. فحاصل الأمر في النقل أن هذه القصة من جهة الراوي، إما من أنس وإما من شريك، فإنه كثير التفرد بمناكير الألفاظ التي لا يتابعه عليها سائر الرواة. وقال ابن حزم: لم نجد للبخاري ومسلم في كتابيهما شيئا لا يحتمل مخرجا إلا حديثين، ثم غلبه في تخريجه الوهم مع إتقانهما وصحة معرفتهما. وقال عبد الحق في الجمع بين الصحيحين: زاد فيه يعني شريك زيادة مجهولة، وأتى فيه بألفاظ غير معروفة، وقد روى الإسراء جماعة من الحفاظ فلم يأت أحد منهم بما أتى به شريك، وشريك ليس بالحافظ . ( انظر: فتح الباري 13 /480 . ) قال ابن حجر: ومجموع ما خالفت فيه رواية شريك غيره من المشهورين عشرة أشياء بل تزيد على ذلك: ومنها: أن الإسراء والمعراج كان قبل البعثة ( فتح الباري 13/ 480.)
    اسی طرح علماء کرام کا اجماع ہے کہ نماز ليلة الإسراء میں فرض ہوئی ہے اور اسراء ومعراج کو اگر بعثت سے پہلے قرار دیا جائے کہ نماز نزول وحی سے پہلے فرض ہوئی ہے تو یہ قول غلط ہے ، لہذا علماء اسلام کا راجح قول یہی ہے کہ اسراء ومعراج بعثت کے بعد واقع ہوئے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کب اور کون سی تاریخ میں اسراء ومعراج ہوا ہے ؟ تو اس بارے میں بہت سارے اقوال ہیں جس کی کچهہ تفصیل درج ذیل ہے

    1 = ہجرت سے ایک سال قبل ، حضرت ابن مسعود کا یہی قول ہے اورامام نووی نے بهی اسی پراعتماد کیا ہے ، اورعلامہ ابن حزم نے تو اس قول پراجماع نقل کیا ہے لیکن حافظ ابن حجر نے ان کا تعاقب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس بارے بہت اختلاف ہے
    2 = ہجرت سے آٹهہ ماه قبل ، حافظ ابن الجوزي نے اس قول کونقل کیا ہے
    3 = ہجرت سے چهہ ماه قبل ، أبو الربيع ابن سالم نے اس قول کونقل کیا ہے
    4 = ہجرت سے گیاره ماه قبل ، یہ إبراهيم الحربي کا قول ہے اور ابن المنير نے اسی قول راجح قرار دیا ہے
    5 = ہجرت سے دس ماه قبل ، ابن فارس نے یہ قول نقل کیا ہے
    6 = ہجرت سے سات ماه قبل ، یہ السُدي کا قول ہے
    7 = ہجرت سے سات ماه قبل ، ابن عبد البر نے یہ قول نقل کیا ہے
    8 = ہجرت سے تین سال ماه قبل ، ابن الأثير نے یہ قول نقل کیا ہے
    وغیرذالک من الاقوال

    علماء کرام نے ذکرکیا ہے کہ ان اقوال میں ظاہر قول یہ ہے کہ اسراء ومعراج ہجرت سے ایک سال قبل ہوا ہے

    اسراء ومعراج کا مہینہ کون سا ہے ؟؟

    اس بارے میں بهی بہت أقوال ہیں ، بعض نے کہا کہ ربیع الثانی میں ہوا ہے ، ابن المنير نے (شرح السيرة ) اسی کو ترجیح دی ہے اورامام نووي نے بهی اپنی (شرح مسلم ) میں اسی پراعتماد کیا ہے ، بعض نے کہا کہ ربيع الأول میں ، بعض نے رجب بعض نے رمضان بعض نے شوال میں کہا ہے ، اورامام السيوطي نے فرمایا کہ : والمشهور أنه في رجب یعنی مشہور یہی ہے کہ یہ رجب میں ہوا ہے . والله اعلم

    اسراء ومعراج کی رات کون سی ہے ؟؟


    اس بارے میں بهی مختلف اقوال ہیں

    1 = یہ رمضان کی ستارویں رات تهی ، یہ ابن سعد کا قول ہے
    2 = یہ ربيع الأول کی ستارویں رات تهی ، ابن جُماعه کا قول ہے
    3 = بعض نے کہا کہ رجب کی ستائیسویں رات تهی
    4 = یہ ربيع الثانی کی ستائیسویں رات تهی ، یہ ابن المنير کا قول ہے

    اسراء کہاں سے واقع ہوا ؟؟


    جگہ اور مکان سے مقصود یا مكان عام ہے یعنی شہر یا مكان خاص یعنی شہر کے جس جگہ سے اسراء ہوا ، مكان عام یعنی شہر تو مکہ ہے لظاهر قوله تعالى: ﴿ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ﴾[الإسراء:۱] اور مکان خاص کے بارے مختلف اقوال ہیں

    1 = امام بخاري کے نزدیک بيت الحرام کے پاس سے (صحيح البخاري ) وفي باب المعراج: في الحطيم، وربما قال: في الحِجْر، والشك من قتادة . قال الحافظ والمراد بالحطيم هنا : الحجر
    2 = امام زهري کی روایت میں حضرت أنس سے مروی ہے " فُرِجَ سقف بيتي وأنا بمكة " لہذا اس میں دلالت ہے کہ اسراء گهر سے واقع ہوا ہے
    3 = امام واقدي کی روایت میں ہے کہ شعب أبي طالب سے اسراء ہوا ہے
    4 = حضرت أم هانئ رضی الله عنها کی روایت میں ہے کہ اسراء ان کے گهر سے واقع ہوا ہے

    بعض علماء نے کہا کہ ان اقوال میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ مسجد الحرام سے مراد حرم ہے اور ابن عباس رضی الله عنهما کا قول ہے کہ حرم سب مسجد ہے قال ابن عباس: الحرم كله مسجد

  10. #10
    Reehab is offline Senior Member
    Last Online
    12th November 2018 @ 06:28 PM
    Join Date
    29 May 2009
    Location
    Dammam
    Gender
    Male
    Posts
    2,448
    Threads
    40
    Credits
    1,150
    Thanked
    449

    Default

    اسراء ومعراج بیداری کی حالت میں ہوا یا نیند میں ؟؟


    جمهور علماء اسلام مفسرين ومحدثين وفقهاء ومتكلمين کا مذهب یہ ہے کہ اسراء ومعراج بیداری کی حالت میں ہوا ، اور ظواهر اخبار صحیحہ میں بهی یہی بات موجود ہے ، اور اگرنیند میں ہوتا تو الله تعالی اس کا ذکر فرماتے جیسا کہ حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت إسماعيل کے ذبح کا قصہ الله تعالی نے ذکرکیا ہے ، اسی طرح اگر یہ نیند میں ہوتا تو کفار اس کی تکذیب نہ کرتے کیونکہ نیند میں آدمی اپنے آپ کو آسمان یا مشرق و مغرب میں دیکهہ سکتا ہے ، اسی طرح یہ مقام مشاهده کا ہے قوله تعالى: ﴿ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا )وقوله تعالى: ﴿ لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى ﴾ یہاں رؤیت سے مراد ظاہری طور پر رؤية العين ہی ہے ، اسی طرح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کی امامت واقتداء میں انبیاء علیهم السلام نے نماز پڑهی اور یہ صحیح نہیں کہ اس حالت میں آپ نیند میں تهے

    اسراء ومعراج جسمانی تها یا روحانی ؟؟


    اکثرعلماء اسلام أكثر متأخرين مفسرين ومحدثين وفقهاء ومتكلمين کا قول یہی ہے کہ روح وجسد کے ساتهہ بیداری کی حالت میں ہوا ہے ، حافظ ابن كثيرفرماتے ہیں کہ : جمهور سلف وخلف کا یہی مذهب ہے کہ اسراء بدن و روح کے ساتهہ ہوا ہے . قال ابن كثير: وهو مذهب جمهور السلف والخلف من أن الإسراء كان ببدنه وروحه صلوات الله وسلامه عليه كما دل على ذلك ظاهر السياقات من ركوبه ( البداية والنهاية ، بتصرف. ) مكه سے بيت المقدس کی طرف اوروہاں سے آسمانوں کی طرف اورجہاں تک الله تعالی نے چاہا یہ سارا سفر جسمانی اوربحالت بیداری ہوا ہے ، اگریہ روحانی ہوتا تو الله تعالی سبحان الذي أسرى بعبده کے بجائے بروح عبده فرماتے ، اور عبد حقیقت میں روح وجسد کوکہتے ہیں ويدل عليه قوله تعالى ﴿ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى ﴾ ﴿ لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى

    اسراء اور معراج ایک ہی رات میں ہوا یا نہیں ؟؟


    اسراء اور معراج دونوں ایک ہی رات میں واقع ہوئے ہیں ، جمهور علماء ومحدثين وفقهاء ومتكلمين کا یہی قول ہے . الإسراء والمعراج لابن حجر ص ۹۳.

    رجب كى ستائيسويں رات كو اسراء و معراج كا جشن منانے كا حكم كيا ہے ؟


    يہ رات جس ميں اسرا ومعراج کا واقعہ پيش آيا اس كى تعيين کے بارہ ميں کوئي صحيح حديث وارد نہيں ہے اوراسی لیئے اس كى تعيين میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں ، اور اگر اس كى تعيين ثابت بھی ہو جائے تو مسلمانوں کے لئے اس ميں كسى طرح کا جشن منانا يا اس کو كسى عبادت کے لئے خاص کرنا جائز نہيں ہے، کيونکہ نبی صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ کرام نےنہ تو اس ميں كسى طرح کا کوئی جشن منايا اور نہ ہی اسے كسى عبادت کے لئے خاص کيا، اور اگر اس شب ميں جشن منانا اور اجتماع کرنا شرعا ثابت ہوتا تو نبی صلی اللہ عليہ وسلم اپنے قول يا فعل سے اسے امت کے لئے ضرور واضح کرتے، اور اگر عہد نبوی يا عہد صحابہ ميں ايسی کوئی چيز ہوتی تو وہ بلا شبہ معروف ومشہور ہوتی اور صحابہ کرام اسے نقل کرکے ہم تک ضرور پہنچاتے کيونکہ انہوں نے نبی صلى اللہ عليہ وسلم سے نقل کرکے امت کو ہر وہ بات پہنچائی جس كى امت کو ضرورت تھی، اوردين کے كسى بھی معاملہ ميں کوئی کوتاہی نہیں كى بلکہ وہ نيكى کے ہرکام ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لينے والے تھےچنانچہ اگر اس رات ميں جشن منانے اور محفل معراج منعقد کرنے كى کوئی شرعی حيثيت ہوتی تو وہ سب سے پہلے اس پر عمل کرتے

  11. #11
    Reehab is offline Senior Member
    Last Online
    12th November 2018 @ 06:28 PM
    Join Date
    29 May 2009
    Location
    Dammam
    Gender
    Male
    Posts
    2,448
    Threads
    40
    Credits
    1,150
    Thanked
    449

    Default

    معراج کا بیان


    حضرت قتادہ ( جلیل القدرتابعی ) نے بیان کیا کہ ، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شب معراج کا واقعہ بیان کیا ، آپ نے فرمایا کہ میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا . بعض دفعہ (حضرت قتادہ ) نے حطیم کے بجائے حجر بیان کیا ، کہ میرے پاس ایک صاحب ( حضرت جبریل علیہ السلام ) آئے اور میر ا سینہ چاک کیا ، حضرت قتادہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ یہاں سے یہاں تک ۔ میں نے جارُود سے سنا جو میرے قریب ہی بیٹھے تھے ، پوچھا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس لفظ سے کیا مراد تھی ؟ تو انہوں نے کہا کہ حلق سے ناف تک چاک کیا ( قتادہ نے بیان کیا کہ ) میں نے حضرت انس سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کے اوپر سے ناف تک چاک کیا ، پھر میرا دل نکالا اور ایک سونے کا طشت لایا گیا جو ایمان سے بھرا ہواتھا ، اس سے میرا دل دھویا گیا اور پہلے کی طرح رکھ دیا گیا . پهراس کے بعد ایک جانور لایا گیا جو گھوڑے سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا اور سفید تها ، جارود نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا ابو حمزہ کیا وہ براق تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ جی ہاں . اس کا ہر قدم اس کے منتہائے نظر پر پڑتا تھا . ( تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) مجھے اس پر سوار کیا گیا اور جبریل مجھے لے کر آسمان دنیا پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا ، پوچھا گیا کون صاحب ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ جبریل علیہ السلام پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟
    آپ نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کہ ، کیا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں . اس پر آواز آئی انہیں خوش آمدید کیا ہی مبارک آنے والے ہیں . اور دروازہ کھول دیا . جب میں اندر گیا تو میں نے وہاں آدم علیہ السلام کو دیکھا ، جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ کے جد امجد آدم علیہ السلام ہیں ، انہیں سلام کیجئے ، میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک بیٹے اور نیک نبی . جبریل علیہ السلام اوپر چڑھے اور دوسرے آسمان پر آئے وہاں بھی دروازہ کھلوایا آواز آئی کون صاحب آئے ہیں ؟ بتایا کہ جبریل ( علیہ السلام ) پوچھا گیا آپ کے ساتھ اور کوئی صاحب بھی ہیں ؟ کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا آپ کو انہیں بلانے کے لئے بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ، پھر آواز آئی انہیں خوش آمدید ۔ کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ . پھر دروازہ کھلا اور میں اندر گیا تو وہاں یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام موجود تھے . یہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں . جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہ عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام ہیں ، انہیں سلام کیجئے میں نے سلام کیا اور ان حضرات نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی . پهر جبریل علیہ السلام مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے کر چڑھے اور دروازہ کھلوایا ۔ پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ جبریل ۔ پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا انہیں لانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ جی ہاں . اس پر آواز آئی انہیں خوش آمدید . کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ، دروازہ کھلا اور جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں یوسف علیہ السلام موجود تھے ۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ یوسف ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی . پھر حضرت جبریل علیہ السلام مجھے لے کر اوپر چڑھے اور چوتھے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا تو پوچھا گیا کون صاحب ہیں ؟ بتایا کہ جبریل ! پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیآنہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجاگیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں کہا کہ انہیں خوش آمدید کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ . اب دروازہ کھلا جب میں وہاں پر ادریس علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہ ادریس علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک بھائی اور نیک نبی . پھر مجھے لے کر پانچویں آسمان پر آئے اور دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون صاحب ہیں ؟ جواب دیا کہ جبریل ، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کہ انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں اب آواز آئی خوش آمدید کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ، یہاں جب میں ہارون علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ہارون ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب کے بعد فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی . یہاں سے لے کر مجھے آگے بڑھے اور چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں ؟ بتایا کہ جبریل ، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کوئی دوسرے صاحب بھی آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں . پھر کہا انہیں خوش آمدید کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ . میں جب وہاں موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے ، میں نے سلام کیا اور انہوں نے جواب کے بعد فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی . جب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا میں اس پر رو رہا ہوں کہ یہ لڑکا میرے بعد نبی بنا کر بھیجا گیا لیکن جنت میں اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ ہوںگے . پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر ساتویں آسمان کی طرف گئے اور دروازہ کھلوایا ۔ پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ جبریل ۔ پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیاکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں . کہا کہ انہیں خوش آمدید ، کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ، میں جب اندر گیا تو ابراہیم علیہ السلام تشریف رکھتے تھے . جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آپ کے جد امجد ہیں ، انہیں سلام کیجئے . آپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بیٹے . پھر سدرۃ المنتہیٰ کو میرے سامنے کردیا گیا میں نے دیکھا کہ اس کے پھل مقام حجر کے مٹکوں کی طرح ( بڑے بڑے ) تھے اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کان کی طرح تھے ۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے ، وہاں میں نے چار نہریں دیکھیں دو باطنی اور دو ظاہری ، میں نے پوچھا اے جبریل علیہ السلام یہ کیا ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ جو دوباطنی نہریں ہیں وہ جنت کی نہریں ہیں ، اور دوظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں . پھر میرے سامنے بیت المعمور کو لایا گیا ، وہاں میرے سامنے ایک برتن میں شراب ایک میں دودھ اور ایک میں شہد لایا گیا ۔ میں نے دودھ کا برتن لے لیا تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہی فطرت ہے اور آپ اس پر قائم ہیں اور آپ کی امت بھی . پھر مجھ پر روزانہ پچاس نمازیں فرض کی گئیں میں واپس ہوا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کس چیز کا آپ کو حکم ہوا ؟ میں نے کہا کہ روزانہ پچاس وقت کی نمازوں کا ، موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا لیکن آپ کی امت میں اتنی طاقت نہیں ہے . والله آپ سے پہلے میں لوگوں کو آزما چکا ہوں ، اور بنی اسرائیل کا مجھے سخت تجربہ ہے . اس لئے آپ اپنے رب کے حضور میں دوبارہ جائیے اور اپنی امت پر تخفیف کے لئے عرض کیجئے ۔ چنانچہ میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں دوبارہ حاضر ہوا اور تخفیف کے لئے عرض کی تو دس وقت کی نمازیں کم کردی گئیں ۔ پھر میں جب واپسی میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پھر وہی سوال کیا میں دوبارہ بارگاہ الہی میں حاضرہوا اوراس مرتبہ بھی دس وقت کی نمازیں کم کرائیں ۔ پھرمیں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا توانہوں نے وہی مطالبہ کیا میں نے اس مرتبہ بھی بارگاہ الہی میں حاضر ہوکر دس وقت کی نمازیں کم کرائیں ، موسٰی علیہ السلام کے پاس سے پھر گزرا انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا پھر بارگاہ الہی میں حاضر ہوا تو مجھے دس وقت کی نمازوں کا حکم ہوا میں واپس ہونے لگا تو آپ نے پھر وہی کہا اب بارگاہ الہی میں حاضرہوا تو روزانہ صرف پانچ وقت کی نمازوں کا حکم باقی رہا ۔ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو آپ نے دریافت فرمایا اب کیاحکم ہو ا ؟ میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ روزانہ پانچ وقت کی نمازوں کا حکم ہوا ہے ۔ فرمایا کہ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی میراواسطہ آپ سے پہلے لوگوں سے پڑ چکا ہے اور بنی اسرائیل کا مجھے تلخ تجربہ ہے ۔ اپنے رب کے دربار میں پھر حاضر ہوکر تخفیف کے لئے عرض کیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رب تعالیٰ سے میں بہت سوال کر چکا اور اب مجھے شرم آتی ہے ۔ اب میں بس اسی پر راضی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جب میں وہاں سے گزرنے لگا تو ایک ندا کرنے والے نے یہ ندا دی کہ میں نے اپنا فریضہ جاری کردیا اور اپنے بندووں پر تخفیف کردی

  12. #12
    Reehab is offline Senior Member
    Last Online
    12th November 2018 @ 06:28 PM
    Join Date
    29 May 2009
    Location
    Dammam
    Gender
    Male
    Posts
    2,448
    Threads
    40
    Credits
    1,150
    Thanked
    449

    Default

    حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ وَرُبَّمَا قَالَ فِي الْحِجْرِ مُضْطَجِعًا إِذْ أَتَانِي آتٍ فَقَدَّ قَالَ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ فَشَقَّ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ فَقُلْتُ لِلْجَارُودِ وَهُوَ إِلَى جَنْبِي مَا يَعْنِي بِهِ قَالَ مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مِنْ قَصِّهِ إِلَى شِعْرَتِهِ فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءَةٍ إِيمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِي ثُمَّ حُشِيَ ثُمَّ أُعِيدَ ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْيَضَ فَقَالَ لَهُ الْجَارُودُ هُوَ الْبُرَاقُ يَا أَبَا حَمْزَةَ قَالَ أَنَسٌ نَعَمْ يَضَعُ خَطْوَهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ فَقَالَ هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يَحْيَى وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا الْخَالَةِ قَالَ هَذَا يَحْيَى وَعِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ قَالَ هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ أَوَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِلَى إِدْرِيسَ قَالَ هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ قَالَ هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا مُوسَى قَالَ هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ فَلَمَّا تَجَاوَزْتُ بَكَى قِيلَ لَهُ مَا يُبْكِيكَ قَالَ أَبْكِي لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرُ مِمَّنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ هَذَا أَبُوكَ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ قَالَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ قَالَ مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ رُفِعَتْ إِلَيَّ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرَ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ قَالَ هَذِهِ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى وَإِذَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ فَقُلْتُ مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ قَالَ أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ هِيَ الْفِطْرَةُ الَّتِي أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ الصَّلَوَاتُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى فَقَالَ بِمَا أُمِرْتَ قَالَ أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ بِمَ أُمِرْتَ قُلْتُ أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ قَالَ سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ قَالَ فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي

    فتح الباري شرح صحيح البخاري » كتاب مناقب الأنصار » باب المعراج

Page 1 of 2 12 LastLast

Similar Threads

  1. Replies: 6
    Last Post: 12th October 2015, 03:55 PM
  2. شب معراج اور مجاہد کا مقام
    By Shehzad Iqbal in forum Islam
    Replies: 2
    Last Post: 5th March 2013, 06:28 AM
  3. رمضان المبارک میں کھجور کا شربت
    By Ladla Student in forum Ramadan Kareem رمضان كريم
    Replies: 16
    Last Post: 25th July 2012, 01:17 AM
  4. Replies: 7
    Last Post: 3rd January 2011, 10:04 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •