NOTE This News Is Taken From BBC ThankYou

سائبر آرڈیننس کے اجراء پرغور

پاکستان میں حکومت سائبر کرائمز یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم سے متعلق ایک آرڈیننس کے اجراء پر غور کر رہی ہے جس کے تحت بغیر اجازت کسی کی تصویر کھینچنا، انٹرنیٹ یا موبائل کی مدد سے کسی کو ایسا پیغام بھیجنا جسے ناپسندیدہ، غیراخلاقی یا بے ہودہ سمجھا جائے اور مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کرنا جرم ہوگا اور اس پر سات سال تک قید یا تین لاکھ روپے تک سزا سنائی جاسکتی ہے
نفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ افراد اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس قانون کے مسودے پر سخت اعتراضات کیے ہیں۔
مجوزہ قانون کا نام پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم آرڈیننس ہے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی کابینہ نے تو اس کی منظوری بھی دے دی تھی لیکن بوجوہ یہ نافذ نہیں ہوسکا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کو انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے قوانین سے لیس کرنا ہے لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ افراد اور دوسرے ماہرین کہتے ہیں کہ اس قانون میں صرف انٹرنیٹ ہی نہیں بلکہ موبائل، کیمرہ اور تصویر کشی اور پیغام رسانی کے لئے استعمال ہونے والے دوسرے برقی آلات کے استعمال کا بھی احاطہ کیا گیا ہے اور اسکے نفاذ سے فائدہ کے بجائے نقصان کا خطرہ ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عالمی قوانین پر دسترس رکھنے والے قانون دان زاہد جمیل کہتے ہیں کہ اس قانون کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے اور مجموعی طور پر ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے غیرملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی۔
’اس قانون میں تو یہ کہا گیا ہے کہ جی اگر آپ میری مرضی نہ ہو اور آپ نے گزرتے ہوئے میری فوٹو لے لی اور تو یہ الیکٹرانک کرائم ہے، تو پھر تو الیکٹرانک جرنلزم تو ختم ہوگئی نا یہ تو آزادی صحافت پر بھی ایک وار ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال کرکے کسی کے خلاف بھی ایف آئی آر داخل کرائی جاسکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس قانون میں جن جرائم کی نشاندہی کی گئی ہے ان کی پوری طرح وضاحت نہیں کی گئی ہے مثلاً انٹرنیٹ یا موبائل کی مدد سے کسی کو ایسا پیغام بھیجنا جسے ناپسندیدہ، فحش، غیراخلاقی یا بے ہودہ سمجھا جائے اسے جرم قرار دیا گیا ہے لیکن یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کس طرح کا پیغام غیراخلاقی تصور کیا جائے گا۔
’کسی بھی قانون میں جرم کی پوری طرح وضاحت کی جاتی ہے میرے خیال میں جو نان ٹیکنیکل لوگ ہیں انہوں نے اس قانون کو ڈیفائن کیا ہے اور اس طرح ڈیفائن کیا ہے کہ یہ دوسرے ملکوں کے قوانین کے بالکل برعکس ہے۔‘
مجوزہ قانون میں ویسے تو مختلف جرائم کے لئے بھاری جرمانوں کے ساتھ ساتھ تین ماہ سے دس سال تک قید کی سزا تجویز کی گئی ہے لیکن اس میں ایسے شخص کو سزائے موت کا حقدار قرار دیا گیا ہے جو کسی الیکٹرانک سسٹم یا ڈیٹا سے ایسی چھیڑ چھاڑ میں ملوث پایا جائے جس سے کسی کی موت واقع ہوگئی ہو۔
زاہد جمیل کے بقول یہ ایک نئی مثال ہے۔ ’دنیا کے مہذب ممالک میں مثلاً امریکہ، برطانیہ وغیرہ میں اس طرح کے جرائم کے لئے سزائے موت کہیں بھی نہیں ہے۔‘
انٹرنیٹ پر معلومات کے حصول کی مکمل آزادی ہوتی ہے لیکن اس قانون میں کچھ اور کہا گیا ہے۔ زاہد جمیل کے مطابق اس قانون میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص انٹرنیٹ پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں اگر معلومات تلاش کرکے کاپی کرتا ہے تو اسے بھی سائبر ٹیررازم قرار دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس قانون کے اجراء سے پہلے ہی لوگوں نے انٹرنیٹ پر ای میلز اور بلاگس کے ذریعے اسکے خلاف مہم شروع کردی ہے