اکثر والدین بچوں کے کھانے پینے کے بارے میں بہت فکر مند رہتے ہیں کہ وہ صرف اپنی پسند کی چند چیزیں کھاتے ہیں۔ خاص طورپر سبزیوں اور کئی پھلوں کے تو قریب بھی نہیں بھٹکتے۔ ظاہر ہے کہ صرف چند چیزیں کھانے سے انہیں وہ تمام ضروری وٹامنز اور نمکیات نہیں مل سکتے جو صحت اور بڑھتی ہوئی عمر کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ یہ کسی ایک علاقے، ایک ملک یا ایک براعظم کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ دنیا بھر میں والدین کو اس پریشانی کا سامنا ہے۔
حال میں سائنس دانوں نے اس بات کا پتا چلایا ہے کہ بچوں کو بہت آسانی سے سبزیاں اور پھل کھانے پر نہ صرف یہ کہ آمادہ کیا جاسکتا ہے بلکہ اسے ان کی مرغوب غذا بنایا جاسکتاہے۔
نیویارک کی کورنل یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک سائنسی تحقیق میں چارسال کی عمر کے 186 بچوں کو شامل کیا گیا، جس کے دوران ماہرین نے ان بچوں کو گاجریں کھانے کی طرف راغب کر دیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے گاجروں کو گاجر کہنے کی بجائے ان پر بچوں کی پسندیدہ چیزوں کے نام لیبل لگادیے۔ ماہرین نے بچوں کے لنچ بکسوں میں پہلے دن گاجریں رکھیں اور انہیں کوئی لیبل نہیں دیا۔ اس سے اگلے دن انہوں نے لنچ بکسوں میں رکھی جانےوالی گاجروں پر بچوں کی کسی بھی پسندیدہ چیز کے نام کا لیبل لگادیا، اور یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رکھا۔
ماہرین کو معلوم ہوا کہ گاجروں کو نئے نام دینے سے بچے گاجریں کھانے کی طرف زیادہ راغب ہوگئے اور کچھ عرصے بعد انہوں نے بڑی رغبت سے گاجریں کھانا شروع کردیں اور ان میں گاجریں کھانے کی شرح 50 فی صد تک بڑھ گئی۔
بعد ازاں ماہرین کے گاجروں پر سے بچوں کی پسندیدہ چیزوں کے ناموں کے لیبل لگانے چھوڑ دیے لیکن بچوں میں گاجروں سے رغبت کی یہ شرح برقرار رہی۔
کورنل یونیورسٹی کے پروفیسر اور اس تحقیق کے سربراہ برائن وان سنک کا کہنا ہے کہ کھانوں کو اچھے اورپسندیدہ نام دے کر انہیں بچوں کے لیے پسندیدہ بنایا جاسکتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی کھانے کو چاہے وہ مٹر ہوں، مولی ہوں، گوبھی ہو یا کچھ بھی ہو، اگر ان کو بچوں کے پسندیدہ نام دے دیے جائیں تو بچے اسے کھانے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں اور اسے کھاکر لطف اٹھاتے ہیں۔
پروفیسر وان سنک کہتے ہیں کہ مثال کے طورپر جو بچہ ڈائنو سار پسند کرتا ہے اور اسے گاجر پسند نہیں ہے تو اسے گاجر دیتے ہوئے کہا جائے کہ یہ ڈائنوسار گاجر ہے تو وہ اسے شوق سے کھائے گا۔
یہ نتائج صرف بچوں پر ہی صادق نہیں آتے بلکہ بڑے بھی ناموں کی تبدیلی سے یکساں طورپر متاثر ہوتے ہیں۔ایک ریستوران میں کی جانے والی تحقیق سے ظاہر ہوا کہ جب مچھلی سے تیار کردہ ایک مخصوص ڈش کا نام تبدیل کردیا گیا تو اس کی فروخت میں 28 فی صد اضافہ ہو گیا اور اس کے ذائقے کی پسندیدہ کی شرح 12 فی صد بڑھ گئی۔حالاں کہ خانساموں نے اس ڈش کے تیار کرنے کے طریقے میں مطلقاً کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔
پروفیسر وان سنک نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جب کسی خوراک سے ہماری توقعات بدل جاتی ہیں تو ہم اسے ایک مختلف احساس کے ساتھ کھاتے ہیں اور اسے کھاتے ہوئے ہم مختلف تجربے سے گذرتے ہیں۔
سبزیوں کے بارے میں یہ ریسرچ ان بچوں پر کی گئی تھی جو اسکول جانے کی عمر کو پہنچنے والے تھے، لیکن ماہرین کا خیا ل ہے کہ یہ طریقہ ان سے چھوٹی عمرکے بچوں پر بھی کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔
ایک اور ماہر کولن پائنے کا کہناہے کہ وہ یہ طریقہ خود اپنے بچوں پر بھی استعمال کررہے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ بچے اپنے تخیل میں جس چیز کو پسند کرتے ہیں غالباً وہی تخیل ان میں بھوک بڑھانے کا سبب بھی بنتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج واشنگٹن کے سکول نیوٹریشن ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس میں پیش کیے گئے۔
Bookmarks