Quote Friend_Sania said: View Post
شاہ بانو میر
14 اگست کا بھی بٹوارہ ہو گا کیا؟


میں نے پاکستان کے بہت بٹوارے سنے بہت آنکھوں سے دیکھے ـ سقوط ڈھاکہ پاکستان کا بٹوارہ ـ سیاسی جماعت سے کئی کئی سیاسی جماعتوں کا بٹوارہ ـ مذہبی سوچ پر بٹوارہ ـ صوبائی تقسیم سے بٹوارہ جو نجانے پنجاب سے آگے اور کہاں تک جا پہنچے ـ رمضان کے چاند کا بٹوارہ دو دو تین تین مختلف ایام میں روزوں کے آغاز کا سننا ـ
عید کے چاند کا بٹوارہ اور بھی شرمناک جب یورپی ممالک میں ہم لوگ اسی بٹوارے کے تحت تین تین عیدیں منا چکے ہوں ـ یہ سب بٹوارے میں نے دیکھے سنے اور برداشت کئے لیکن شائدآج جو بٹوارہ دیکھا ذہنی سوچ کا وہ سب سے زیادہ خوفناک اور تکلیف دہ تھا ـ
ایک عجیب ہی ذہنی کرب کا احساس ہوا جب مختلف ویب سائٹس پر اپنے تارکین وطن کو بٹا ہوادیکھا ـ تارکین وطن وہ لوگ ہیں جو دیارِ غیر میں اپنی مجبوریوں سے آئے اور اپنے خاندان کی ترقی اور کامیابی کی ضمانت بن گئے ـ اسکے بدلے میں ان کو ملی پردیس کی تنہائی یہاں کے مصائب اور دن بدن دوسری قوموں کے سامنے پاکستان کی بڑہتی ہوئی رسوائی کا سامنا تارکین وطن جتنے ہمدرد اور حساس پاکستان کیلیۓ ہیں ، شائد پاکستان میں بسنے والے لوگ بھی اتنے ہمدرد نہی ایسا ہی احساس ہوتا ہے اب تو میں جس جس ویب سائٹ کو کھولتی ہوں نئے نئے نام نظرآرہے ہیں ـ اور ہر تحریر میں زلف و رخسارکے قصے نہیں ہوتے بلکہ الم ناک سچائیاں تحریر ہوتی ہیں ـ جو سیدھی دل پر اثر کرتی ہیں ـ پاکستان نے نجانے کتنے نئے تحریر شناس پیدا کر دیے، جو وہاں کے حالات کو برداشت نہیں کر سکے اور اب قلم کے ذریعے اپنی سعی کر رہے کہ"" شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات "" 14 اگست کے بارے میں عجیب ہی سوچ کا بٹوارہ نظرآرہا ہےـ سچ تو یہ ہے کہ مصائب کا آلام کا ایک شرمناک طوفاں ہےـ جو تھمنے کا نام نہی لے رہا ـ کہیں خبر لگی ہے فلاں جگہ پورے جوش و خروش سے جشن آزادی منایا جائے گا کہیں لکھا ہے کہ بہت سادگی کے ساتھ دعا کروائی جائے گی ـ یہ کیا ہے؟ ملک اگر ایک ہے اور ہم بحیثیتِ قوم ایک ہی قوم ہیں اور ہمارے غم ہماری خوشیاں سب ایک ہی ہیں تو یہ سوچ کا بٹوارہ 14 اگست پر کیوں؟؟
اس 14 اگست پر دو رائے ہو کیسے سکتی ہیں جو ملک کے خطرناک ترین حالات ہیں کیا یہ وقت جشن کا ہے؟ اگر جشن منانا ہے تو پھر پچھلے سال سے اب تک کی ہوئی تباہیوں کا ذکر کریں اور پھر دیکھیں کہ ہاتھ شادیانے بجاتے ہیں یا پھر آنسو سے تر پاکستان کیلیۓ سلامتی کی دعا کیلیۓ اٹھتے ہیں ـ اور ساتھ ہی ساتھ ان معصوم بے بے گناہ ہمارے پاکستانی بہن بھائیوں معصوم پھولوں کی یاد میں دعا کیلیۓ ـ

جشن ایسی صورت کیسے منایا جا سکتا ہے؟ جب ایک گھر ملی نغموں سے پاکستان سے اپنی محبت کا یقین دلا رہا ہو اور چند گھر چھوڑ کسی جوان کے لاشے پر ماتم ہو رہا ہو ـ کیسے ممکن ہے کہ ابھی سیکڑوں گھروں میں 14 اگست کو کہیں قل کی رسوم ہو رہی ہوں گی ـ کہیں دسواں کروایا جا رہا ہو گا ، تو کہیں چالیسواں ـ ایسے حالات ایسے مصائب میں کیا جشن منایا جا سکتا ہے؟؟ کراچی کے شہری اس وقت رِستا زخم بنے ہوئے ہیں جہاں روزانہ لاشوں کا اٹھایا جانا ایک عام معمول بن گیا لیکن کبھی جھانکٔے جا کر ان گھروں میں جہاں سے کوئی اس طرح رخصت ہو جاتا ہےـ وہی اصل مایوس اور غمزدہ ذہن ہیں جو گھر میں روزی کمانے والے کے یوں چلے جانے کے بعد منفی سوچ اختیار کر کے مذید پاکستان کیلیۓ جرائم کی داستان تحریر کرتے ہیں ـ ان زخمی لوگوں کے سامنے آپ جشن کیسے منا سکتے ہیں؟

ایک اچھی باشعور قوم ہونے کی حیثیت سے چاہیۓ تو یہ کہ ہم سب باوقار طریقے سے دھوم دھڑکے ملی نغموں اور سازو آواز جیسی چیزوں سے اجمتاعی طور پے خود کو الگ کر کے اپنے ان بہن بھائیوں کے ساتھ دکھ کی اس گھڑی میں شریک ہوں ـ جن کے پیاروں کی جان پاکستان کی سیاست کی بھینٹ بغیر کسی جرم کے چڑہائی گئی ہیں ـ یاد رکھئے اس وقت کی یہ تقسیم آپ کے ملک کو صوبوں کو اور شہروں کو خطرناک حد تک دور لے جائے گی ـ ایک صوبے میں اس وقت ظلم کا بازار گرم ہےـ اور دوسرے میں سکون ہے تو کیسے ہو سکتا کہ آپ خوشیاں منائیں جبکہ وہ صوبہ اسی ملک کا ایک بنیادی جزو ہےـ جو اس وقت خون میں نہایا ہواہے ـ

سیاسی شعبدہ بازوں سے التماس ہے کہ اس ملک نے اس دھرتی نے بہت بٹوارے سہہ لئے اب ہر بٹوارے سے زیادہ خوفناک بٹوارہ 14 اگست کو منایا کیسے جائے شایانِ شان طریقے سے یا سادگی سے ـ اس تقسیم پر بٹنے سے بچا لیں غیرت مند لوگ اپنی عزتوں کی جانوں کی تلافی آنسوؤں سے خاموش بیٹھ کر قرآن پاک پڑھ کر کرتے ہیں ـ اتنی اندھیر نگری میں مصنوعی ماسک لگا کر کھوکھلی خوشیاں منا کر نہیں ـ حکومتِ ِوقت سے استدعا ہے ـ کہ بڑے ہونے کا ثبوت فراہم کرے اپنی سیاسی دوکانداری کو نہ چمکائے اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے صرف پرچم کشائی کرے بینڈ باجوں سے ملی نغموں کی نہی اس وقت جنگی ترانوں کی ضرورت ہے، جو ہماری فوج کے احساس کو بیدار کرے اور قوم کو بیداری کی طرف لا کر اپنے ساتھ ہونے والی ہزیمت کا احساس اجاگر کرے ـ اگر 14 اگست کو روایتی انداز میں منایا گیا تو پھر پاکستان کے زخمی لوگ اور متاثرہ صوبے بلوچستان سے بھی زیادہ احساس تنہائی کا شکار ہوکر ایک نئی خطرناک تقسیم یا بٹوارے کی طرف بڑھ جائیں گے ـ جو شائد ان موت کے سوداگروں کو ابھی نظر نہی آرہی ـ 14 اگست پر ایک ہی مکمل فیصلہ ہونا چاہیۓ، دعاؤں کا اہتمام اور عاجزی سنجیدگی کے ساتھ پرچم کشائی اور اللہ کے حضور پاکستان کے بقا کی دعا ـ جشن کا لفظ ایسے حالات میں جلتی پر تیلی کا کام کرے گاـ اے سیاستدانو!! کتنا جلاؤ گےاس ملک کو پہلے ہی بہت جل چکا !! دکھ یہ ہے کہ اس وقت سوچ پوری قوم کی بس ایک ہونی چاہیۓ تھی ـ وہ کیسے بٹوارے میں تبدیل ہوئی ؟؟؟
Agreed